فتوحات
حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں دین اِسلام کو جو رونق ہوئی اور سلطنت کو وسعت ملی ٗ تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ نواح شام اور عراق تو خلیفہ اوّل کے وقت میں فتح ہو چکے تھے۔ مگر شام ٗ فلسطین ٗ مصر ٗ خوزستان ٗ عراق ٗ عجم ٗ آذر بائی جان ٗ کرمان ٗ سیستان ٗ مکران ٗ خراسان ٗ حضرت فاروقِ اعظم ؓ کے عہدِ خلافت میں اِسلامی جھنڈے کے ماتحت آئے۔ روما اور ایران جیسی عظیم الشان سلطنتوں کو نیچا دیکھنا پڑا۔
حضرت صدیق اکبرؓ کے کفن دفن سے فارغ ہو کر جب لوگ حضرت عمرؓ کی بیعت کے لئے آنے لگے تو آپ نے پُرجوش تقریر میں اُنہیں جہاد کے لئے اُبھار ا۔ لیکن ایران ایسی عظیم الشان سلطنت سے مقابلہ کا خیال ہی اَوسان خطا کر دینے والا تھا۔ اس لئے عربوں میں کچھ جنبش نہ ہوئی۔ اس پر مثنیٰ نے تقریر کرتے ہوئے کہا
لوگو! تم ایرانیوں کو خاطر میں نہ لائو۔ ہم نے ان کو آزما لیا ہے اور ہم ہر بار اُن پر غالب رہے۔ اُن کے زرخیز علاقے ہم نے چھین لیے ہیں۔
اس پر حضرت عمرؓ نے ایک نہایت پُرجوش خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے کہا کہ
اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اِس دین کو سارے دینوں پر غالب کر دے گا۔ خدا کا وعدہ سچا ہے۔ مُسلمان فتح پائیں گے
اس تقریر نے مُسلمانوں میں ایک نئی زندگی پیدا کر دی اور ایک زبردست فوج ایران پر حملہ کرنے کے لئے تیار ہو گئی۔ چونکہ سب سے پہلے اُبو عبیدہ ثقفی نے آمادگی ظاہر کی تھی اس لئے باوجود رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی نہ ہونے کے انہیں سردار لشکر بنایا گیا۔ مگر انہیں تاکید کر دی کہ چونکہ تمہارے ساتھ بہت سے صحابہ بھی ہیں۔ اس لئے اُنہیں مشوروں میں شریک رکھنا۔
اُس وقت ایران کے تخت پر ملکہ آزرمی وخت متمکن تھی۔ اُس نے ایران کے بہت بڑے نامور سپہ سالار رُستم کو ایک لشکر جرّار کے ساتھ مُسلمانوں کے مقابلے پر بھیجا۔ رُستم نے ملک کے چاروں طرف لوگوں کو بھیج کر اُن کی مذہبی اور قومی حمیت کو جوش دلایا۔ جس پر وہ لڑنے مرنے پر آمادہ ہو گئے۔ یہاں تک کہ وہ ایرانی علاقے جو مُسلمانوں کے قبضے میں آچکے تھے ٗ اُن سے چھین لئے۔ لیکن اسلامی کمک کے پہنچتے ہی مُسلمانوں میں ایک نیاجوش اور ولولہ پیدا ہوگیا۔
ایران سے دو فوجیں فرس اور جاپان کی سرکردگی میں روانہ ہوئیں۔ لیکن ابوعبیدہ ؓ نے آگے بڑھ کر اس شدت سے حملہ کیا کہ ایرانی بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔ جاپان کو ایک معمولی عرب نے پکڑ لیا۔ جاپان نے اُس سے کہا کہ
میں بُڈھا آدمی ہُوں۔ اگر تم مجھے امان دے دو گے تو میں تمہیں دو جوان غلام دے دوں گا
اُس نے امان دے دی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہی ایرانی فوج کا سردار ہے تو اُسے پکڑ کر ابوعبیدہ کے پاس لے آئے کہ اُس نے فریب سے امان لی ہے۔ ابوعبیدہ نے کہا کہ جب ایک مُسلمان اس کو پناہ دے چکا ہے تو اب بدعہدی نہیں کی جا سکتی۔ چنانچہ اُس کو اُس کے خیمے تک بحفاظت پہنچا دیا گیا۔ اسی طرح فرس نے بھی بہت بُری طرح شکست کھائی۔
اس شکست نے رُستم کی آتش غضب کو اور بھڑکا دیا۔ چنانچہ بہمن جادویہ کو ایک زبردست فوج کے ساتھ مُسلمانوں کے مقابلے کے لئے بھیجا اور ’’درفش کاویانی‘‘ کا نشان جو ایرانیوں کے نزدیک بہت متبرک خیال کیا جاتا تھا اور فریدوں کے وقت سے خزانہ میں بطور تبرک بند تھا۔ عنایت کیا۔
دریائے فرات کے دونوں کناروں پر فوجیں جمع ہوئیں۔ بہمن نے کہلا بھیجا کہ
یا تو تم دریا کے اس پار آجائو یا ہمیں دوسرے کنارے پر اُترنے کا موقع دو
ابوعبیدہ نے کہا کہ
ہم خود دوسری طرف آکر لڑیں گے
تمام صحابہؓ اور سردارانِ لشکر نے جن میں مثنیٰ بھی شامل تھے ٗ اس کی مخالفت کی۔ لیکن ابوعبیدہ نہ مانے اور کشتیوں کا پُل بنوا کر پار اُتر گئے۔
