انتظام حکومت
سب تاریخیں متفق ہیں کہ حضرت فاروق اعظم ؓ کی خلافت کا زمانہ تاریخ اِسلام کا سنہرا زمانہ تھا۔ دس سال کے قلیل عرصہ میں مُسلمانوں نے ایران اور روم کی سلطنتوں کو زبردست شکستیں دیں اور عربوں نے اپنی بہادری کا سِکّہ بھی دُنیا کے دِلوں پر بٹھا دیا۔
حضرت عمرؓ کی دانائی کا یہ عالم تھا کہ فوجیں مدینہ سے ہزاروں کوس کے فاصلے پر لڑ رہی ہیں۔ آپ کو کبھی ان علاقوں میں جائے گا موقع نہیں ملا۔ میدانِ جنگ سے جو خبریں آتی تھیں۔ اُنہی کی بنا پر میدانِ جنگ کا نقشہ خود تیار کرکے بھیجا کرتے تھے۔
انتظام اتنا اچھا تھا کہ آپ کے وقت میں گوہر طرف جنگیں جاری تھیں مگر سب جگہ وقت پر کمک بھی پہنچتی تھی اور سامان اور رسد کی بھی کبھی شکایت نہ ہوئی۔ سرحدی علاقوں میں زبردست چھائونیاں بنائی گئیں اور نئے علاقوں کا نہایت عمدہ انتظام کر دیا گیا تھا۔ فوج میں غیر مسلم لوگ بھی لئے جاتے تھے۔ سامانِ حرب میں نت نئی اصلاحات ہونے لگیں۔
حکومت کا یہ حال تھا کہ باوجود اتنی وُسعت کے ہر جگہ ایک قابل اور معتبر گورنر مقرر کیا جا تا تھا۔
آپ نے کئی گورنروں سے معمولی لوگوں کو قصاص دِلایا۔
کسی کو آپ کے سامنے دَم مارنے کی جرأت نہ ہوتی تھی۔ رعایا کو حکم تھا کہ اگر کسی حاکم کے خلاف کوئی شکایت ہو تو حج کے موقع پر پیش کی جائے اور گورنروں کو حکم تھا کہ حج کے موقع پر آیا کریں۔ تاکہ وہیں تقرری ٗ تبدیلی ٗ معزولی اور سزا جزا کا فیصلہ ہو سکے۔
محاصل کے حساب وکتاب میں اِس قدر احتیاط برتتے تھے کہ جو ملک فتح ہوتا ٗ سب سے پہلے اُس کے محاصل ٗ رقبہ اور آبادی کا حساب لگاتے اور اس بات کی خاص احتیاط فرماتے تھے کہ کہیں کوئی خیانت تو نہیں ہوتی۔ نیز ایران اور مصر میں محاصل کے دفتر فارسی اور رُومی زبان میں قائم کیے گئے تاکہ محاسبوں اور محررّوں کی تلاش میں دِقت نہ ہو۔
عدالت کا محکمہ الگ تھا۔ ہر صُوبے کے لئے بلند پایہ صحابیوں میں سے کسی کو مقرر کر رکھا تھا۔ حضرت علی ؓ ٗ حضرت عثمانؓ ٗ حضرت معاذ حضرت عبدالرحمن بن عوف حضرت اُبی ؓ بن کعب ٗ حضرت زیدؓ بن ثابت ٗ حضرت ابُوہریرہ ؓ اور حضرت ابُودرداء ؓ کے سوا کوئی فتویٰ دینے کا مجاز نہ تھا۔
عوام کی حفاظت کے لئے پولیس اور خفیہ پولیس کا نہایت اچھا انتظام تھا۔ مجرموں کو سزا دینے کے لئے جیل خانے بنائے گئے تھے۔ اسلام میں بعض صورتوں میں جلاوطنی کی سزا آپ نے ہی مقرر فرمائی تھی۔
آپ کے عہد میں تعمیرات کا ایک مستقل شعبہ قائم تھا۔ جس کے ذریعے مسجدیں اور سڑکیں بنائی گئیں۔ پُل تعمیر ہوئے اور نہریں نکالی گئین۔ جن میں سے نہرابی موسیٰ اور نہر متصل بہت مشہور ہیں۔ ہر بڑے شہر میں سرکاری مہمان خانے تعمیر کرائے اور کئی نئے شہر بھی آباد کیے گئے۔
