خلافت
جناب صدیق کو جب آنحضرت ؐ کے انتقال کی خبر ملی تو آپ فوراً گھوڑے پر سوار ہو کر مدینہ منورہ پہنچے۔ سیدھے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے حُجرے میں گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پرسے چادر ہٹا کر ماتھے پر بوسہ دِیا اور روتے ہوئے فرمایا۔
میں اور میرے ماں باپ قُربان ہوں۔ آپ کی زندگی اور موت دونوں پاک ہیں۔
یہ کہہ کر چہرہ چادر سے ڈھک دِیا اور باہر تشریف لے آئے۔
صحابہؓ میں بڑا ہیجان تھا۔اتنے میں خبر ملی کہ انصارؓ جمع ہو کر اپنے میں سے کسی کو خلیفہ منتخب کرنے کی تجویز پر غور کر رہے ہیں۔ حضرت ابوبکر ؓ فوراً سقیفہ میں پہنچے۔ حضرت عمر ؓ اور دوسرے مہاجر بھی ان کے ساتھ تھے۔ حضرت علی کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن حضرت صدیق نے ان کو روک دیا اور خود نہایت سنجیدگی کے ساتھ کھڑے ہو کر تقریر فرمائی۔ جس میں پہلے مہاجرین کی تاریخ اور اُن کی بزرگی بیان کی۔ اُن مصائب کا ذکر کیا جو اُنہوں نے برداشت کیے تھے۔ اس کے بعد انصار کی دینی خدمات کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ
بہتر ہے کہ امام قریش میں سے ہو۔ ہم امیر ہوں تم وزیر۔ تمہارے مشورے کے بغیر کوئی معاملہ طے نہیں کِیا جائے گا۔
حضرت ابوبکر کی تقریر کے بعد حباب بن منذر خزرجی نے ایک جوشیلی تقریر کرتے ہوئے دو امیر بنانے کی تجویز پیش کی۔ ایک امیر قریش میں سے اور ایک انصار میں سے۔ حضرت عمرؓ اس پر بگڑ گئے اور سخت کلامی بھی ہوئی۔ حضرت ابُو عبیدہ ؓ بن الجراح نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ
اے گروہ انصار! دین اِسلام کی سب سے پہلی فتح تمہارے ہاتھ سے ہوئی۔ اب اس کی بربادی میں تم کو پہل نہیں کرنی چاہیے۔
اس پر بشیر بن سعد انصاری ؓ نے کھڑے ہو کر اپنی قوم کو سمجھایا کہ اُن کا مطالبہ درُست نہیں اور قریش ہی خلافت کے صحیح حقدار ہیں۔ اس تقریر کے ختم ہونے پر انصار ؓ خاموش ہو گئے۔
حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ
یہ عمرؓ اور ابُوعبیدہ ؓ موجود ہیں۔ ان میں سے جس کو تم لوگ پسند کرو ٗ اُس کے ہاتھ پر بیعت کر لو۔
اس پر اِن ہر دو حضرات ؓ نے کہا کہ
آپ مہاجرین میں سب سے افضل ہیں۔ غار میں رسُول اللہ ؐ کے ساتھی اور نماز پڑھانے میں اُن کے قائم مقام رہے ہیں۔ نماز وہ شے ہے جو دین کے کاموں میں سب سے افضل ہے۔ آپ کے ہوتے ہوئے دوسرا کون خلافت کا حق دار ہو سکتا ہے؟
یہ کہہ کر سب سے پہلے حضرت عمرؓ بڑھے اور حضرت ابوبکر ؓ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اس کے بعد اُبو عبیدہ ؓ اور بشیرؓ بن سعد نے بیعت کی۔ حضرت عبدالرحمنؓ اور حضرت عثمان ؓ نے ان کی پیروی کی۔
سقیفہ بنی ساعدہ کی بیعت کے اگلے روز مسجد نبوی ؐ میں مُسلمان جمع ہوئے اور حضرت عمرؓ کے اصرار پر جناب صدیق منبر کے نچلے درجے پر بیٹھے۔ اس موقع پر حضرت عمرؓ نے کھڑے ہو کر تقریر کی اور فرمایا کہ
اے مُسلمانو! کیا تم نہیں جانتے کہ ابوبکر ؓ غار میں رسُول اللہ کے ساتھی تھے۔ پس وہ تم پر حکومت کرنے کے لئے سب مُسلمانوں سے زیادہ حق دار ہیں۔ لوگو! اُٹھو اور ابوبکر ؓ سے بیعت کرو۔
اس پر سب لوگوں نے حضرت ابوبکر ؓ کے ہاتھ پر بیعت کی جو بیعتِ عام کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا
لوگو! قسم ہے اللہ کی نہ میں کبھی امارت کا خواہاں تھا نہ اُس کی طرف مجھے رغبت تھی۔ اور نہ کبھی میں نے خفیہ یا ظاہرا للہ تعالیٰ سے اس کے لئے دُعا کی۔ لیکن مجھے خوف ہُوا کہ کوئی فتنہ نہ برپا ہو جائے۔ اس لئے اس بوجھ کو اُٹھانے کے لئے تیار ہو گیا۔ ورنہ مجھے امارت میں کوئی راحت نہیں۔ بلکہ یہ ایسا بار مجھ پر ڈالا گیا ہے جس کے برداشت کی طاقت میں اپنے اندر نہیں پاتا اور اللہ کی مدد کے بغیر یہ فرض پُورا نہیں ہو سکتا۔ کاش میری بجائے کوئی ایسا شخص ہوتا جو اس بوجھ کو اُٹھانے کی مجھ سے زیادہ طاقت رکھتا۔
مجھے تم نے امیر بنایا۔ حالانکہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں۔ اگر اچھا کام کروں تو مجھے مدد دینا اور اگر غلطی کروں تو اصلاح کرنا۔
تم میں سے جو کمزور ہے وہ میرے نزدیک قوی ہے یہاں تک کہ اُس کا حق دلوائوں اور تم میں سے جو قومی ہے وہ میرے نزدیک کمزور ہے یہاں تک کہ اُس سے حق لے لوں۔
جب تک میں اللہ اور اُس کے رسُول ؐ کی طاعت کروں ٗ تم میری اطاعت کرو اور اگر اُن کے خلاف کروں تو میرا ساتھ چھوڑ دو۔
© Copyright 2025, All Rights Reserved