ایرانیوں کے پاس بڑے بڑے دیو پیکر ہاتھی تھے۔ جن پر بڑے بڑے گھنٹے لٹک رہے تھے۔ عرب گھوڑے اُنہیں دیکھ کر بِدکے اور بے قابو ہونے لگے تو مُسلمان گھوڑوں سے اُتر کر پیادہ ہو گئے اور ہاتھیوں کے ہودوں کی رسیّاں کاٹ دیں۔ ابوعبیدہ ثقفیؓ نے ایک بہت بڑے سفید ہاتھی پر تلوار سے حملہ کیا۔ جس نے غصّے میں آکر اُنہیں روند ڈالا۔
مُسلمان پیچھے ہٹ رہے تھے۔ ایک مُسلمان نے اس خیال سے پُل کی رسیاں کاٹ دیں کہ مُسلمان جم کر دُشمن کا مقابلہ کر سکیں۔ یہ دیکھ کر مثنیٰ فولاد ی دیوار کی طرح ایرانیوں کے مقابلے میں ڈٹ گئے اور نیا پُل بننے تک دُشمن کو روکے رکھا۔ اس جنگ میں مُسلمانوں کو بہت نقصان اُٹھانا پڑا اور چھ ہزار مُسلمان شہید ہوئے۔
جب یہ خبریں حضرت عمرؓ کو پہنچیں تو اُنھوں نے پَے در پَے فوجیں مثنیٰ ؓ کی امداد کو بھیجنی شروع کیں۔ مثنیٰ ؓ نے خود بھی عراق سے ایک زبردست لشکر تیار کیا اور بویب کے مقام پر ڈیرے ڈال دئیے۔
اب کے رستم نے مہران کو مقابلے کے لئے بھیجا جس کے ساتھ ایران کی منتخب فوجیں تھیں اور خود بھی اُس نے عرب میں تربیت حاصل کی تھی۔ دونوں فوجوں کے درمیان دریائے فرات موجیں مار رہا تھا۔ مہران نے بھی بہمن کی طرح مثنیٰ کو کہلا بھیجا کہ
یا تو تم دریا کے اس پار آجائو یا ہم کو اس دوسری طرف اُترنے کا موقع دو
مثنیٰ ؓ نے جواب دیا
تم ہی اس طرف آجائو
چنانچہ ایرانی دریا کو عبور کرکے صف آرا ہو گئے۔ خونریز جنگ ہوئی۔ دونوں طرف کے بہادر بڑے جوش و خروش سے لڑ رہے تھے۔ مثنیٰ ؓ نے اپنے قبیلے کے لوگوں کے ساتھ مہران کے داہنے بازو پر حملہ کر دیا اور دباتے ہوئے وسط میں جا پہنچے۔ ایرانی مقابلہ کی تاب نہ لا کر بھاگے۔ مثنیٰ ؓ نے آگے بڑھ کر پل توڑ دِیا۔ یہ دیکھ کر ایرانی بدحواس ہو گئے ۔ مُسلمان تعاقب کرکے ان کو قتل کرتے چلے گئے۔ قبیلہ تغلب کے ایک شخص نے مہران کو مار ڈالا اور اس کے گھوڑے پر سوار ہو کر پکارا کہ میں نے عجمی سپہ سالار کو قتل کر دیا ہے۔
اس شکست سے ایران میں کُہرام مچ گیا۔ مدائن میں ایرانی مدبروں کا اجتماع ہوا اور ملکہ آزرمی وخت کو تخت سے اُتار کر یزد گرد کو تخت سلطنت پر نٹھایا گیا۔ ایران کے دو نامور سپہ سالار فیروز اور رستم جن کی آپس میں ناچاقی تھی۔ اس موقع پر متحد ہو گئے۔ ایران کی ان تبدیلیوں کو دیکھ کر عراق کے سرحدی مرزبان جن کو مُسلمان فتح کر چکے تھے ٗ پھر باغی ہو گئے۔
یہ حالات سُن کر حضرت عمرؓ نے مثنیٰ ؓ کو لکھا کر اپنی فوجوں کو جمع کرکے سرحدعرب کی طرف آجائو اور خود فوجی تیاری میں مصروف ہو گئے۔ تمام قبائلِ عرب کو فرمان بھیجے کہ جہاں کہیں کوئی بہادر شاہسوار ٗ صاحب رائے شاعر یا خطیب ہو اس کو فوراً میرے پاس بھیجو۔ اس حکم کی تعمیل میں قبائل عرب سے ایک ابنوہ کثیر مدینہ منورہ پہنچ گیا۔
حضرت عمرؓ نے ہراول میں حضرت طلحہؓ کو داہنے بازو پر حضرت زیبر ؓ کو اور بائیں بازو پر حضرت عبدالرحمن ؓ بن عوف کو مقرر فرمایا۔ حضرت عمر فاروق ؓ چاہتے تھے کہ اس فوج کو اپنی کمان میں ایرانیوں سے لڑائیں۔ اسی نیت سے اُنہوں نے حضرت علی ؓ کو اپنا جانشین مقرر کیا اور مدینہ سے روانہ ہو گئے۔ لیکن اکثر مدبر صحابہؓ نے اس کو پسند نہ کیا۔ لہٰذا سعدؓ بن ابی وقاص کو اس فوج کا سپہ سالار بنا کر روانہ کِیا گیا۔
حضرت سعدؓ کے پاس تیس ہزار فوج تھی۔ مقام زرود میں پہنچ کر اُس کے مختلف دستے بنائے گئے اور ان کے امیر مقرر کیے گئے۔ شراف میں پہنچے تو دربارِ خلافت سے حکم ملا کہ قادسیہ میں جا کر قیام کرو۔
قادسیہ پہنچ کر حضرت سعدؓ کو مثنی ؓ کے انتقال کی خبر ملی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ وصیت کر گئے ہیں کہ ایرانیوں سے جنگ ان کی سرحد میں کی جائے اور اپنا قیام سرحد عرب میں رکھا جائے تاکہ فتح ہو تو آگے بڑھتے چلے جائیں۔ ورنہ اپنے ملک میں محفوظ رہیں۔
حضرت عمرؓ برابر حضرت سعدؓ کو ہدایات بھیجتے رہے۔ جب یہ قادسیہ پہنچ گئے تو حکم ملا کہ سرزمین قادسیہ اور ایرانیوں کا حال لکھو۔