عرب میں تعلیم کا کوئی رواج نہ تھا۔ امیروں اور رئیسوں کے بچے معمولی تعلیم حاصل کر لیتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے ہر صوبے اور ہر ملک میں ابتدائی مدارس قائم کر دئیے تھے۔ جن میں مذہبی تعلیم کا خاص اہتمام کیا جاتا تھا۔ ہر جگہ قاری اور حافظ قرآن مقرر ہوئے۔ بیت الحرام اور مسجد ِ نبوی کو وسعت دی گئی۔ اوّل اوّل مسجد میں فرش اور روشنی کا انتظام آپ ہی کے حکم سے ہوا تھا۔
مردم شماری کا محکمہ الگ تھا۔ جس سے مُسلمانوں ذمیّوں ٗ غلاموں اور دیگر افراد کا پتہ چل جاا تھا۔ اِس کا سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ ذمیّوں کے حقوق کی پوری نگرانی کی جا سکے اور غلاموں کو آزاد کِیا جا سکے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جنابِ فاروق کے عہد میں غلامی کا رواج بہت کم ہو گیا تھا۔
حضرت عمرؓ نے قرآن شریف اورآنحضرت ؐ کے حالات اور خیالات کو سامنے رکھ کر ایک جمہوری سلطنت کی بنیاد قائم کی جو ان کا عظیم الشان کارنامہ ہے۔
حضرت فاروق اعظمؓ کے عہد میں ہر شخص کو مذہبی آزادی حاصل تھی۔ مومن اور کافر کی حفاظت اور مدد یکساں کی جاتی تھی اور اُن کے درمیان انصاف میں کوئی فرق روا نہ رکھا جاتا تھا۔ غیر مُسلموں کی حفاظت کے لئے اُن سے ایک معمولی رقم بطور جزیہ لی جاتی تھی۔ لیکن جو لوگ فوج میں شریک ہو جاتے تھے۔ اُن کا جزیہ معاف کر دیا جا تا تھا۔ جزیے کی مقدار عام لوگوں سے چھ درہم ٗ امیروں سے بیس درہم اور محنت مزدوری کرنے والوں سے تین درہم سالانہ مقرر تھی لیکن یہ ایک خاص رعایت تھی کہ بیس ال سے کم اور پچاس سے زیادہ عمر والے مردوں ٗ عورتوں ٗ لُولوں ٗ لنگڑوں ٗ اندھوں ٗ پاگلوں اور غریبوں سے کچھ نہیں لیا جاتا تھا۔ غریب سے مراد وہ لوگ تھے۔ جن کے پاس ساٹھ روپوں سے کم نقدی ہوتی تھی۔ علاوہ ازیں دوسری قوموں کے رہنمائوں سے کوئی جزیہ نہ لیا جاتا تھا۔
چونکہ سن وغیرہ لکھنے کا ابھی تک کوئی رواج نہ ہوا تھا۔ جس سے تحریروں میں سخت دِقت پیش آتی تھی۔ اس لئے حضرت عمرؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے سنِ ہجری کی بنیادی ڈالی۔ علاوہ بریں اسلامی سکّہ بھی آپ ہی کی ایجاد ہے۔ اس سے پہلے شامی اور یمنی سِکّے چلتے تھے۔ لیکن حضرت عمرؓ کے عہدِ خلافت میں ہر ملک کا سکّہ عرب میں آنے لگا تو اُنہوں نے بھی ایک اِسلامی سکّہ جاری کیا۔ جس کے ایک طرف الحمد للہ اور دوسری طرف لا اِلٰہ الا اللہ وحدہ ٗ کے لفظ تھے اور بعض پر الحمد للہ کی جگہ محمد رسُولُ اللہ درج تھا۔
