اذکاروکیفیات سے متعلق ملفوظات
صحبتِ شیخ جبھی نافع ہوتی ہے جب شیخ کے بتائے ہوئے ذکر وشغل میں بھی مشغول رہے، بعضے لوگ بزرگوں سے تو ہمیشہ ملے جلے رہتے ہیں لیکن خود کچھ کرتے دھرتے نہیں ان کو کچھ حاصل نہیں ہوتا ہمیشہ محروم ہی رہتے ہیں۔ اور بعضے زیادہ وقت تو صحبت شیخ میں گذاردیتے ہیں اور تھوڑا سا وقت نکال کر کچھ الٹا سیدھا ذکروشغل بھی کرلیتے ہیں یہ بھی کافی نہیں۔ غالب حصہ ذکر وشغل کا ہونا چاہئے تب صحبتِ شیخ نافع ہوتی ہے۔(اشرف السوانح: 216/2
حضرت والا فرمایا کرتے تھے کہ ذکر وطاعت میں بہ تکلف مشغول رہنا چاہئے نہ سہولت کا متمنی رہے نہ یہ دیکھے کہ مجھے کچھ نفع ہورہا ہے یا نہیں، ذکر وطاعت میں مشغول رہنا ہی اصل مقصود اور اصل نفع ہے ایک طالب علم کو تحریر فرمایا کہ مقصود کے حصول کا قلب میں تقاضا اور انتظار نہ رکھیں کہ یہ بھی حجاب ہے کیونکہ اس سے تشویش ہوتی ہے اور تشویش برہم زن جمعیت وتفویض ہے اور جمعیت وتفویض ہی وصول کی شرطِ عادی ہے اس کو خوب راسخ کرلیں کہ یہ روحِ سلوک ہے۔ اور یہ بھی فرمایا کرتے ہیں کہ ذکروطاعت میں مشغول ہونے کے لئے دلچسپی اور سہولت کا منتظر نہ رہے بلکہ بتکلف عمل شروع کردے پھر اسی سے رفتہ رفتہ سہولت بھی ہونے لگتی ہے اور دلچسپی بھی پیدا ہوجاتی ہے، اسی مضمون کو ایک بار اس عنوان سے فرمایا کہ لوگ تو اس انتظار میں رہتے ہیں کہ جب دلچسپی پیدا ہو تب کام شروع کریں اور دلچسپی اس انتظار میں رہتی ہے کہ جب کام شروع ہوجائے تب میں پیدا ہوں، ایک بار فرمایا کہ ذکر میں چاہے جی لگے یا نہ لگے لیکن برابر کئے جاؤ، رفتہ رفتہ اس کی ایسی عادت پڑ جاتی ہے کہ پھر بلا اس کے چین ہی نہیں ملتا جیسے شروع شروع میں حقہ پینے سے گھمیر بھی آتی ہے متلی بھی ہوتی ہے بلکہ قے بھی ہوجاتی ہے لیکن پھر پیتے پیتے ایسی چاٹ لگ جاتی ہے کہ چاہے کھانانہ ملے لیکن حقہ کے دو کش مل جاویں۔ ایک بار فرمایا کہ نفع تو شروع ہی سے ہونے لگتا ہے لیکن محسوس نہیں ہوتا جیسے بچہ روز کچھ نہ کچھ ضروربڑھتا ہے لیکن یہ پتہ نہیں چلتا کہ آج اتنا بڑھا کل اتنا بڑھا البتہ ایک معتدبہ مدت گذر جانے کے بعد اس کی پچھلی حالت کو خیال میں لاکر موازنہ کیا جاوے تو زمین وآسمان کا فرق معلوم ہو یہی حال ذکر کا ہے کہ شروع میں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا کچھ بھی نفع نہیں ہورہا حالانکہ دراصل نفع برابر ہورہا ہے۔ ایک معتدبہ مدت گذر جانے کے بعد اپنی پچھلی حالت کو ذہن میں مستحضر کرکے اس سے حالتِ موجودہ کا موازنہ کرے تو زمین آسمان کا فرق نظر آئے گا۔(اشرف السوانح: 212/2
حضرت والا فرمایا کرتے ہیں کہ ذکر کے دوران اگر بسہولت ہوسکے تو ’’مذکور‘‘ کی طرف ورنہ ذکر کی طرف توجہ رکھے اور احقر کو ابتداء میں یہ مراقبہ تعلیم فرمایا تھا کہ گویا زبان کے ساتھ ساتھ قلب سے بھی کلماتِ ذکر نکل رہے ہیں اور وہ بھی میرے ساتھ شریکِ ذکر ہے، جہاں تک احقر کو یاد ہے ایک مبتدی طالب کو دورانِ ذکر میں یہ مراقبہ بھی تعلیم فرمایا تھا کہ گویا بیت اللہ شریف میرے سامنے ہے، اسی طرح دوران درود شریف کے لئے یہ مراقبہ تعلیم فرمایا تھا کہ گویا میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ اقدس کے مواجہ میں درود شریف پڑھ رہا ہوں اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم خوش ہورہے ہیں۔(اشرف السوانح: 217/2