حضرت سعدؓ نے مفصل حالات تحریر کیے اور لکھا کہ آرہینیا کا ریئس رُستم ایرانی فوج کا سپہ سالار ہے ٗ اور ساباط میں اپنی فوج لئے پڑا ہے۔
حضرت عمر فاروق ؓ نے فرمایا بھیجا کہ
جنگ سے پہلے ایرانوں کو اسلام کی دعوت دینے کے لئے چند دانا اور عقلمند مُسلمانوں کو دربارِ ایران میں بھیجو
اس کام کے لئے حضرت سعدؓ نے چودہ اشخاص کو منتخب کیا۔ جب دربارِ ایران میں اِسلامی سفیروں کی آمد کی اطلاع ہوئی تو شاہِ ایران نے ان کو مرعوب کرنے کے لئے اپنے دربار کو عمدہ اور قیمتی سامان سے آراستہ کیا۔ مُسلمان سفیر عربی طریق کے مطابق موزے پہنے اور ہاتھوں میں نیزے لیے بلا جھجک دربار میں داخل ہوئے۔ اُن کی اس بے باکانہ روش کو دیکھ کر اہلِ دربار پر سناٹا چھا گیا۔
جب مُسلمانوں سے پوچھا گیا کہ تم ایران میں کیوں گُھس آئے ہو تو رئیس وفد نعمان بن مقرون نے ایک تمہیدی تقریر کے بعد کہا کہ
ہم دو چیزیں پیش کرتے ہیں۔ یا تو اسلام لائو یا جزیہ دو۔ اگر اسلام لائو گے تو ہم کتاب اللہ تمہارے حوالے کر دیں گے کہ اس کے احکام پر چلو۔ تم کو اور تمہارے ملک کو چھوڑ کر واپس چلے جائیں گے۔ ورنہ جزیہ دو۔ اس صورت میں تمہاری حفاظت ہمارے ذمے ہوگی۔ اگر یہ دونوں باتیں منظور نہ ہوں تو میدانِ جنگ اِس کا فیصلہ کر دے گا۔
عرب سفیر کی تقریر سے یزدگرد لال پیلا ہو رہا تھا جب نعمان نے اپنی تقریر ختم کی تو اُس نے کہا
دُنیا میں کوئی قوم تم سے زیادہ کمزور اور بدبخت نہ تھی۔ معمولی معمولی رئیس تمہاری شورشوں کو رفع کر دیا کرتے تھے۔ اب بھی باز آئو اور چلے جائو۔اگر تم نے مفلسی اور قحط کی وجہ سے یہ غارت گری شروع کی ہے تو ہم تمہاری اِمداد کر دیتے ہیں اور تم پر ایسا حکمران مقرر کر دیں گے جو مہربانی سے سلوک کرے۔
شاہِ ایران کی تقریر سُن کر مغیرہ بن زراہ جھٹ بول اُٹھے کہ یہ میرے ساتھی شرفائے عرب ہیں۔ حِلم اور وقار کی وجہ سے زیادہ گفتگو پسند نہیں کرتے۔ مگر آپ کے جواب میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔
بے شک ہم ایسے ہی تھے ٗ جیسا کہ آپ نے کہا ہے۔ بلکہ ہم سے زیادہ بدبخت اور گمراہ کوئی دوسری قوم نہ تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہماری قوم میں ایک نبی پیدا کیا۔ جس نے اس بدنصیب قوم کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔ وہ جو کچھ کہتا تھا ٗ اللہ کے حکم سے کہتا تھا۔ اُس نے ہم کو حکم دیا ہے کہ ہم دین اسلام کو دُنیا کی قوموں کے سامنے پیش کریں۔ جو اس کو مان لیں ٗ اُن کا وہی حق ہے جو ہمارا ہے اور جو نہ مانے اور جزیہ دینے پر رضامند ہو ٗ اُس کی حفاظت ہمارے اُوپر فرض ہے۔ مگر جو اس سے بھی انکار کرے ٗ اُس کے لئے تلوار حاضر ہے۔ ان میں سے جو چیز آپ کو پسند ہو ٗ قبول کر لیں۔
یزد گرد نے غصّے میں آکر کہا
تم نے اِن الفاظ سے مجھ کو مخاطب کیا ہے؟
اُنہوں نے جواب دیاکہ
جس نے ہم کو مخاطب کیا تھا ٗ وہی ہمارا بھی مخاطب ہے
یزد گرد نے تن کر کہا کہ
اگر سفیروں کا قتل روا ہوتا تو تم یہاں سے زندہ نہ جاتے۔ جائو اپنے سردار سے کہہ دینا کہ رستم آرہا ہے۔ وہ تم کو اور تمہارے ساتھیوں کو قادسیہ کی خندق میں دفن کر ڈالے گا۔
رستم کے پاس ایک لاکھ بیس ہزار فوج تھی۔ اُس نے بڑھ کر بخف میں ڈیرے ڈال دئیے اور ایک مدت تک اس غرض سے لڑائی کو ٹالتا رہا کہ مُسلمانوں سے صلح کی کوئی صورت نکل آئے۔
حضرت سعدؓ نے دُشمنوں کے حالات معلوم کرنے کے لئے بہت سے جاسُوس چھوڑ رکھے تھے۔ ان میں سے ایک شخص طلیحہ رات کے وقت ایرانی لباس پہن کر رستم کی فوج میں گئے اور ایک نہایت بیش قیمت گھوڑا ٗ جو کسی سردار کا تھا ٗ کھول لیا اور اس کی جگہ اپنا گھوڑا باندھ کر چل دئیے۔ جب اس سردار کو پتہ چلا تو وہ دو سواروں کو لے کر ان کے پیچھے دوڑا اور اُن پر نیزے سے حملہ کیا۔ جسے اُنہوں نے خالی دیا اور خود پلٹ کر اِس پھُرتی سے اُس کے برچھا مارا کہ وہ وہیں ہلاک ہو گیا۔ اس کے دوسرے ساتھ کو بھی قتل کیا اور تیسرے کو گرفتار کرکے لے ائے۔ جس نے اسلام قبول کر لیا۔ اُن کا نام مُسلم رکھا۔ اُن کے ذریعے ایرانی فوج کے بہت سے اصلی حالات معلوم ہوئے۔
