• ہلوکی روڈ ڈیفنس
  • Mon - Sat 8:00 - 18:00

کفر واسلام کا معیار کیا ہے اور کس وجہ سے کسی مسلمان کو مرتد یا خارج از اسلام کہا جاسکتا ہے

حوالہ

حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ نے اصول تکفیر میں ایک مختصر اور جامع مانع اور نافع رسالہ لکھا ہے۔ اس کا نام ہے۔ وصول الافکارالی اصول الاکفار۔یہ تحریر اسی سے لی گئی ھے۔

سوال

کفر واسلام کا معیار کیا ہے اور کس وجہ سے کسی مسلمان کو مرتد یا خارج از اسلام کہا جاسکتا ہے؟

الجواب

ارتداد کے معنی لغت میں پھر جانے اور لوٹ جانے کے ہیں ۔اور اصطلاح شریعت میں ایمان و اسلام سے پھر جانے کو ارتداد اور پھرنے والے کو مرتد کہتے ہیں۔

اور ارتداد کی صورتیں دو ہیں۔

ایک تو یہ کہ کوئی کم بخت صاف طور پر تبدیل مذہب کرکے اسلام سے پھر جائے۔

جیسے

عیسائی ‘یہودی ‘آریہ سماجی وغیرہ مذہب اختیار کرے۔ یا خداوندعالم کے وجود یا توحید کا منکر ہو جائے۔یا آنحضرتﷺ کی رسالت کا انکار کردے۔ والعیاذباللہ تعالیٰ

دوسرے یہ کہ اس طرح صاف طور پر تبدیل مذہب اور توحید ورسالت سے انکار نہ کرے۔لیکن کچھ اعمال یا اقوال یا عقائد ایسے اختیار کرے جو انکار قرآن مجید یا انکار رسالت کے مرادف وہم معنی ہیں۔

مثلاً

اسلام کے کسی ایسے ضروری و قطعی حکم کا انکار کر بیٹھے جس کا ثبوت قرآن مجید کی نص صریح سے ہو یا آنحضرتﷺ سے بطریق تو اتر ثابت ہو ا ہو۔

یہ صورت بھی با جماع امت ارتداد میں داخل ہے۔ اگرچہ اس ایک حکم کے سو اتمام احکام اسلامیہ پر شدت کے ساتھ پابندہو۔

ارتد اد کی اس دوسری صورت میں اکثر مسلمان غلطی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔اور ایسے لوگوں کو مسلمان سمجھتے ہیں ۔اور یہ اگرچہ بظاہر ایک سطحی اور معمولی غلطی ہے۔ لیکن اگر اس کے ہولناک نتائج پر نظر کی جائے تو اسلام اور مسلمان کے لئے اس سے زیادہ کوئی چیز مضر نہیں ۔کیونکہ اس صورت میں کفر واسلام کے حدودممتاز نہیں رہتے۔ کافر و مومن میں کوئی امتیاز نہیں رہتا۔اسلام کے چا لاک دشمن اسلامی برادری کے ارکان بن کر مسلمانوں کے لئے ’’مارآستین ‘‘بن سکتے ہیں۔ اوردوستی کے لباس میں دشمنی کی ہر قرارداد کو مسلمانوں میں نافذ کر سکتے ہیں۔

اس لئے مناسب معلوم ہو ا کہ اس صورت ارتداد کی تو ضیح کسی قدر تفصیل کے ساتھ کر دی جائے اور چونکہ ارتداد کی صحیح حقیقت ایمان کے مقابلہ ہی سے معلوم ہو سکتی ہے۔ اس لئے پہلے اجمالاً ایمان کی تعریف اور پھر ارتداد کی حقیقت لکھی جاتی ہے ۔

ایمان وارتداد کی تعریف

ایمان کی تعریف مشہور ومعروف ہے جس کے اہم جزو دو ہیں ایک حق سبحانہ و تعالیٰ پر ایمان لانا۔

دوسرے اس کے رسولﷺ پر ۔

لیکن جس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ پر ایمان کے یہ معنی نہیں کہ صرف اس کے وجود کا قائل ہو جائے۔ بلکہ اس کی تمام صفات کا ملہ‘ علم‘ سمع ‘بصر‘قدرت وغیرہ کو اسی شان کے ساتھ مانناضروری ہے جو قرآن وحدیث میں بتلائی ہیں۔ ورنہ یوں تو ہر مذہب و ملت کا آدمی خدا کے وجود و صفات کو مانتا ہے۔یہودی‘نصرانی‘مجوسی ‘ہندو سب ہی اس پر متفق ہیں۔