حضرت والا ذکر کے نافع ہونے کی ایک یہ بھی نہایت ضروری شرط بڑے اہتمام سے بیان فرمایا کرتے ہیں کہ خالی الذہن ہو کر محض تعداد ہی پوری کرنے کی نیت سے نہ کرے بلکہ اس نیت سے کرے کہ مجھے اس سے نفع اور برکت حاصل ہو اور برابر یہی نیت رکھے لیکن نفع کے حصول کی نگرانی اور انتظار میں نہ رہے کہ یہ موجبِ تشویش ہونیکے سبب مضر ہے، لوگ جو اکثر برکاتِ ذکر سے محروم رہتے ہیں اس کی یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے کہ نفع اور برکت کی نیت سے ذکر نہیں کرتے۔ حضرت والا نے اس مضمون پر اپنے وعظ ’’طریق القلندر‘‘ میں بھی بہت زور دیا ہے جس کا ضروری اقتباس ایک موقع پر اوراقِ ماسبق میں ہدیۂ ناظرین کیا جاچکا ہے اس کا بھی خلاصہ یہی ہے کہ اعمال سے جو محبتِ حق پیدا نہیں ہوتی اس کاسبب یہ ہے کہ محبتِ حق کی نیت سے اعمال نہیں کئے جاتے، خالی الذہن ہوکر کئے جاتے ہیں۔ حضرت والا ذکر میں خفیف جہر وضرب تعلیم فرمایا کرتے ہیںلیکن ساتھ ہی یہ بھی فرمادیتے ہیں کہ اگر بعد کو جوش میں آواز بلند ہونے لگے تو بلند ہونے دے طبیعت کو گھونٹنے کی ضرورت نہیں، البتہ اگر سونے والوں یا مصلیوں کو تکلیف یا تشویش ہو تو بالکل خفی کی تاکید فرماتے ہیں کیونکہ ایسی صورت میں جہرجائز ہی نہیں ، چنانچہ ایک صاحب کو جو اتنی بلند آواز سے تہجد کے وقت ذکر کرتے تھے کہ محلہ میں دور تک آواز پہونچتی تھی اتنے جہر سے بتاکید ممانعت فرمادی، اسی طرح ایک بوڑھے طالب نے لکھا کہ کچھ تو سونے والوں کی وجہ سے اور کچھ رفع تکان کے سبب سے چند روز سے بجائے ذکر جہر کے ذکر خفی کرلیا کرتا ہوں کوئی حرج تونہیں جواب تحریر فرمایا کہ نہیں بلکہ افضل وانفع ہے۔
لیکن حضرت والا محض ذکر قلبی پر اکتفا نہیں فرماتے کیونکہ اس میں اکثر ذہول ہوجاتا ہے اور طالب اسی دھوکہ میں رہتا ہے کہ ذکر قلبی میں مشغول ہوں چنانچہ ایک طالب کو جنہوں نے ذکر قلبی سے اپنی دلچسپی کا حال لکھا تھا تحریرفرمایا کہ محض ذکر ِقلبی پر اکتفا نہ کیا جائے ذکرِ لسانی بھی اس کے ساتھ ضروری ہے خواہ قلبی میں اس سے کچھ کمی ہی ہوجائے۔
حضرت والا اس کا راز یہ فرمایا کرتے ہیں کہ اگر ذکرِ قلبی کے ساتھ ذکرِ لسانی ہو تو اس میں یہ مصلحت ہے کہ ا گر کبھی ذکرِ قلبی سے ذہول ہوگیا جیسا کہ اکثر ہوتا رہتا ہے اور قلب ذاکر نہ رہا تو کم از کم زبان تو ذاکر اور مشغولِ عبادت رہیگی، بخلاف نرے ذکرِقلبی کی حالت کے اگر اس صورت میں ذہول ہو تو نہ قلب ذاکر رہے گانہ زبان کیونکہ زبان تو پہلے ہی سے غیر ذاکر ہے اور اب قلب بھی ذاکر نہیں رہا غرض غفلت میں وقت گذریگا اور ذاکر کو خبر بھی نہ ہوگی۔(اشرف السوانح: 218/2 )
حضرت والا بتاکید فرمایا کرتے ہیں کہ اپنے معمول کو پورا ضرورکرلینا چاہئے خواہ عذر کی حالت میں بے وضو ہی سہی یا چلتے پھرتے ہی سہی کیونکہ معمول کو مقرر کرلینے کے بعد ناغہ میں بڑی بے برکتی ہوتی ہے چنانچہ حدیث شریف میں بھی اس کی تاکید ہے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’یا عبداللّٰہ لا تکن مثل فلان کان یصلی باللیل ثم ترکہ‘‘یہ ایسا ہے جیسے کسی نے اپنے حاکم کے پاس آنا جانا شروع کیا اور خصوصیت کا تعلق قائم کر نیکے بعد پھر آنا جانا موقوف کردیا تو حاکم کو بہت ناگوار ہوگا اور جو خصوصیت کا تعلق پیدا ہی نہیں کرتا اس سے کوئی شکایت نہیں ہوتی بشرطیکہ غائبانہ اطاعت کا تعلق قائم رکھا جائے جو بہرحال ضروری ہے۔(اشرف السوانح: 219/2
© Copyright 2025, All Rights Reserved