محرم 14ھ کو میدانِ جنگ میں دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئیں۔ حضرت سعدؓ ا س وقت بیماری کے باعث ہلنے جُلنے سے بھی معذور تھے۔ اس لئے خود تو جنگ میں شریک نہ ہو سکے لیکن ایک اُونچے مکان پر بیٹھ کر میدانِ جنگ کا نظارہ دیکھتے رہے اور فوج کو ہدایات بھی دیتے رہے۔ ایرانیوں کے پاس بکثرت ہاتھی تھے۔ جنھیں دیکھ کر عربی گھوڑے ڈر کر بھاگنے لگے اور اس کے ساتھ ہی پیدل فوج نے سنبھل کر ہاتھیوں پر تیر برسانے شروع کیے اور ان کے سواروں کو مار گرایا۔ رات تک گُھمسان کی لڑائی رہی اور ایک حد تک ایرانی غالب رہے۔
دوسرے دِن شہیدوں کے کفن دفن اور زخمیوں کو کیمپوں میں لانے اور مرہم پتی کے لئے عورتوں کے سُپرد کرنے کے بعد پھر میدانِ جنگ گرم ہوا۔ اِسی اثنا میں حضرت عمرؓ کے فرمان کے مطابق وہ فوج جسے حضرت خالدؓ عراق سے شام میں لے گئے تھے ٗ ان کی مدد کے لئے پہنچ گئی۔ جس کے آجانے سے مُسلمانوں کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اس فوج کے سردار حضرت سعدؓ کے بھتیجے ہاشم بن عتبہ تھے۔
اِس دِن عربوں نے اُونٹوں پر جھول اور بُرقعے ڈال کر اُنہیں اِس طرح کا مہیب بنا دِیا تھا کہ جس طرف وہ رُخ کرتے۔ ایرانیوں کے گھوڑے بھاگ جاتے تھے۔ اس سے ایرانیوں پر وہی آفت آئی ٗ جو پہلے دِن ہاتھوں سے مُسلمانوں پر آئی تھی۔ آج کے روز مُسلمانوں کا پلہ بھاری رہا۔
حضرت ابومحجن ثقفی ؓ ایک بہادر صحابی تھے۔ حضرت سعدؓ نے شراب پینے کے جرم میں اُنہیں اپنے گھر میں قید کر رکھا تھا۔ لڑائی کا رنگ دیکھ کر بے تاب ہو گئے اور حضرت سعدؓ کی بیوی سلمہؓ سے اِس وعدہ پر رہائی حاصل کی کہ جنگ سے فارغ ہو کر شام کو پھر آکر بیڑیاں پہن لیں گے چنانچہ وہ بجلی کی طرح دُشمن کی فوج پر گِرے۔ جدھر جاتے تھے ٗ پرے کے پرے صاف کر دیتے تھے۔ حضرت سعدؓ حیران تھے کہ یہ کون بہادر ہے؟ طریقِ جنگ تو ابُو محجن کا ہے۔ لیکن وہ تو قید ہیں۔ شام کو آکر اُنھوں نے بیڑیاں پہن لیں۔ حضرت سعدؓ کو جب معلوم ہوا کہ ابومحجن ؓ ہی آج لڑائی میں اِس بے جگری سے لڑ رہے تھے تو اُنہوں نے اُنہیں رہا کر دیا۔ اس پر ابُو محجنؓ نے قسم کھائی کہ
آج سے کبھی شراب کو ہاتھ بھی نہ لگائوں گا۔
تیسرے دِن گھمسان کا رَن پڑا۔ مُسلمانوں نے بڑھ کر ہاتھوں پر حملہ کر دیا۔ ایک ہاتھی کی جب سُونڈ کٹ گئی تو وہ چنگھاڑتا ہوا پچھلی طرف بھاگا۔ دوسرے ہاتھی بھی اس کے پیچھے ہو لیے اور اپنی ہی فوج کو روندتے ہوئے چلے گئے۔ اس موقع کو غنیمت سمجھ کر مُسلمانوں نے شدّت کا حملہ کر دیا۔ اور ایرانی فوج کے دونوں بازئووں کو دباتے ہوئے دُور تک آگے بڑھ گئے۔ پھر قلب میں بڑھ کر درفش کاویانی چھین لیا۔ یہ دیکھ کر رُستم خود میدان میں آیا۔ لیکن زخم کھا کر بھاگا اور نہر میں کُود کر جان بچانی چاہی۔ مگر ہلال بن عرفہؓ نے اُسے پانی سے نکال کر قتل کر دیا۔ ایرانی اگرچہ بڑی بہادری سے لڑے۔ مگر آخر شکست کھائی۔
حضرت عمرؓ جنگِ قادسیہ کے متعلق بہت فکر مند رہتے تھے۔ ہر روز صبح قاصد کے انتظار میں مدینہ سے باہر نکلتے اور دوپہر کو واپس آتے۔ جس روز قاصد فتح کی خبر لے کر پہنچا تو مدینہ کے باہر راستہ ہی میں حضرت عمرؓ اُس سے ملے۔ وہ تیزی سے اُونٹ کو بھگائے لا رہا تھا۔ حضرت عمرؓ اس کے پیچھے پیچھے دوڑتے اور حالات پوچھتے جا رہے تھے۔ شہر میں داخل ہونے پر جب لوگوں نے اُنہیں امیر المومنین سے خطاب کیا تو اُس وقت قاصد کو معلوم ہوا تو اُس نے عرض کیا
خدا آپ پر رحم کرے۔ آپ نے مجھے پہلے ہی کیوں نہ بتلا دیا کہ میں رُک جاتا
حضرت عمرؓ نے فرمایا
کچھ حرج نہیں۔