اسی طرح رسول اللہﷺ پر ایمان لانے کا بھی یہ مطلب نہیں ہو سکتا کہ آپﷺ کے وجود کو مان لے کہ آپﷺ مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے اور مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کی۔ تریسٹھ سال عمرہوئی۔ فلاں فلاں کام کئے ۔بلکہ رسول اللہﷺ پر ایمان لانے کی حقیقت وہ ہے جو قرآن مجید میں بالفاظ ذیل بتلائی ہے

فلاوربک لایؤمنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ثم لایجدوا فی انفسھم حرجا ً مما قضیت ویسلموا تسلیما۰نساء: ۶۵

قسم ہے آپﷺ کے رب کی یہ لوگ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتے جب تک کہ وہ آپﷺ کو اپنے تمام نزاعات و اختلافات میں حکم نہ بنا دیں اور پھر جو فیصلہ آپﷺ فرمادیں اس سے اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں ا ور اس کو پوری طرح تسلیم نہ کر لیں ۔

روح المعانی میں اسی آیت کی تفسیر سلف سے اس طرح نقل فرمائی ہے

فقد روی عن الصادقؓ انہ قال لو ان قوما عبدواللہ تعالیٰ واقامواالصلوٰۃ وآتوا الزکوۃ وصاموارمضان وحجواالبیت ثم قالوالشئی صنعہ رسول اﷲﷺ الاّصنع خلاف ماصنع او وجدوافی انفسھم حرجاً لکا نو ا

مشر کین۰روح المعانی ص۶۵جز۵

حضرت جعفر صادق  ؓ سے منقول ہے کہ اگر کوئی قوم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے۔ اور نماز کی پابندی کرے۔اور زکوٰۃ ادا کرے۔ اور رمضان کے روزے رکھے۔ اور بیت اللہ کا حج کرے۔ مگر پھر کسی ایسے فعل کو جس کا ذکر حضورﷺ سے ثابت ہو یوں کہے کہ آپﷺ نے ایسا کیوں کیا۔ اس کے خلاف کیوں نہ کیا۔اور اس کے ماننے سے اپنے دل میں تنگی محسوس کرے تو یہ قوم مشرکین میں سے ہے۔

آیت مذکورہ اور اس کی تفسیر سے واضح ہوگیا کہ رسالت پر ایمان لانے کی حقیقت یہ ہے کہ رسول کے تمام احکام کو ٹھنڈے دل سے تسلیم کیا جائے اور اس میں کسی قسم کا پس و پیش یا تردد نہ کیا جائے ۔

اور جب ایمان کی حقیقت معلوم ہو گئی تو کفر وارتداد کی صورت بھی واضح ہو گئی۔ کیونکہ جس چیز کے ماننے اور تسلیم کرنے کا نا م ایمان ہے۔اسی کے نہ ماننے اور انکار کرنے کا نام کفر وارتداد ہے۔ (صرح بہ فی شرح المقاصد)اور ایمان وکفر کی مذکورہ تعریف سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ کفر صرف اسی کا نام نہیں کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ یا رسول اللہﷺ کو سرے سے نہ مانے۔بلکہ یہ بھی اسی درجہ کا کفر اور نہ ماننے کا ایک شعبہ ہے کہ آنحضرتﷺ سے جو احکام قطعی و یقینی طو رپر ثابت ہیں۔ ان میں سے کسی ایک حکم کے تسلیم کرنے سے (یہ سمجھتے ہوئے کہ حضورﷺ کا حکم ہے )انکار کردیا جائے۔ اگرچہ باقی سب احکام کو تسلیم کرے اور پورے اہتمام سے سب پر عامل بھی ہو۔

اور وجہ یہ ہے کہ کفروارتداد حضرت مالک الملک والملکوت کی بغاوت کا نام ہے اور سب جانتے ہیں کہ بغاوت جس طرح بادشاہ کے تمام احکام کی نا فرمانی اور مقابلہ پر کھڑے ہوجانے کو کہتے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی بغاوت ہی سمجھی جاتی ہے کہ کسی ایک قانون شاہی کی قانون شکنی کی جائے۔ اگرچہ باقی سب احکام کو تسلیم کرلے۔

شیطان ابلیس جو دنیا میں سب سے بڑا کافر اور کافر گرہے۔ اس کا کفر بھی اسی دوسری قسم کا کفر ہے۔ کیونکہ اس نے بھی نہ تبدیل مذہب کیا۔ نہ خدا تعالیٰ کے وجود‘ قدرت وغیرہ کا انکار کیا۔ نہ ربوبیت سے منکر ہوا۔صرف ایک حکم سے سرتابی کی جس کی وجہ سے ابدالآباد کیلئے مطرود وملعون ہو گیا۔