حضرت عمرؓ کا قد لمبا تھا۔ سر پر بال کم تھے۔ آنکھیں بڑی اور پُر رعب تھیں۔ڈاڑھی گھنی اور مونچھیں بڑی بڑی تھیں۔ ڈاڑھی میں مہندی لگاتے تھے۔ رُخساروں میں گوشت کم تھا۔ بالوں کو روزانہ کنگھی کیا کرتے تھے۔ کندھے چوڑے اور سینہ کشادہ تھا۔ رنگ نہایت سُرخ و سفید تھا۔ نہایت قومی ہیکل تھے۔ ان کی صورت سے رُعب ٹپکتا تھا۔
اسلام قبول کرنے سے پہلے مُسلمانون پر سختیاں کیا کرتے تھے لیکن جس وقت مُسلمان ہوئے تو اُنہوں نے کُھلّم کھُلا اِسلام کی تبلیغ شروع کر دی۔ اذان کا سلسلہ آپ ہی کی رائے سے شروع ہوا۔
حضرت عمرؓ نے اپنے عہد خلافت میں مُسلمانوں کے اندر حقیقی مساوات اور جمہوریت کی رُوح پیدا کر دی۔ وہ کسی کام کو بغیر مشورہ کے طے نہ کرتے تھے اور اگر کوئی معمولی سا آدمی بھی کوئی اچھی بات کہتا تو آپ فوراً قبول کر لیتے۔
حضرت عمر ؓ جس قدر امیروں اور گورنروں کے لئے سخت تھے ٗ رعایا کے لئے اُتنے ہی نرم تھے۔ ہمیشہ اُن کی بہتری اور بہبودی میں لگے رہتے تھے۔ خلافت کی ذمہ داری کا اُنہیں بڑا احساس تھا۔ فرمایا کرتے تھے کہ
اگر ساحل فرات پر بھی کوئی اُونٹ ضائع ہو جائے تو مجھے ڈر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں اس کی جواب دہی کرنی پڑے گی۔
ایک دفعہ صدقے کا کوئی اُونٹ گُم ہو گیا۔ باوجود سخت دُھوپ کے آپ اُس کی تلاش کر رہے تھے۔ کسی نے کہا
یا امیر المومنین! آپ خود کیوں تکلیف اُٹھا رہے ہیں؟ یہ کام کسی اَور کے سُپرد کر دیا ہوتا
آپ نے جواب دیا کہ
اِس کی حفاظت میرے ذمے واجب ہے۔ قیامت کے دِن مجھ سے ہی پُرسش ہوگی۔
قبیلوں کے دفاتر خود اُٹھا کر لے جاتے تھے۔ اور بچوں اور عورتوں کو نام بنام بُلا کر اپنے ہاتھوں سے اُن کو وظیفے دیتے تھے۔ رات کو مدینہ کے نواح میں گشت کرتے رہتے تھے۔ جب کوئی قافلہ مدینہ کے نواح میں آجاتا تو اس کی حفاظت اس طور پر کرتے کہ اُنہیں ہرگز یہ علم نہ ہوتا کہ اُن کا پاسبان خلیفہ وقت ہے۔
ایک رات اپنے غلام اسلم کو ساتھ لے کر مدینہ سے تین میل کے فاصلے پر مقام ضرار میں پہنچے۔ دیکھا کہ ایک خیمہ میں ایک بُڑھیا کچھ پکا رہی ہے اور چند بچے پاس بیٹھے رو رہے ہیں۔ پاس جا کر پوچھا کہ
بچے کیوں رو رہے ہیں اور ہانڈی میں کیا پک رہا ہے؟
بُڑھیا نے کہا
کچھ نہیں۔ بچوں کے بہلانے کے لئے خالی پانی چڑھا رکھا ہے۔ تاکہ ان کا جی بہبلا رہے اور سو جائیں۔
یہ سُن کر فاروقِ اعظمؓ کانپ اُٹھے اور اپنے غلام کو ساتھ لے کر مدینہ واپس آئے۔ بیت المال سے ضرورت کی سب چیزین لیں اور اپنے کندھے پر رکھ کر چل دئیے۔ غلام نے کہا کہ