ایرانیوں کی شکست سے مُسلمانوں کو اس قدر گھوڑے ملے تھے کہ بیشتر اسلامی فوج سوار تھی۔ حضرت سعدؓ نے دو مہینے تک تو آرام کیا۔ اس کے بعد مقام برس کی طرف بڑھے۔ ہرمز یہاں سے شکست کھا کر بابل کی طرف بھاگ گیا۔ اس کے بعد ایرانی فوج کا سپہ سالار شہر یار خود میدان میں نکلا مگر ایک غلام نابل نام کے ہاتھوں ہلاک ہوا۔
حضرت عمرؓ کے حکم سے حضرت سعدؓ مدائن کی طرف بڑھے۔ اس طف کوچ کی جلدی اس لئے بھی کی گئی کہ اطلاع ملی تھی کہ یزد گرد مدائن سے تمام ذخیرے منتقل کر رہا ہے۔ ایرانیوں نے دجلہ کا پُل بھی توڑ دِیا تھا ۔ لیکن جب حضرت سعدؓ دریا کے کنارے پر پہنچے تو اللہ کا نام لے کر سب سے پہلے اپنا گھوڑا دریا میں ڈال دیا۔ جسے دیکھ کر تمام لشکر کے گھوڑے ان کے پیچھے ہو گئے۔ ایرانیوں نے مُسلمانوں کا یہ ولولہ دیکھا تو بے اختیار کہہ اُٹھے۔ دیو آگئے۔ ایرانیوں میں اب مقابلے کی تاب کہاں؟ یزد گرد اپنے اہل و عیال کو لے کر حلوان کی طرف بھاگ گیا۔ جو رہ گئے۔ اُنہوں نے جزیہ دینا قبول کر لیا۔ مُسلمانوں نے ایوانِ کسریٰ میں نماز جمعہ ادا کی۔ اس فتح میں مُسلمانوں کے ہاتھ بہت سال مالِ غنیمت لگا۔ جس میں چاندی اور جواہرات کی بے شمار چیزیں تھیں۔ علاوہ ازیں یزدگرد کی لڑکی شہر بانو بھی گرفتار ہو کر دربارِ خلافت میں پہنچی اور اسلام قبول کر لینے کے بعد ان کا نکاح حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ابن حضرت علیؓ سے ہوگیا۔
شکست خوردہ ایرانی جب جلولا میں جمع ہوئے تو اُنہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس جگہ جم کر مُسلمانوں کا مقابلہ کیا جائے۔ چنانچہ فیصلہ ہونے کے بعد مورچہ بندی شروع ہو گئی اور اپنے اِردگرد ایک بڑی خندق کھود لی۔ حضرت سعدؓ نے دربارِ خلافت کے حکم کے مطابق ہاشم بن عتبہ کو مقابلے کے لئے روانہ کیا۔ کچھ عرصہ مُسلمان محاصرہ کیے پڑے رہے۔ آخر اِک دِن تنگ آکر اُنہوں نے ایرانیوں پر اس شدّت کا دھادا کیا کہ ایرانی بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔ مُسلمانوں نے اُن کا پیچھا کرکے ایسے پُرزور حملہ کیا کہ ایک لاکھ ایرانی کھیت رہے اور بہت سا مال و دولت ان کے قبضے میں آیا۔
اِسی طرح مُسلمان یلغار کرتے ہوئے کوہستانی علاقے تک پہنچ گئے۔ حضرت عمرؓ چاہتے تھے کہ مُسلمان سرحد عراق سے آگے نہ بڑھیں۔ کیونکہ وہ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے مال و دولت سے زیادہ مُسلمانوں کی زندگیاں عزیز ہیں۔
جب حضرت سعدؓ کا قاصد مالِ غنیمت لے کر دربارِ خلافت میں حاضر ہوا تو جواہرات کے ڈھیر دیکھ کر حضرت عمرؓ رو دئیے۔ لوگوں نے پوچھا تو فرمایا کہ
جس قوم میں یہ دولت آتی ہے۔ ساتھ ساتھ رشک و حسد بھی آتے ہیں۔
حضرت عمرؓ کے حکم کے مطابق عراق کو کئی حِصّوں میں تقسیم کرکے اُن پر عمال مقرر کیے گئے۔ ملک میں امن و امان قائم ہوا اور رعایا اطمینان کے ساتھ کاروبار میں مصروف ہو گئی۔ دُشمنوں کے حملوں سے بچنے کے لئے سرحدوں پر چھائونیاں ڈالی گئیں۔
عراق سے جو لوگ مدینہ منورہ جاتے تھے۔ اُن کے جسم کمزور اور رنگ زرد دیکھ کر حضرت عمرؓ بہت پریشان ہوئے ۔ جب معلوم ہوا کہ دجلہ کے قریب کی آوہوا راس نہیں آئی تو سعدؓ کو حکم بھیجا کہ سلمان اور حذیفہؓ کو بھیجیں کہ دریائے فرات کے کنارے کوئی مناسب جگہ آبادی کے لئے تلاش کریں۔ اُنھوں نے کُوفہ کی زمین کو پسند کیا۔ یہاں اینٹ اور گاریے کے مکانات بنائے گئے۔ بیچ میں ایک جامع مسجد تعمیر ہوئی۔ جس میں چالیس ہزار مُسلمان نماز پڑھ سکتے تھے۔ شہر کے بازار اور گلیاں بہت کشادہ اور فراخ رکھی گئیں۔ کوفہ کے علاوہ 14ھ میں بصرہ کو بھی مُسلمانوں ہی نے آباد کیا۔
ایرانی مُسلمانوں سے معاہدے کرکے توڑ ڈالتے تھے۔ جس سے حضرت عمرؓ کو شُبہ ہُوا کہ شاید مُسلمان ذِمّیوں سے اچھا سلوک نہیں کرتے۔ اس لیے اُنہوں نے حکم دیا کہ چند معتبر آدمی دربارِ خلافت میں بھیجے جائیں۔ لیکن جب وہ دربارِ خلافت میں پہنچے تو اُنہوں نے مُسلمانوں کے سلوک کی بہت تعریف کی۔