حافظ ابن تیمیہ الصارم المسلول ص۲۶۶ طبع بیروت۱۹۹۸ء میں فرماتے ہیں

کماان الردۃ تتجردعن السب فکذلک تتجردعن قصدتبدیل الدین وارادۃ التکذیب بالرسالۃ کما تجردکفرابلیس عن قصد التکذیب بالربوبیۃ

جیسا کہ ارتداد بغیر اس کے بھی ہو سکتا ہے کہ حق تعالیٰ یا اس کے رسولﷺ کی شان میں سب و شتم سے پیش آئے اسی طرح بغیر اس کے بھی ارتداد متحقق ہو سکتا ہے کہ آدمی تبدیل مذہب کا یاتکذیب رسول کا قصد کرے۔ جیسا کہ ابلیس لعین کا کفر تکذیب ربوبیت سے خالی ہے۔

الغرض ارتداد صرف اسی کو نہیں کہتے کہ کوئی شخص اپنا مذہب بدل دے یا صاف طورپر خدااور رسول کامنکر ہوجائے۔ بلکہ ضروریات دین کا انکارکرنا اور قطعی الثبوت والدلالتہ احکام میں سے کسی ایک کا بعد علم انکار کر دینا بھی اسی درجہ کا ارتد اد اور کفر ہے۔

تنبیہ

ہاں اس جگہ دو باتیں قابل خیال ہیں ۔

اول تو یہ کہ کفر وارتداد اس صورت میں عائد ہوتا ہے جب کہ حکم قطعی کے تسلیم کرنے سے انکار اور گردن کشی کرے اور اس حکم کے واجب التعمیل ہونے کا عقیدہ نہ رکھے۔ لیکن اگر کوئی شخص حکم کو توواجب التعمیل سمجھتا ہے مگر غفلت یا شرارت کی وجہ سے اس پر عمل نہیں کرتا تو اس کو کفر وارتداد نہ کہا جائے گا۔ اگرچہ ساری عمر میں ایک دفعہ بھی اس حکم پر عمل کرنے کی نوبت نہ آئے۔ بلکہ اس شخص کو مسلمان ہی سمجھا جائے گا۔اور پہلی صورت میں کہ کسی حکم قطعی کو واجب التعمیل ہی نہیں جا نتا۔ اگرچہ کسی وجہ سے وہ ساری عمر اس پر عمل بھی کرتارہے جب بھی کافر مرتد قرار دیا جائے گا۔مثلاً ایک شخص پانچوں وقت کی نماز کا شدت کے ساتھ پابند ہے۔ مگر فرض اور واجب التعمیل نہیں جانتا یہ کافر ہے۔ او ر دوسرا شخص جو فرض جانتا ہے مگر کبھی نہیں پڑھتا وہ مسلمان ہے۔ اگرچہ فاسق و فاجر اور سخت گناہ گار ہے۔

دوسری بات قابل غو ر یہ ہے کہ ثبوت کے اعتبار سے احکام اسلامیہ کی مختلف قسمیں ہوگئی ہیں ۔تمام اقسام کا اس بارہ میں ایک حکم نہیں ۔کفر و ارتداد صرف ان احکام کے انکار سے عائد ہوتا ہے جو قطعی الثبوت بھی ہوں اورقطعی الدلالت بھی ۔

قطعی الثبوت ہونے کا مطلب تو یہ ہے کہ ان کا ثبوت قرآن مجید یا ایسی احادیث سے ہو جن کے روایت کرنے والے آنحضرتﷺ کے عہد مبارک سے لے کر آج تک ہر زمانہ اور ہر قرن میں مختلف طبقات اور مختلف شہروں کے لوگ اس کثرت سے رہے ہوں کہ ان سب کا جھوٹی بات پر اتفاق کرلینا محال سمجھاجائے۔ (اسی کو اصطلاح حدیث میں تو اتر اور ایسی احادیث کو احادیث متواترہ کہتے ہیں

اورقطعی الدلالۃ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جو عبادت قرآن مجید میں اس حکم کے متعلق واقع ہوئی ہے یا حدیث متواترہ سے ثابت ہوئی ہے وہ اپنے مفہوم مراد کو صاف صاف ظاہر کرتی ہو۔ اس میں کسی قسم کی الجھن نہ ہو کہ جس میں کسی کی تاویل چل سکے ۔

پھر اس قسم کے احکام قطعیہ اگر مسلمانوں کے ہر طبقہ خاص وعام میں اس طرح مشہور و معروف ہو جائیں کہ ان کا حاصل کرنا کسی خاص اہتمام اور تعلیم و تعلم پر موقوف نہ رہے۔ بلکہ عام طور پر مسلمانوں کو وراثتاً وہ باتیں معلوم ہو جاتی ہوں۔ جیسے نماز ‘روزہ ‘حج ‘زکوۃ کا فرض ہونا‘ چوری وشراب خوری کا گناہ