میرے کندھے پر بوجھ رکھ دیجئے۔
فرمایا۔
کیا قیامت کو بھی تم میرا بوجھ اُٹھائو گے؟
خود بُڑھیا کے آگے لا کر رکھ دیا اور خود چُولھا پھُونکنے لگے۔ بچوں نے جب روٹی کھا لی تو وہاں سے واپس لَوٹے۔ بُڑھیا نے کہا ۔
اللہ تمہیں جزائے خیر دے۔ خلیفہ تم کو ہونا چاہیے تھا نہ کہ عمرؓ کو۔
فرمایا۔
کل مدینہ میں آنا۔ خلیفہ تمہارا کچھ وظیفہ مقرر کر دے گا۔
ایک دفعہ غنیمت کا مال آیا۔ آپ کی بیٹی اُمُّ المومنین حضرت حفصہؓ آپ کی خدمت میں آئیں اور کہا
امیر المومنین! اِس میں سے میرا حق مجھ کو عنایت کیجئے۔ کیونکہ میں ذوالقربیٰ میں سے ہوں۔
حضرت عمرؓ نے کہا۔
جانِ پدر! تیرا حق میرے مال میں ہے۔ لیکن یہ غنیمت کا مال ہے۔
ایک دفعہ آپ بیمار ہوئے تو حکیموں نے علاج میں شہد تجویز کیا۔ بیت المال میں شہد موجود تھا۔ لیکن بلا اجازت نہیں لے سکتے تھے۔ چنانچہ مسجد نبوی ؐ میں جا کر لوگوں سے کہا کہ
اگر آپ اجازت دیں تو بیت المال سے تھوڑا سا شہد لے لُوں۔
اس سے یہ ظاہر کرنا مقصود تھا کہ خزانہ پر خلیفہ وقت کا اتنا بھی اختیار نہیں کہ وہ معمولی سے معمولی شے بِلا اجازت لے سکے۔ پرہیزگاری کا یہ عالم تھا کہ آپ رات کے وقت دِیا جلا کر بیت المال کا حساب کر رہے تھے کہ آپ کی بیوی تشریف لے آئیں اور گھریلو باتیں شروع کر دیں۔ آپ نے فوراً دِیا بجھا دیا۔ دریافت کرنے پر فرمایا کہ
اس بیت المال کا تیل گھریلو باتوں کے لئے نہیں ہے۔
اس قدر تقویٰ کے باوجود حضرت عمرؓ کی ہیبت اس قدر تھی کہ بڑے بڑے جابروں کو ان کے ساتھ بات کرنے کی جرأت نہ ہوتی تھی۔ ان کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا درّہ رہتا تھا۔ جس کا خوف خُوں خوار تلوار سے بھی زیادہ تھا اور چند ایک صحابہ ؓ کے سوا اس سے بچے بھی کم ہی لوگ تھے۔
ایک بار لوگوں نے حضرت عبدالرحمن ؓ بن عوف سے کہا کہ خلیفہ کا رُعب اس قدر ہے کہ اُن سے آنکھ ملاتے ہوئے دِل لرز جاتا ہے۔ جب اُنہوں نے حضرت عمرؓ سے یہ بیان کیا تو فرمایا
اللہ جانتا ہے کہ جس قدر لوگ مجھ سے ڈرتے ہیں۔ اُن سے زیادہ میں خود اُن سے ڈرتا ہوں۔
بیت المال کے خزانے کو سوائے مستحقین کے کسی اَور کے لئے حلال نہیں سمجھتے تھے ۔ خود اُن کا وظیفہ اس قدر قلیل تھا کہ تنگی سے بسر اوقات ہوتی تھی۔ ایک دفعہ چند صحابہ ؓ نے اُن کی بیٹی اُمّ المؤمنین حضرت حفصہؓ سے کہا کہ
آپ ہمارا نام نہ لیں۔ لیکن یہ کہیں کہ عام لوگوں کی رائے ہے کہ بیت المال سے آپ بہت کم روزینہ لیتے ہیں۔ اس میں کچھ اضافہ کر لینا چاہیئے۔
حضرت حفصہؓ نے اُن سے کہا تو پوچھا کہ
وہ کون لگ ہیں؟ میں اُن کی خوب خبر لُوں گا۔
