غزوات میں حصہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں کُفار سے جس قدر جنگیں ہوئیں۔ اُن میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
بدر کے میدان میں ہزاروں کُفار کے مقابلے میں صرف 313 مُسلمان جہاد کو نکلے۔ سامانِ جنگ کی یہ حالت تھی کہ کسی مُسلمان کی تلوار پر نیام تک نہ تھی۔ لڑائی شروع ہونے سے پہلے جب محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم خدا سے دُعا مانگ رہے تھے تو حضرت صدیق ؓ آپ ﷺ کی چادر کو آپ ﷺ کے شانوں پر اُٹھائے ہوئے تھے اور حضرت صحابہ نے حضور ﷺ کے آرام کی خاطر ایک طرف چھوٹا سا ایک خیمہ نصب کر دیا تو صدیق اکبرؓ تلوار لے کر دروازے پر پہرہ دینے لگے۔ پھر جب آنحضرت ﷺ قریش کے مقابلہ کے لئے میدان میں آئے تو داہنے بازو کے افسر ابوبکر صدیق ؓ اور بائیں بازو پر جناب حضرت علی المرتضیٰ ؓ مقرر ہوئے۔
جنگ میں جب حضرت صدیق ؓ کے باپ اُبو قحافہ اور بیٹے عبدالرحمن قریش کی طرف سے مُسلمانوں کو للکارتے ہوئے نکلے تو حضرت صدیق ؓنے آنحضرت ﷺ سے باپ اور بیٹے سے لڑنے اور ان کے سر کاٹ کر لانے کی اجازت طلب کی مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔
نہیں! اس کام میں نہ جلدی کی ضرورت ہے ٗ نہ تمہاری خصوصیت کی حاجت۔
چونکہ خدا کو اِن دونوں کا مُسلمان ہونا منظور تھا ٗ اس لئے یہ دونوں بچ رہے ٗ اور بہت جلد مُسلمان ہو گئے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر کے قیدیوں کے متعلق صحابہ ؓ سے مشورہ لیا تو حضرت ابوبکر ؓ نے یہ رائے دی کہ فدیہ لے کر چھوڑ دینا مناسب ہے۔ آنحضرت ﷺ کو جنابِ صدیق ؓ کی رائے پسند آئی اور قیدیوں کو قتل کرنے کی بجائے فدیہ لے کر چھوڑ دِیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہُوا کہ اُن میں سے اکثر مُسلمان ہو گئے اور مُسلمان بھی ایسے جن پر اِسلام ہمیشہ فخر کرتا رہے گا۔
جنگِ اُحد میں جب رسُولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی افواہ اُڑی تو سب سے پہلے حضرت ابوبکر ؓ ہی موقع پر پہنچے اور جب آنحضرت ﷺ درّئہ کوہ پر تشریف لے گئے تو حضرت ابوبکر ٗ عمر ؓ ٗ علی ٗ طلحہ ؓ اور زبیرؓ ہمراہ تھے۔ غزوئہ خندق میں فوج کا ایک دستہ جنابِ صدیق ؓ کی کمان میں خندق کے ایک حصے کی نگرانی پر مقرر تھا۔ آپ نے نہایت دلیری اور شجاعت کے ساتھ اپنے فرائض انجام دئیے۔ چنانچہ اب تک وہاں مسجد صدیق ؓ کے نام سے اُن کی یادگار موجود ہے۔
صلح حدیبیہ
آنحضرت ﷺ کو مدینہ تشریف لائے ہُوئے چھ برس گزر چکے تھے کہ کعبہ کی زیارت کا شوق پیدا ہوا۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ مکہ کی طرف چل پڑے اور اس خیال سے کہ کفار جنگ کا شُبہ نہ کریں ٗ عُمرہ کا احرام باندھا اور قربانی کے اُونٹ ساتھ لے لیے۔ قریش کو جب مُسلمانوں کی آمد کی اِطلاع ملی تو وہ مقابلے کی تیاریاں کرنے لگے۔ آنحضرت ﷺ نے مکہ کے قریب پہنچ کر مقام حدیبیہ میں قیام کیا اور حسب عادت صحابہ ؓ سے مشورہ فرمایا۔ حضرت صدیق ؓ اکبر نے کہا کہ حضرت عثمان ؓ کو سفیر بنا کر بھیجا جائے۔ وہ مکہ کے سرداروں کو سمجھائیں گے کہ ہم محض حج اور عمرہ کے لئے آئے ہیں۔ لڑنا ہمارا مقصد نہیں۔
آنحضرت ﷺ نے اس تجویز کو پسند فرمایا۔ اَور حضرت عثمانؓ کو ایلچی بنا کر بھیجا گیا۔ جب دو تین دِن تک حضرت عثمان ؓ واپس نہ آئے تو صحابہ ؓ سخت فکر مند ہوئے۔ پھر افواہ اُڑی کہ حضرت عثمان ؓ شہید کر دئیے گئے ہیں۔
یہ سُن کر مُسلمانوں کا خون کھولنے لگا۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے ایک درخت کے نیچے صحابہ ؓ سے دُشمن کے مقابلہ کی بیعت لی۔ جو بیعت رضوان کے نام سے مشہور ہے۔ جب کفار کو مُسلمانوں کی تیاری کا علم ہوا تو وہ صُلح پر آمادہ ہو گئے۔