ہو نا‘آنحضرتﷺ کا خاتم الانبیا ہونا وغیرہ تو ایسے احکام قطعیہ کو

ضروریات دین کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔اور جو اس درجہ

مشہور نہ ہوں وہ صرف قطعیات کہلاتے ہیں۔ ضروریات نہیں۔

ضروریات اور قطعیات کے حکم میں فرق

اور ضروریات او ر قطعیات کے حکم میں یہ فرق ہے کہ

ضروریات دین کا انکار با جماع امت مطلقاً کفرہے۔ ناواقفیت و جہالت کو اس میں عذر نہ قرار دیا جائے گا۔ اور نہ کسی قسم کی تاویل سنی جائے گی۔

اور قطعیات محضہ جو شہرت میں اس درجہ کو نہیں پہنچتے تو حنفیہ کے نزدیک اس میں یہ تفصیل ہے کہ اگر کوئی عامی آدمی بوجہ نا واقفیت وجہالت کے ان کا انکار کر بیٹھے تو ابھی اس کے کفر وارتداد کا حکم نہ کیاجائے گا۔ بلکہ پہلے اس کو تبلیغ کی جائے گی کہ یہ حکم اسلام کے قطعی الثبوت اور قطعی الدلالت احکام میں سے ہے۔ اس کا انکار کفر ہے ۔اس کے بعد بھی اگر وہ اپنے انکار پر قائم رہے تب کفر کا حکم کیا جائے گا۔

کما فی المسایرۃ والمسامرۃ لابن الھمام و لفظہ واماماثبت قطعاً ولم یبلغ حد الضرورۃ کا ستحقاق بنت الابن السدس مع البنت الصلبیۃ با جماع المسلمین فظاھر کلام الحنفیۃ الا کفار بجہدہ بانھم لم یشتر طوافی الاکفار سوی القطع فی الثبوت (الی قولہ)ویجب حملہ علی مااذاعلم المنکر ثبوتہ قطعاً ۰مسامرہ /۱۴۹

اور جو حکم قطعی الثبوت تو ہو مگر ضرورت کی حد کو نہ پہنچا ہو۔ جیسے (میراث میں) اگر پوتی اور بیٹی حقیقی جمع ہوں تو پوتی کو چھٹا حصہ ملنے کا حکم اجماع امت سے ثابت ہے۔سو ظاہر کلام حنفیہ کا یہ ہے کہ اس کے انکار کی وجہ سے کفر کا حکم کیا جائے۔ کیونکہ انہوں نے قطعی الثبوت ہونے کے سوا اور کوئی شرط نہیں لگائی(الی قولہ)مگر واجب ہے کہ حنفیہ کے اس کلام کو اس صورت میں محمول کیا جائے کہ جب منکر کو اس کا علم ہو کہ یہ حکم قطعی الثبوت ہے۔

خلاصہ کلام

خلاصہ کلام یہ ہے کہ جس طرح کفر و ارتداد کی ایک قسم تبدیل مذہب ہے اسی طرح دوسری قسم یہ بھی ہے کہ ضروریات دین اور قطعیات اسلام میں سے کسی چیز کا انکار کردیا جائے یا ضروریات دین میں کوئی ایسی تاویل کی جائے جس سے ان کے معروف معانی کے خلاف معنی پیدا ہو جائیں اور غرض معروف بدل جا ئے۔

اور ارتداد کی اس قسم دوم کا نام قرآن کی اصطلاح میں الحاد ہے

قال تعالیٰ ان الذین یلحدون فی آیاتنا لایخفون علینا۰حم السجدہ:۴۰

جو لوگ ہماری آیات میں الحاد کرتے ہیں وہ ہم سے چھپ نہیں سکتے ۔

اورحدیث میں اس قسم کے ارتداد کا نام زندقہ رکھا گیا ہے ۔جیسا کہ صاحب مجمع البحار نے حضرت علی کر م اللہ وجہہ سے روایت کرتے ہوئے فرمایا ہے

اتی علیؓ بذنادقۃ ھی جمع زندیق (الی قولہ) ثم استعمل فی کل ملحد فی الدین والمرادہھنا قوم ارتدد وعن الاسلام

۰مجمع البحار ج ۲ ص۴۴باب الزا مع النون

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پاس چند زنادقہ (گرفتار کرکے)لائے گئے۔زنادقہ جمع زندیق کی ہے اور لفظ زندیق ہر اس شخص کیلئے استعمال کیا جاتا ہے جو دین میں الحاد (یعنی بے جاتا ویلات)کرے اورر اس جگہ مراد ایک مرتد جماعت ہے۔