حضرت حفصہؓ نے کہا کہ
ان کے نام نہیں بتائے جا سکتے۔
فرمایا کہ
اچھا تم میرے اور اُن کے درمیان ہو۔ کیا رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاقے نہیں کیے؟ پیوند لگے ہوئے کپڑے نہیں پہنے؟ پھر جب اُنہوں نے فضولیات کی طرف توجہ نہیں دی تو مجھے بھی اسی حالت میں رہنے دو۔
ایک دفعہ آپ کی زوجہ محترمہ حضرت اُمّ کلثوم نے قیصرِ رُوم کی ملکہ کو عطر کی چند شیشیاں بطور تحفہ بھیجیں۔ ملکہ نے ان شیشیوں کو جواہرات سے بھر کر واپس کیا۔ ان میں موتیوں کی ایک مالا بھی تھی۔ جب حضرت عمرؓ کو اس کا علم ہوا تو اُس کو لے کر بیت المال میں داخل کر لیا۔ لوگوں نے کہا کہ
یہ ملکۂ رُوم کا ہدیہ ہے جو نہ آپ کے زیر فرمان ہے اور نہ اُس کے مال سے آپ کو کچھ تعلق ہے۔
فرمایا۔
قاصد مُسلمانوں کا تھا اور اُس کے اخراجات بیت المال سے دئیے گئے تھے۔
چنانچہ سب جواہرات بیت المال میں جمع کر لیے گئے۔
حضرت فاروقِ اعظمؓ اپنے رشتہ داروں اور اپنی ذات پر بہت زیادہ سختی کیا کرتے تھے۔ اگر اُمّت کو کسی چیز سے روکنا ہوتا تھا توپہلے یہ دیکھا کرتے تھے کہ اپنے گھر میں تو یہ چیز نہیں۔ اگر ہوتی تو پہلے اس کو علیحدہ کرتے۔
حضرت فاروق اعظمؓ کے عدل و انصاف کی دھاک بندھی ہوئی تھی۔ خواہ کوئی کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو۔ آپ کسی کی ہرگز رُو رعایت نہ کرتے تھے۔ جب آپ کے بیٹے ابوشحمہؓ نے شرعی جُرم کیا تو اُن کو اسی(80) دُرّوں کی سزا دی۔ جن سے اُن کا انتقال ہو گیا۔ حضرت عمرؓ کی آنکھوںسے آنسو جاری ہو گئے اور فرمایا۔
بیٹا! دُنیا میں تجھے سزا مل چکی۔ الحمد للہ اب عاقبت بخیر ہوگی۔
ایک عیسائی بادشاہ جبلہ بن ابہم مُسلمان ہو کر ساٹھ ہزار فوج کے ساتھ مکّہ میں آیا۔ طواف کے دوران میں اُس کے دھکّے سے ایک غریب مُسلمان کے گُھٹنے میں چوٹ آگئی۔ اُس نے حضرت عُمرؓ سے فریاد کی تو اُنہوں نے جبلہ سے کہا۔
یا تو معافی مانگو۔ ورنہ اپنا گُھٹنا تڑائو۔
یہ فیصلہ سُن کر عیسائی بادشاہ بہت متعجب ہوا۔ ایک رات کی مہلت مانگی اور راتوں رات فوج سمیت بھاگ کر پھر عیسائی ہوگیا۔
مردم شناسی اور صاف گوئی کا یہ عالم تھا کہ جب حمص کا عامل مر گیا اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے اُس کی جگہ تقرری کی خواہش کی تو فرمایا۔
تمہاری طرف سے میرے دِل میں کھٹکا ہے۔
اُنہوں نے وجہ دریافت کی تو جواب دیا کہ
تم محاصل میں ضرور تصرف کرو گے۔
چنانچہ ان کو مقرر نہیں کیا۔
ایک دفعہ آپ لوگوں کو کھانا کھلا رہے تھے۔ ایک شخص کو دیکھا کہ بائیں ہاتھ سے کھانا کھا رہا ہے۔ پاس جا کر کہا۔