صلح کی جو شرطیں طے ہوئیں وہ بظاہر مُسلمانوں کے خلاف تھیں۔ اِن سے حضرت عمرؓ کو بہت صدمہ ہُوا۔ وہ بے قرار ہو کر جناب صدیق ؓ کے پاس دَوڑے آئے اور بڑے جوش کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کِیا۔ صدیق اکبر ؓ نے تمام واقعات سُن کر نہایت اطمینان سے فرمایا۔
عمرؓ ! آنحضرت ﷺ کی رکاب تھامے رہو۔
چنانچہ جب معاہدہ لکھا جا چُکا تو اُس پر حضرت ابوبکر ؓ ٗ حضرت عمر ؓ حضرت علی ؓ اور دوسرے صحابہؓ کے دستخط کرائے گئے۔
ان کے علاوہ خیبر ٗ مکہ اور طائف وغیرہ کے غزوات میں بھی جناب صدیق اکبر ؓ آنحضرت ﷺ کے ساتھ رہے اور بہادری کے خوب جوہر دکھائے۔ جب مُسلمان فتح مکہ کے بعد مکہ سے مدینہ کو لَوٹے تو مکہ کے بھاگے ہوئے لوگوں اور قبائل ہوازن نے وادیٔ حُنین کے قریب مُسلمانوں کو روکا۔ پہلے ہی حملہ میں مُسلمانوں کے قدم اُکھڑ گئے اور تمام فوج تِترّ بِتّر ہو گئی۔ آنحضرت ﷺ اس موقع پر تنہا ہی رہ گئے۔ آخر آپ ﷺ کی آواز پر حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمرؓ آئے۔ اہل بیت میں سے حضرت عباس ٗ حضرت فضل بن عباس ؓ ٗ حضرت علی ؓ حضرت اُسامہؓ بن زید اور آپ کی کھلائی کے بیٹے ایمن ؓ واپس آئے۔ حضرت عباسؓ بلند آواز تھے۔ اس لیے انھوں نے نبی کریم ﷺ کا پیغام اُونچی آواز سے صحابہ ؓ تک پہنچایا۔ پھر جب لڑائی شروع ہوئی تو فتح نے مُسلمانوں کے قدم چُومے۔
اب غزوہ تبوک کا حال سُنو۔ اُس وقت تمام عرب میں قحط پڑا ہُوا تھا۔ رسُولِ خُدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رسد کا سامان اور فوج کی تیاری کے لئے کچھ نہ تھا۔ دُشمنوں نے خیال کیا کہ مُسلمانوں کو بَد دِل کرنے اور پھسلانے کا اچھا موقع ہاتھ آیا۔ جب آنحضرت ﷺ نے دیکھا کہ کُفّار کی چالیں کامیاب ہو رہی ہیں تو آپ ﷺ نے اسلام کے فدا کاروں سے امداد کے لئے کہا۔ حضرت عثمان ؓ نے سینکڑوں اُونٹ اور دیگر قیمتی سامان پیش کیا اور دوسرے صحابہ ؓ نے بھی اپنی اپنی ہمت سے بڑھ کر امداد دی۔ حضرت عمرؓ نے اپنا آدھا مال ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سارا مال دے دیا
آنحضرت ﷺ نے جناب صدیق ؓ سے پُوچھا کہ
اے ابوبکر ؓ! بال بچوں کے لئے کیا چھوڑ آئے
تو جواب دِیا۔
یا رسُول ؐ اللہ! میں اپنے گھر میں اللہ اور اُس کے رسُول کا نام چھوڑ آیا ہوں۔ باقی سب کچھ آپ کی خدمت میں حاضر کر دِیا گیا ہے۔
حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ صدیق ؓ کا یہ ایثار دیکھ کر مجھے یقین ہو گیا کہ خیراتی کاموں میں اُن سے کوئی نہیں بڑھ سکتا۔‘‘ علامہ اقبال مرحوم نے اس واقعہ کو اس طرح نظم کیا ہے ؎
اِک دِن رسُولِ پاک ؐ نے اصحاب سے کہا
دیں مال راہِ حق میں جو ہوں تم میں مال دار
ارشاد سُن کے فرطِ طرِب میں عمرؓ اُٹھے
اُس روز اُن کے پاس تھے درہم کئی ہزار
دِل میں یہ کہہ رہے تھے کہ صدیق ؓ سے ضرور
بڑھ کر رکھے گا آج قدم میرا راہوار
لائے غرض کہ مال رسُولِ خُدا ؐ کے پاس
ایثار کی ہے دستِ نگر ابتدائے کار
پُوچھا حضور سرور عالم نے اے عمرؓ
اے وہ کہ جوشِ حق سے ترے دِل کو ہے قرار
رکھا ہے کچھ عیال کی خاطر بھی تو نے کیا
مُسلم ہے اپنے خویش و اقارب کا حق گزار
کی عرض نصب مال ہے فرزند وزن کا حق
باقی جو ہے وہ ملت بیضا پہ ہے نِثار
اتنے میں وہ رفیقِ نبوت بھی آ گیا
شاہد ہے جس کے مہرو وفا پر حِرا کا غار
لے آیا اپنے ساتھ وہ مردِ وفا سرشت
ہر چیز جس سے چشم جہاں میں ہو اعتبار
ملکِ یمین و درہم و دنیارو رخت و جنس
اسپ قمر سُم و شتر و قاطر و حمار
بولے حضور ؐ ’’چاہیے فکر عیال بھی
کہنے لگا وہ عشق و محبت کا راز دار
اے تجھ سے دیدئہ مہ و انجم فروغ گیر
اے تیری ذات باعث تکوین روز گار
پروانوں کو چراغ ٗ عنادل کو پھُول بس
صدیق کے لئے ہے خُدا کا رسُول ؐ بس
© Copyright 2025, All Rights Reserved