اور علمائے کلام اور فقہاء اس خاص ارتداد کانام با طنیت رکھتے ہیں

اور کبھی و ہ بھی زندقہ کے لفظ سے تعبیر کر دیتے ہیں ۔

شرح مقاصد میں علامہ تفتازانی اقسام کفر کی تفصیل اس طرح نقل فرماتے ہیں

یہ بات ظاہر ہوچکی ہے کہ کافر اس شخص کا نام ہے جو مومن نہ ہو۔

پھر اگر وہ ظاہر میں ایمان کا مدعی ہو تو اس کو منافق کہیں گے۔اور اگر مسلمان ہونے کے بعد کفر میں مبتلا ہو ا ہے تو اس کانام

مرتدر کھاجائے گا ۔کیونکہ وہ اسلام سے پھر گیا ہے۔

اور اگر دو یا دو سے زیادہ معبودوں کی پرستش کا قائل ہو تو اس کو

مشرک کہاجائے گا۔

اور اگر ادیان منسوخہ یہود یت و عیسائیت وغیرہ میں کسی مذہب کا

پابند ہو تو اس کو کتابی کہیں گے۔

اور اگر عالم کے قدیم ہو نے کا قائل ہو اور تمام واقعات وحوادث

کو زمانہ کی طرف منسوب کرتا ہو تو اس کو دہریہ کہا جائے گا

اور اگر وجود باری تعالیٰہی کا قائل نہ ہو تو اس کو معطل کہتے ہیں

اور اگر نبی کریمﷺ کی نبوت کے اقرار اور شعار اسلام نماز روزہ وغیرہ کے اظہار کے ساتھ کچھ ایسے عقائد دلی رکھتا ہو جو

بالاتفاق کفر ہیں تو اس کو زندیق کہا جاتا ہے۔

ترجمہ عبارت شرح مقاصد ص ۲۶۸و ص ۲۶۹ج ۲

ومثلہ فی کلیات ابی البقائ!

ص۵۵۳‘ ۵۵۴

زندیق کی تعریف میں جو عقائد کفریہ کا دل میں رکھنا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ مثل منافق کے اپنا عقیدہ ظاہر نہیں کر تا بلکہ یہ مراد ہے کہ اپنے عقیدہ کفریہ کو ملمع کرکے اسلامی صورت میں ظاہر کرتا ہے۔

کما ذکرہ الشامی حیث قال فان الزندیق یموہ کفرہ ویروج عقیدتہ الفاسدۃ ویخر جہا فی الصورۃ لصیحۃ و ھذ امعنی ابطان الکفر فلاینا فی اظہارہ الدعوی۰

شامی باب المرتد ص ۳۲۴ج ۳

علامہ شامی نے فرمایا ہے کہ زندیق اپنے کفر پر ملمع سازی کرتا ہے اور اپنے عقیدئہ فاسدہ کو رائج کرنا چاہتا ہے اور اس کو عمدہ صورت میں ظاہر کرتا ہے او زندیق کی تعریف میں جو یہ لکھاجاتا ہے کہ وہ اپنے کفرکو چھپاتا ہے۔ اس کا یہی مطلب ہے (کہ وہ اپنے کفر کو ایسے عنوان اور صورت میں پیش کرتا ہے جس سے لوگ مغالطہ میں پڑ جائیں)اس لئے یہ اخفاء کفر اظہار دعویٰ کے منافی نہیں ۔

کفر کی اقسام مذکورہ بالا میں سے آخری قسم اس جگہ زیر بحث ہے جس کے متعلق شرح مقاصد کے بیان سے ظاہر ہوگیا کہ جس طرح اقسام سابقہ کفر کے انواع ہیں اسی طرح یہ صورت بھی اسی درجہ کا کفر ہے کہ کوئی شخص نبی کریمﷺ کی رسالت اور قرآن مجید کے احکام کو تسلیم کرنے کے باوجود صرف بعض احکام و عقائد میں اختلاف رکھتا ہو۔ اگرچہ دعویٰ مسلمان ہونے کا کرے اور تمام ارکان اسلام پر شدت کے ساتھ عامل بھی ہو۔

ایک شبہ کا جواب

یہ بات عام طور پر مشہور ہے کہ اہل قبلہ کی تکفیر جائز نہیں اور کتب فقہ و عقائد میں بھی اس کی تصریحات موجود ہیں۔ نیز بعض احادیث سے بھی یہ مسئلہ ثابت ہے