داہنے ہاتھ سے کھائو۔
اُس نے بتایا کہ
جنگ مَوتہ میں میرا داہنا بازو کٹ گیا تھا
حضرت عمرؓ کو رقت ہوئی اور اس کے پاس بیٹھ کر اپنے ہاتھ سے اُسے کھانا کھلاتے رہے ور اس کی خدمت کے لئے ایک نوکر مقرر کر دیا۔
دَورانِ جنگ میں اُن کا معمول تھا کہ مجاہدین کے گھروں پر جاتے اور ان کی ضروریات کا سودا بازار سے لا دیا کرتے تھے۔ میدانِ جنگ سے قاصد خطوط لاتا تو خود ہر ایک گھر میں پہنچاتے اور کہتے کہ فلاں تاریخ تک قاصد واپس جائیگا۔ تم جواب لکھوا رکھنا ۔ جس گھر میں کوئی لکھنے والا نہ ہوتا ٗ خود چوکھٹ کے پاس بیٹھ جاتے اور گھر والوں کے کہنے کے مطابق خط لکھ دیتے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو بتا دِیا تھا کہ آزادی انسان کا پیدائشی حق ہے اور کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ بھیڑ بکریوں کی طرح انسان پر حکومت کرے۔ ایک موقع پر جب حضرت عمروؓ بن العاص کے بیٹے نے ایک قبطی کو بے وجہ مارا تو خود اُسی قبطی کے ہاتھ سے مجمع عام میں سزا دِلوائی۔ عمروؓ بن العاص اور اُن کے بیٹے کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا :
تم لوگوں نے آدمی کو کب سے غلام بنا لیا ہے۔ ان کی مائوں نے تو اُن کو آزاد جنا تھا۔
حضرت عمرؓ قرآن شریف کے بہت بڑے عالم اور چوٹی کے محدث تھے۔ علم فقہ کی بنیاد اُنہوں نے ہی رکھی۔ فقہ حنفی میں تقریباً تمام مسئلے حضرت عمرؓ ہی کے رائج ہیں۔ عربی کے علاوہ عبرانی زبان میں بھی کافی مہارت رکھتے تھے۔ آپ آنحضرت ؐ کو توریت سُنایا کرتے تھے۔
فنِ تقریر میں اُنہیں کمال حاصل تھا۔ ان کی تقریر کی ایک خصوصیت یہ بھی ہوتی تھی کہ دورانِ تقریر میں کئی شرعی مسئلے بھی حل کرجایا کرتے تھے۔ تاکہ دینی معاملات میں بھی لوگوں کی واقفیت بڑھتی رہے۔ ان کے فرمانوں اور تحریروں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس فن میں بھی اُنہیں پوری دسترس تھی۔
شعر کے متعلق ان کا مذاق بہت سلجھا ہُوا تھا۔ اگرچہ وہ خود شاعر نہ تھے ۔ لیکن سخن فہم اعلیٰ درجے کے تھے۔ وہ جہاں مہذب شاعری کے قدر دان تھے۔ وہاں عرب کی قدیم بے ہُودہ شاعری کے سخت خلاف بھی تھے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے عہدِ خلافت میں عشقیہ شاعری اور ہجوگوئی کی سخت بندش کر دی تھی۔
غرضیکہ حضرت فاروق اعظم جامع صفات اِنسان تھے۔ آپ کے عہد میں اسلام کو جو برتری ٗ فوقیت اور عالمگیر شہرت ملی۔ وہ کسی دوسرے کو نصیب نہیں ہوئی۔
رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ۔
© Copyright 2025, All Rights Reserved