• ہلوکی روڈ ڈیفنس
  • Mon - Sat 8:00 - 18:00

رومیوں سے جنگ ۔جنگ یرموک

 

رومیوں سے جنگ ۔جنگ یرموک

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شام کے غسّانی بادشاہ کو دعوتِ اسلام بھیجی لیکن اُس نے قاصد کو شہید کر دیا۔ آنحضرت ؐ نے اُس کو سزا دینے کے لئے مدینہ سے تین ہزار فوج بھیجی۔ کفار ایک لاکھ سے بھی زیادہ تھے۔ حضرت زید بن حارثؓ اور جعفر طیارؓ وغیرہ اسی جنگ میں شہید ہوئے۔ اس سے کفار کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ انہی کی سرکوبی کے لئے آنحضرت  ﷺ نے حضرت اُسامہ ؓ  کی قیادت میں ایک فوج ترتیب دی۔ لیکن آنحضرت  ﷺ کی بیماری کے باعث یہ لشکر روانہ  نہ ہوسکا۔ حضرت اُسامہؓ نے اگرچہ کامیابی حاصل کی لیکن اس کے باوجود  رُومیوں کے مدینہ منورہ پر حملہ کا خطرہ ہر آن موجود تھا۔

حضرت ابوبکرؓ نے چار جانباز سپہ سالاروں ٗ یعنی عمروؓ بن عاص ٗ زیدؓ بن ابُوسفیان ٗ اُبو عبیدۃ  ؓ بن الجراح اور شرجیل ؓ بن حسنہ کو ایک ایک فوج کا کمانڈر مقرر کرکے ان کی روانگی کے راستے مقرر کر دئیے۔ ان چاروں سپہ سالاروں کے ساتھ 36ہزار فوج تھی۔

جب رُومیوں کو اِسلامی فوج کی آمد کا پتہ چلا تو اُنہوں نے  شہنشاہِ رُوم ہر قل سے مدد چاہی اِسلامی فوجیں یرموک کے مقام پرآپس میں مل گئیں۔ ہرقل نے اُن کے مقابلے کے لئے دو لاکھ چالیس ہزار رُومی بہادر بھیجے۔

رُومیوں نے جہاں ڈیرے ڈالے ٗ اس کے ایک طرف دریا اور پشت کی جانب پہاڑ تھے۔ یہ محفوط مقام اُنہوں نے اس لئے پسند کیا تھا کہ مُسلمانوں کی طرف سے اطمینان ہو جائے۔ اِسلامی فوج نے بھی یرموک سے بڑھ کر اُن کے سامنے مورچہ قائم کر دیا۔ اُس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رُومی فوج بالکل گھِر گئی۔ مُسلمان فوج تین مہینے تک اسی طرح ڈیرے ڈالے پڑی رہی۔ آخر اُنہوں نے دربارِ خلافت سے اِمداد طلب کی تو حضرت ابوبکر صدیق  ؓ نے حضرت خالد   کو جو عراق اور ایران میں فتح کے ڈنکے بجاتے بڑھتے چلے جاتے تھے ٗ حکم دیا کہ شام جا کر مُسلمانوں کی مدد کریں۔ چنانچہ حضرت خالد   دس ہزار فوج کے ساتھ شام میں اِسلامی فوج سے جا ملے۔

حضرت خالد   نے اِسلامی فوج کو اِس طریق پر ترتیب دیا کہ اس سے پہلے عربی فوج کبھی اس طرح مرتب نہ کی گئی تھی۔ اُنہوں نے سارے لشکر کو 38 دستوں میں تقسیم کیا۔18 دستے قلب میں رکھے اور اُبو عبیدہ ؓ  کو اُن کا سردار مقرر کِیا۔ عمروؓ بن عاص کی سرداری میں دس دستے داہنے بازو پر اور یزیدؓ بن ابوسفیان کی قیادت میں دس دستے بائیں بازو پر متعین کئے۔

رُومیوں نے بھی مُسلمانوں کے مقابلے میں بڑی شان وشوکت سے صف بندی کی اور میدان کا رزار گرم ہوا۔ رُومی اگرچہ بڑے بہادر تھے مگر مُسلمانوں نے جس ہمت و استقلال کا ثبوت دِیا ٗ وہ تاریخ میں ہمیشہ یادگار رہے گا۔ مُسلمان خواتین نے بھی اس جنگ میں نمایاں حصہ لیا اور بہت سے کافروں کو تہ تیغ کیا۔ لڑائی دن اور رات بھر ہوتی رہی۔ آخر رومیوں کے پائوں اُکھڑے اور وہ اپنی جانیں بچا کر بھاگے۔ ہر قل کو جب اس شکست کی خبر ملی تو اُس نے کہا کہ

اے ملک شام! تجھ کو یہ میرا آخری سلام ہے۔

دَورانِ جنگ میں ہی مدینہ منورہ سے یہ رُوح فرسا خبر موصول ہوئی کہ حضرت صدیق اکبر ؓ  انتقال فرما گئے ہیں اور حضرت عمرؓ  ان کی بجائے خلیفہ مقرر ہوئے ہیں۔

 

© Copyright 2025, All Rights Reserved