کما رواہ ابوداؤد ج ا ص ۲۵۲باب الغزومع آئمۃ الجورفی الجہاد۰

عن انس ؓقال قال رسول اﷲﷺ ثلث من اصل الا یمان الکف عمن قال لا الہ الااﷲ ولا تکفرہ بذنب ولا تخرجہ من الا سلام بعمل۰ الحدیث

حضرت انس ؓفرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے رشاد فرمایا کہ ایمان کی اصل تین چیزیں ہیں ایک یہ کہ جو شخص کلمہ لا الہ الااﷲ کا قائل ہو اس کے قتل سے بازرہو۔اور کسی گناہ کی وجہ سے اس کو کافر مت کہو اور کسی عمل بد کی وجہ سے اس کو اسلام سے خارج نہ قرار دو۔

اس لئے مسئلہ زیر بحث میں یہ شبہ پیدا ہو جاتا ہے کہ جو شخص نماز روزہ کا پابند ہے وہ اہل قبلہ میں داخل ہے۔ تو پھر بعض عقائد میں خلاف کرنے یا بعض احکام کے تسلیم نہ کرنے سے اس کو کیسے کافر کہا جاسکتا ہے؟ ۔

اور اسی شبہ کی بنیاد پر آج کل بہت سے مسلمان قسم ثانی کے مرتدین یعنی ملحدین وزنادقہ کو مرتد وکافر نہیں سمجھتے ۔اور یہ ایک بھاری غلطی ہے جس کا صدمہ براہ راست اصول اسلام پر پڑتا ہے۔کیونکہ میں اپنے کلام سابق میں عرض کر چکا ہوں کہ اگر قسم دو م کے ارتداد کو ارتدانہ سمجھا جائے تو پھر شیطان کو بھی کافر نہیں کہہ سکتے ۔اس لئے ضرورت

ہوئی کہ اس شبہ کے منشاء کو بیان کرکے اس کا شافی جواب ذکر کیا جائے ۔اصل اس کی یہ ہے کہ شرح فقہ اکبر ص۱۸۹ وغیرہ میں امام اعظم ابو حنیفہ ؒسے اور حواشی شرح عقائد میں شیخ ابوالحسن اشعری سے اہل سنت والجماعۃ کا یہ مسلک نقل کیا گیا ہے

ومن قواعد اھل السنۃ و الجماعۃ ان لایکفروا احدمن اھل القبلۃ (کذافی شرح العقائد النسفیۃ ص۱۲۱)وفی شرح التحریر ص۳۱۸ ج۳ وسیا قہا عن ابی حنیفۃؒ ولا نکفر اھل القبلۃ بذنب انتھٰی فقیدہ با لذنب فی عبارۃ الامام واصلہ فی حدیث ابی داؤد کمامر آنفاً۰

اہل سنت والجماعۃ کے قواعد میں سے ہے کہ اہل قبلہ میں سے کسی شخص کی تکفیر نہ کی جائے۔ (شرح عقائد نسفی )اور شرح تحریر ص۳۱۸ج ۳ میں ہے کہ یہ مضمون امام اعظم ابو حنیفہؒ سے منقول ہے کہ ہم اہل قبلہ میں سے کسی شخص کو کسی گناہ کی وجہ سے کافر نہیں کہتے۔ سو اس میں بذنب کی قید موجود ہے اور غالباً یہ قید حدیث ابودائود کی بناء پر لگائی گئی ہے جو ابھی گذر چکی ہے۔

جس کا صحیح مطلب تو یہ ہے کہ کسی گناہ میں مبتلا ہوجانے کی وجہ سے کسی مسلمان کو کافر مت کہو۔ خواہ کتنا ہی بڑاگناہ ہو(بشر طیکہ کفر و شرک نہ ہو)کیونکہ گناہ سے مراد اس جگہ پر وہی گناہ ہے جو حدکفر تک نہ پہنچا ہو۔

کمافی کتاب الایمان لابن تیمیہ حیث قال ونحن اذا قلنا اھل السنۃ متفقون علی ان لایکفر بالذنب فانما نرید بہ المعاصی کا لزنا والشرب انتھٰی اوضحہ القونوی فی شرح العقیدۃ الطحاویۃ۰

جیسا کہ حافظ ابن تیمیہ کی کتاب الایمان میں ہے کہ ہم جب یہ کہتے ہیں کہ اہل سنت و الجماعت اس پر متفق ہیں کہ اہل قبلہ میں سے کسی شخص کو کسی گناہ کی وجہ سے کافر نہ کہیں تو اس جگہ گناہ سے ہماری مراد معاصی مثل زناوشراب خوری وغیرہ ہوتے ہیں اور علامہ قونوی نے عقیدہ طحاوی کی شرح میں اس مضمون کو خوب واضح کر دیا ہے۔

