ھجرت حبشہ
جب کُفارِ مکہ مُسلمانوں کو بہت تنگ کرنے لگے اور اُن کی سختیاں حد دے بڑھ گئیں تو آنحضرت ﷺ نے ان لوگوں کو جو مصائب برداشت کرنے کی طاقت نہ رکھتے تھے ٗ مکّے سے ہجرت کر جانے کا حکم دے دِیا۔ دوسرے لوگوں کے ساتھ جناب صدیق رضی اللہ عنہ بھی ہجرت کو تیار ہو گئے اور یمن کے راستے حبشہ کا قصد کِیا۔ راستے میں اُنہیں قارہ کا رئیس ابن الدّغنہ ملا۔ جب اُسے اُن کی ہجرت کا حال معلوم ہوا تو کہنے لگا۔
آپ ایسے شخص کو جو بیکسوں کا حامی ٗ غمزدوں کا غمخوار ٗ نیک اور سچا ہو ٗ وطن چھوڑنے پر مجبور نہیں کِیا جا سکتا۔ میں تمہیں پناہ دیتا ہوں ۔ تم واپس مکہ چلو اور اپنے خدا کی عبادت کرو۔
اس پر جنابِ صدیق واپس آگئے۔
قریش کے بڑے بڑے لوگوں نے ابن الّدغنہ کی امان کو اس شرط پر قبول کیا کہ صدیق اکبر علانیہ اپنے رَب کی عبادت نہیں کریں گے۔ گھر کے اندر انہیں نماز وغیرہ کی اجازت ہوگی۔ ایک مُدت تک جنابِ صدیق نے ایسا ہی کِیا۔ لیکن آخر اس پابندی سے تنگ آگئے اور کُھلے بندوں خدا کی عبادت کرنے لگے۔
جنابِ صدیق پر کلامِ الٰہی کا خاص اثر ہوتا تھا۔ تلاوت کے وقت زار و قطار رویا کرتے تھے۔ ان موقعوں پر قریش کے نوجوان مرد اور عورتیں ان کے گرد جمع ہو جاتیں اور اُن پر حضرتِ صدیق کے خلوص کا بہت گہرا اثر ہوتا۔ یہ حالت دیکھ کر قریش کے سردار ابن الّدغنہ کے پاس شکایت لے کر گئے۔ اُس نے کہا
میں ابوبکر کو سمجھائوں گا۔
چنانچہ ابن الّدغنہ نے جب جنابِ صدیق سے اس شکایت کا اظہار کیا تو آپ نے فرمایا۔
مجھے اپنے مولا کی پناہ کافی ہے۔ آپ اپنی پناہ واپس لے لیں۔
© Copyright 2025, All Rights Reserved