ہرمز نے کئی دفعہ شکست کھائی۔ معاہدہ کرتا اور ہمیشہ توڑ دیتا تھا۔ تشتر کے مقام پر وہ قلعہ بند ہو گیا اور مہینوں اِسلامی سپاہ محاصرہ کیے پڑی رہی۔ آخر مُسلمان بہادر اس نہر کے راستے جو شہر میں جاتی تھی ٗ شہر میں داخل ہو گئے اور دروازہ کھول دیا۔ ایرانیوں کے جی چُھوٹ گئے۔ ہرمز ایک بُرج پر سے پُکارا کہ تم مجھے اپنے خلیفہ کے پاس پہنچا دو تو میں اپنے آپ کو تمہارے حوالے کر دوں گا۔ وہ جو چاہیں میرے متعلق حکم دیں۔ چنانچہ اُسے مدینہ منورہ بھیج دیا گیا۔
ہر مزیہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ حضرت عمرؓ کے کپڑوں میں پیوند لگے ہوئے ہیں اور مسجد میں اکیلے بیٹھے ہیں۔ نہ کوئی دربان ہے نہ پاسبان ۔ حضرت عمرؓ نے دریافت فرمایا کہ
تم معاہدے کرکے کیوں توڑ دیا کرتے تھے؟
اُس نے جواب دینے سے پہلے پانی کا پیالہ طلب کیا۔ جو اُسے دے دیا گیا۔ پیالے کو لے کر ہرمز کا نپنے لگا۔ حضرت عمرؓ کے دریافت کرنے پر کہا کہ
مجھے ڈر ہے کہ کہیں پانی پیتے میں ہی نہ قتل کر دیا جائوں؟
حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ
جب تک اس پانی کو پی نہ لو گے تمہیں قتل نہیں کیا جائے گا؟
ہر مز نے وہ پانی زمین پر گِرا دیا اور کہا کہ
مجھے پانی کی ضرورت نہ تھی۔ میں تو امان لینا چاہتا تھا۔
حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ
تم کو ضرور قتل کیا جائے گا۔
اس پر ہرمز نے کہا کہ
اب تو امان مل چکی ہے
دوسرے صحابہؓ نے بھی اس کی تائید کی تو فرمایا۔
افسوس! ہم کو پتہ بھی نہ لگا اور اس نے امان لے لی۔
اس کے بعد ہرمز مُسلمان ہو گیا ور کہا کہ
میں نے اس وقت اسلام اس لئے قبول نہ کیا تھا کہ دوسرے لوگ یہ نہ سمجھیں کہ میں نے جان کے خوف سے اسلام قبول کیا ہے۔
حضرت عمرؓ نے دو ہزار دینار سالانہ اس کا وظیفہ مقرر کر دیا۔
ہرمز کے ساتھ جو دوسرے ایرانی سردار تھے۔ اُن سے حضرت عمرؓ نے دریافت کیا کہ
ایرانی معاہدے کرکے کیوں مُکر جاتے ہیں؟ کیا اُن سے مُسلمانوں کا سلوک اچھا نہیں؟
جس کے جواب میں اُنہوں نے مُسلمانوں کے سلوک کی تعریف کی۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا۔
پھر کیا وجہ ہے کہ اہل عجم اپنے عہد پر قائم نہیں رہتے۔
ا حنف بن قیس نے جواب دیا۔
آپ کاحکم ہے کہ صرف اپنے مفتوحہ علاقے پر ہی قناعت کی جائے اورآگے نہ بڑھیں۔ لیکن ایران کا بادشاہ اہل عجم کو ہمارے خلاف بھڑکاتا رہتا ہے۔ جس کے باعث یہ لوگ معاہدے توڑ کر بغاوت پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ جب تک مُسلمان ایران پر قبضہ نہ کر لیں گے۔ یہ فتنے جاری رہیں گے۔
احنف بن قیس کی گفتگو کے بعد حضرت عمرؓ کو یقین ہو گیا کہ جب تک یزد گرد موجود ہے اُس وقت تک ہمارے مفتوحہ علاقون میں امن قائم نہ رہ سکے گا۔ چنانچہ آپ نے بقیہ ایران پر فوج کشی کا حکم دے کر سات علم سات سرداروں کو عطا کیے اور اُن کو مختلف مقامات کی طرف روانگی کا حکم دیا۔
ان بہادروں نے یکے بعد دیگرے رَے ٗ آذر بائیجان ٗ طبرستان ٗ آرمینیہ ٗ فارس ٗ کرمان ٗ سیستان مکران اور خراسان کو فتح کرکے سلطنتِ ایران کا خاتمہ کر دیا۔
سیستان کی فتح حضرت فاروقِ اعظمؓ کے فرزند حضرت عاصمؓ کے ہاتھوں عمل میں آئی۔ حضرت احنف بن قیسؓ نے خراسان کے صُوبے کو فتح کیا۔
حضرت عمرؓ خلیفہ مقرر ہوئے تو جنگ یرموک ختم ہو چکی تھی۔ حضرت ابوعبیدہ ؓ فوجیں لے کر فحل کی طرف بڑھے اور پہلے ہی حملہ میں مُسلمان شہر میں داخل ہو گئے۔
دمشق کا قلعہ بہت مضبوط تھا۔ مُسلمان بہت دیر تک محاصرہ کیے پڑے رہے۔ حضرت خالدؓ نے لشکر کے سرداروں کو شہر کے دروازوں پر ڈیرے ڈالنے کا حکم دے کر خود پانچ ہزار فوج لے کر مشرقی دروازے پر خیمہ لگا دیا۔ عیسائی اب سخت پریشان تھے اور ہرقل کی امداد کا انتظار کر رہے تھے کہ مُسلمانوں کو عیسائی فوج کی آمد کا عِلم ہوا۔ ذوالکلاع حمیری کو ایک مختصر سی فوج دے کر ہر قل کی فوج کو روکنے کے لئے بھیجا۔ جس نے رُومیوں کے لشکر کو زبردست شکست دے کر اُن کے بہت سے سامانِ جنگ پر قبضہ کر لیا۔