ورنہ پھر اس عبارت کے کو ئی معنی نہیں رہتے۔ اور لفظ بذنب کے اضافہ کی (جیسا کہ فقہ اکبر اور شرح تحریر کے حوالہ سے اوپر نقل ہو اہے )کوئی وجہ باقی نہیں رہتی ۔اب شبہات کی ابتداء یہاں سے ہوئی کہ بعض علماء کی عبارتوں میں اختصار کے مواقع میں بذنب کا لفظ بوجہ معروف ومشہور ہونے کے چھوڑدیاگیا ۔اور مسئلہ کا عنوان عدم تکفیر اہل القبلہ ہوگیا۔حدیث و فقہ سے نا آشنا اور غرض متکلم سے نا واقف لوگ یہاں سے یہ سمجھ بیٹھے کہ جو شخص قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھ لے اس کو کافر کہنا جائز نہیں۔ خواہ کتنے ہی عقائد کفر یہ رکھتا ہو ۔اور اقوال کفر یہ بکتا پھرے۔اور یہ بھی خیال نہ کیا کہ اگر یہی لفظ پرستی ہے تو اہل قبلہ کے لفظوں سے تو یہ بھی نہیں نکلتا کہ قبلہ کی طرف منہ کرکے نمار پڑھے۔ بلکہ ان لفظوں کا مفہوم تو اس سے زائد نہیں کہ صرف قبلہ کی طرف منہ کرلے خواہ نماز بھی پڑھے یا نہ پڑھے ۔اگر یہ معنی مراد لئے جائیں تو پھر دنیا میں کوئی شخص کا فرہی نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ کبھی نہ کبھی ہر شخص کا منہ قبلہ کی طرف ہو ہی جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ لفظ اہل قبلہ کی مراد تمام ا وقات واحوال کا استیعاب با ستقبال قبلہ نہیں۔

خوب سمجھ لیجئے کہ لفظ اہل قبلہ ایک شرعی اصطلاح ہے جس کے معنی اہل اسلام کے ہیں اور اسلام وہی ہے جس میں کوئی بات کفر کی نہ ہو۔لہٰذا یہ لفظ صرف ان لوگوں کیلئے بولا جاتا ہے جو تمام ضروریات دین کو تسلیم کریں۔اور آنحضرتﷺ کے تمام احکام پر (بشرط ثبوت) ایمان لائیں۔نہ ہر اس شخص کیلئے جو قبلہ کی طرف منہ کرلے۔جیسے دنیا کی موجودہ عدالتوں میں اہل کار کالفظ صرف ان لوگوں کیلئے بولا جاتا ہے جو با ضابطہ ملازم اور قوانین ملازمت کا پابندہو۔اس کے مفہوم لغوی کے موافق ہر کام والے آدمی کو اہل کارنہیں کہاجاتا۔اور یہ جو کچھ لکھا گیا علم فقہ وعقائد کی کتابیں تقریباً تمام اس پر شاہدہیں جن میں سے بعض عبارات

درج ذیل ہیں

حضرت ملا علی قاری شرح فقہ اکبر میں فرماتے ہیں

اعلم ان المراد باھل القبلۃ الذین اتفقواعلی ماھومن ضروریات الدین کحدوث العالم وحشرالاجساد وعلم اللہ تعالیٰ بالکلیات والجزئیات ومااشبہ ذلک من المسائل المھمات فمن واظب طول عمرہ علی الطاعات والعبادات مع اعتقادقدم العالم ونفی الحشر اونفی علم سبحانہ وتعالیٰ بالجزئیات لایکون من اھل القبلۃ وان المراد بعدم تکفیر احد من اھل القبلۃ عنداھل السنۃ انہ لایکفر احد ما لم یوجد شئی من امارات الکفر وعلاماتہ ولم یصدرعنہ شئی من موجباتہ۰شرح فقہ اکبر ص ۱۸۹

خوب سمجھ لو کہ اہل قبلہ سے مرادوہ لوگ ہیں جو ان تمام عقائد پر متفق ہوں جو ضروریات دین میں سے ہیں۔ جیسے حدوث عالم اور قیامت وحشرابدان اور اللہ تعالیٰ کا علم تمام کلیات وجزئیات پر حاوی ہونا اور اسی قسم کے دوسرے عقائد مہمہ۔ پس جو شخص تمام عمر طاعات وعبادات پر مداومت کرے۔ مگر ساتھ ہی عالم کے قدیم ہونے کا معتقد ہو یا قیامت میں مردوں کے زندہ ہونے کا یا حق تعالیٰ کے علم جزئیات کا انکار کرے وہ اہل قبلہ میں سے نہیں۔ اور یہ کہ اہل سنت کے نزدیک اہل قبلہ کی تکفیر نہ کرنے سے مراد یہی ہے کہ ان میں سے کسی شخص کو اس وقت تک کافر نہ کہیں۔جب تک اس سے کوئی ایسی چیز سرزد نہ ہو جو علامات کفر یا موجبات کفر میں سے ہے۔