اگرچہ اہلِ دمشق کے حوصلے اب پست ہو چکے تھے۔ تاہم وہ دروازے بند کئے پڑے رہے۔ ایک دِن حضرت خالد ؓ نے مشرقی دروازے پر حملہ کر دِیا۔ عین اُسی وقت غربی دروازے کے عیسائیوں نے حضرت ابوعبیدہؓ کو کہلا بھیجا کر ہم دروازے کھول دیتے ہیں۔ آپ بے شک آجائیں۔ جس پر حضرت ابوعبیدہ ؓ کے ایک غلام نے امان کے لئے ہاں کر دی اور عیسائیوں نے دروازہ کھول دیا۔ حضرت خالدؓ کو اس کا علم نہ تھا۔ چنانچہ دونوں فوجین درمیانی چوک میں مل گئیں۔ حضرت ابُو عبیدہؓ دوستانہ طور پر آرہے تھے اور حضرت خالدؓ فاتحانہ انداز سے۔ جب یہ دونوں سپہ سالار ملے تو حضرت ابوعبیدہؓ نے کہا کہ
چونکہ ہم ان کو امان دے چکے ہیں۔ اس لیے ان پر سرگز ہاتھ نہ اُٹھایا جائے۔
حضرت خالدؓ کہتے تھے کہ
امان کیسی؟ ہم تو فاتحانہ داخل ہوئے ہیں۔
آخر فیصلہ ہوا کہ لُوٹ بند کر دی جائے اور مالِ غنیمت کو امانت رکھ کر خلیفہ رسول سے فیصلہ منگوایا جائے۔
حضرت عمرؓ نے سب سے پہلے یہ دریافت کیا کہ
کُفار کو امان کس نے دی ھی؟
جب اُنہیں یہ معلوم ہوا کہ ایک غلام مُسلمان نے اُن سے یہ وعدہ کیا تھا کہ
اگر تم دروازہ کھول دو گے تو تمہیں امان دے دی جائے گی۔
اس پر حضرت عمرؓ نے فیصلہ فرمایا کہ
مُسلمان کو اپنے غلام کی بات کا بھی پاس کرنا چاہیے۔
چنانچہ حضرت خالدؓ کی فوج نے جو کچھ لُوٹا تھا۔ وہ سب واپس کر دیا۔
اس کے بعد اِسلامی لشکر مختلف سرداروں کی قیادت میں مختلف سمتوں کو بڑھا اور مرج ٗ روم ٗ حمص قنسرین اور قیساریہ پر قبضہ کر لیا۔
حضرت عمروؓ بن العاص جو فلطسین کی مہم پر مقرر کیے گئے تھے ٗ اجنادین کی طرف روانہ ہوئے۔ اُسے فتح کرنے کے بعد وہ بیت المقدس کی طرف بڑھے اور شہر کا محاصرہ کر لیا۔ بعد میں حضرت ابوعبیدہؓ بن الجراح بھی مع فوج آشامل ہوئے۔ کچھ عرصہ تو عیسائی قلعہ بند رہے۔ آخر اس شرط پر صلح کی درخواست کی کہ خلیفہ اِسلام خود بیت المقدس میں تشریف لا کر صلح نامہ تحریر فرمائیں۔ حضرت عمرؓ کو اطلاع ملی تو حضرت علیؓ کو اپنا نائب بنا کر فلسطین کی طرف روانہ ہوئے۔
اُمرائے لشکر کو حکم بھیج دیا گیا تھاکہ مقام جابیہ پر آکر ملیں۔ سب سے پہلے حضرت ابوعبیدہؓ وغیرہ نے آکر اُن کا استقبال کیا۔ اس وقت مُسلمانوں نے دیباو حریر کے کپڑے پہن رکھے تھے۔ جنھیں دیکھ کر حضرت عمرؓ طیش میں آگئے اور سنگریزے اُٹھا کر اُن پر مارے اور کہا
خدا غارت کرے۔ تم بھی عجم والوں کی طرح اس قدر جلد آرام پسند ہو گئے ہو اور عربی سادگی کو چھوڑ بیٹھے ہو
انہوں نے کہا کہ
یہ ریشمی لباس ہم نے اس سے پہنا ہے کہ ہر وقت ہمارے بدن پر ہتھیار رہتے ہیں
فرمایا
اگر یہ بات ہے تو کچھ ہرج نہیں
اس مقام پر بیت المقدس والوں کے نمائندے آکر ملے اور ایک عہدنامہ مرتب ہوا۔
جابیہ سے آپ بیت المقدس کو روانہ ہوئے۔ جس گھوڑے پر آئے تھے۔ اُس کے پائوں گھس گئے تھے۔ اس لئے پیدل ہی سفر کیا۔ جب بیت المقدس کے قریب پہنچے تو لشکر کے سردار استقبال کو آئے اور اس خیال سے کہ عیسائی لوگ اُنہیں کوئی معمولی آدمی خیال نہ کریں۔ ایک بیش قیمت لباس اور ایک ترکی گھوڑا لائے۔ لیکن حضرت عمرؓ نے اِن دونوں چیزوں سے اِنکار کرتے ہوئے فرمایا
خدا نے اِسلام کی جو نعمت ہمیں عنایت فرمائی ہے۔ وہی کافی ہے۔
بیت المقدس کے ایک بہت بڑے گِرجے کی سیر کر رہے تھے کہ نماز کا وقت آگیا۔ پادری نے کہا کہ
یہیں نماز ادا کر لیں۔
لیکن اُنہوں نے گِرجے سے باہر نکل کر نماز ادا کی۔ اس کے بعد پادری سے فرمایا کہ
اگر آج تمہارے کہنے پر گرجے پر میں نماز پڑھ لیتا تو کل مُسلمان اس پر قبضہ کر لیتے کہ یہاں ہمارے خلیفہ نے نماز پڑھی تھی۔
حضرت عمرؓ نے پادریوں اور دیگر معزز لوگوں کی رائے سے مقام صخرہ کو جہاں حضرت یعقوب ؑ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے قیام کیا تھا ٗ مسجد بنانے کے لئے منتخب کیا۔ اس پر بہت گرد وغبار پڑا ہوا تھا۔ جسے حضرت عمرؓ نے خود اپنے دامن میں بھر بھر کر اُٹھانا شروع کیا۔ اس پر دوسرے آدمی بھی لگ گئے۔ جلدی وہ جگہ صاف ہو گئی۔ پھر وہاں مسجد تعمیر کی گئی۔ جو اب تک مسجد عمرؓ کے نام سے مشہور ہے۔ چندے مقام کے بعد آپ مدینہ منورہ کی طرف لوٹے۔
17ھ میں حضرت عمرؓ نے دوبارہ شام کا سفر کیا۔ مہاجرین اور انصار کی ایک جماعت بھی آپ کے ساتھ تھی۔ مقام سُرغ میں پہنچ کر معلوم ہوا کہ شام میں طاعون پھیلا ہواہے۔حضرت عمرؓ نے دوستوں سے مشورہ کیا کہ
ایسی حالت میں کیا کرنا چاہیے؟
بہت بحث و مباحثے کے بعد واپسی کی صلاح ٹھہری۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے کہا
کیا خدا کی تقدیر سے بھاگتے ہو؟
اس پر فاروق اعظمؓ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ
ہاں خدا کی تقدیر سے خدا کی تقدیر ہی کی طرف بھاگتا ہوں
دوسرے دن عبدالرحمنؓ بن عوف آگئے۔ جو پہلے دِن کی مجلس میں شریک نہ تھے۔ اُن کو جب ان باتوں کا علم ہوا تو کہا کہ
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سُنا ہے کہ جب تم کو معلوم ہو کہ کسی شہر میں وبا ہے تو وہاں نہ جائو اور جب تمہاری بستی میں آئے ٗ اُس کے خوف سے نہ بھاگو۔
یہ سُن کر حضرت عمرؓ نے اللہ کا شکر ادا کیا اور مدینہ منورہ واپس تشریف لے آئے۔ حضرت ابوعبیدہؓ معاذ بن جبل یزیدبن سفیان حارث بن ہشام سہیل بن عمرو اور ان کے بیٹے عتبہؓ اسی وبا میں فوت ہوئے۔ آخر عمروؓ بن عاص اپنی فوج لے کر ایک پہاڑی پر چلے گئے اور اس طرح اس موذی وبا سے نجات حاصل کی۔
طاعون کے رفع ہو جانے پر حضرت عمرؓ حضرت علیؓ کو اپنا قائم مقام کرکے پھر شام کی طرف روازنہ ہوئے۔ اس سفر میں صرف اُن کا غلام اُن کے ہمراہ تھا۔ جس وقت پہنچتے ہیں ٗ اپنی سواری غلام کو دے دی اور خود اُونٹ کی مہار پکڑ لی۔ وہاں پہنچ کر آپ نے ملکی اور فوجی انتظامات کو مستحکم کیا۔
مصر رومی فوج کا بہت بڑا مرکز تھا۔ جہاں سے ان کو ہر قسم کی مدد ملتی تھی۔ عمروؓ بن العاص کا خیال تھا کہ اگر مصر کو فتح کر لیا جائے تو پھر شام میں رومی فوجوں کو سر اُٹھانے کی جرأت نہ ہوگی۔ جب حضرت عمرؓ دوبارہ شام گئے تو انہوں نے یہ تجویز خلیفہ کے سامنے پیش کی۔ حضرت عمر ؓ راضی ہوگئے اور چار ہزار فوج کے ساتھ اُن کو مصر کی طرف روانہ کر دیا۔
مقوقس شاہِ مصر نے مُسلمانوں کے مقابلے کے لئے فوجیں جمع کیں۔جب مُسلمان اُس کے نزدیک پہنچے تو وہ قلعہ بند ہوگیا۔ مُسلمانوں نے سات ماہ تک اُس کا محاصرہ کیے رکھا۔ اس دوران میں حضرت عمرؓ نے زبیرؓ اور مقدادؓ کے ساتھ دس ہزار مزید فوج امداد کے لئے بھیجی۔ محاصرے سے تنگ آکر حضرت زبیرؓ ایک دِن زینہ لگا کر فصیل پر چڑھ گئے اور اندر اُتر کر قلعہ کا دروازہ کھول دِیا۔ مُسلمان شہر میں داخل ہوگئے۔ مقوقس نے امان طلب کی جو دے دی گئی۔
یہ عہد نامہ تمام ملک مصر کے لئے تھا۔ لیکن قیصر نے اس کو نہ مانا اور سمندر کے راستے ایک زبردست فوج اسکندریہ میں اُتار دی۔ مُسلمان بھی مقابلے کو بڑھے۔ مقوقس چونکہ لڑنا نہیں چاہتا تھا۔ اس لئے اُس نے مُسلمانوں سے عہد لیا کہ مجھ کو اور میری قوم کو کسی کا نقصان نہ پہنچایا جائے۔ اس کی قوم نے مُسلمانوں کی مدد بھی کی۔ اِسلامی فوج نے اسکندریہ کا محاصرہ کر لیا۔ آخر صلح ہو گئی اور مُسلمان اسکندریہ رومیوں کے ہاتھ میں چھوڑ کر مصر میں آگئے۔
حضرت عمرؓ کے حکم سے عمروؓ بن عاص نے فوجوں کے ٹھہرنے کے لئے ایک شہر آباد کیا۔ جو اب تک فسطاط کے نام سے مشہور ہے۔
حضرت عمر فاروق کے عہدِ خلافت میں فتوحات کا سلسلہ مشرق میں دریائے جیجوں تک اور مغرب میں شام تک جا پہنچا تھا۔ مصر بھی اِسلامی جھنڈے کے ماتحت آگیا تھا۔ ان تمام ممالک کا انتظام اِسلامی عدل کے اصول پر قائم کِیا گیا اور ہر قِسم کے ظلم وستم جو جابر بادشاہوں کے ہاتھوں سے رعایا پر ہوتے تھے ٗ مٹا دئیے گئے اور ذمی امن و امان کی زندگی بسر کرنے لگے۔
© Copyright 2025, All Rights Reserved