اور شرح مقاصد مبحث سابع میں مذکورالصدر مضمون کو مفصل بیان کرتے ہوئے لکھا ہے

فلا نزاع فی کفر اھل القبلۃ المواظب طول العمر علی الطاعات

با عتقادقدم العالم ونفی الحشر ونفی العلم بالجزئیات ونحوذالک وکذلک بصدورشئی من موجبات الکفرعنہ۰

اس میں کسی کا اختلاف نہیں کہ اہل قبلہ میں سے اس شخص کو کافر کہا جائے گاجو اگر چہ تمام عمر طاعات و عبادات میں گزارے۔ مگر عالم کے قدیم ہونے کا اعتقاد رکھے یا قیامت و حشر کا یا حق تعالیٰ کے عالم جزئیات ہونے کا انکار کرے۔ اسی طرح وہ شخص جس سے کوئی چیز موجبات کفر میں سے صادر ہوجائے ۔

اور علامہ شامی نے ردالمختارباب الامامتہ جلد اول میں بحوالہ تحریر الاصول نقل فرمایا ہے

لاخلاف فی کفر المخالف من اھل القبلۃ المواظب طول عمرہ علی الطاعات کما فی شرح التحریر۰شامی ج ا ص ۴۱۴ باب الامامۃ۰

اس میں سے کسی کا خلاف نہیں کہ اہل قبلہ میں جو شخص ضروریات دین میں سے کسی چیز کا منکر ہو وہ کافر ہے۔ اگرچہ تمام عمر طاعات وعبادات میں گزاردے۔

اور شرح عقائد نسفی کی شرح نبراس میں ہے

اھل القبلۃ فی اصطلاح المتکلمین من یصدق بضروریات الدین الی قولہ فمن انکرشیئا من الضروریات (الی قولہ)لم یکن من اھل القبلۃ ولوکان مجاھد ابالطاعات و کذلک من باشرشئیا من امارات التکذیب کسجود صنم والاھانۃ بامر شر عی والا ستھزاء علیہ فلیس من اھل القبلۃ ومعنی عدم تکفیر اھل القبلۃ ان لا یکفر بارتکاب المعاصی ولا بانکار الا مور الخفیۃ غیر المشہورۃ ھذا ما حققہ المحققون۰

نبر اس ص ۳۴۲من قواعد اہل السنۃ ان لایکفراحد من اہل القبلۃ۰

اہل قبلہ متکلمین کی اصطلاح میں وہ شخص ہے جو تمام ضروریات دین کی تصدیق کرے۔ پس جو شخص ضروریات دین میں سے کسی چیز کا انکار کرے وہ اہل قبلہ میں سے نہیں۔ اگرچہ عبادت و اطاعت میں مجاہدات کرنے والا ہو۔ایسے ہی وہ شخص جو علامات کفر و تکذیب میں سے کسی چیز کا مرتکب ہو۔ جیسے بت کو سجد ہ کرنا یا کسی امر شرعی کی اہانت واستہزاء کرنا وہ اہل قبلہ میں سے نہیں اوراہل قبلہ کی تکفیر نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ معاصی کے ارتکاب کی وجہ سے اس کو کافر نہ کہیں اور نہ ایسے امو ر کے انکار کی وجہ سے کافر کہیں جو اسلام میں مشہور نہیں۔ یعنی ضروریات دین میں سے نہیں ۔

تنبیہ

کسی مسلمان کو کافر کہنے کے معاملہ میں آج کل ایک عجیب افراط و تفریط رونما ہے۔

ایک جماعت ہے کہ جس نے مشغلہ یہی اختیار کر لیا ہے کہ ادنیٰ معاملات میں مسلمانوں پر تکفیر کا حکم لگا دیتے ہیں اورجہاں ذراسی کوئی خلاف شرع حرکت کسی سے دیکھتے ہیں تو اسلام سے خارج کہنے لگتے ہیں۔

اوردوسری طرف نو تعلیم یافتہ آزاد خیال جماعت ہے جس کے نزدیک کوئی قول وفعل خواہ کتنا ہی شدید ا ور عقائد اسلامیہ کا صریح مقابل ہو کفر کہلانے کا مستحق نہیں۔وہ ہر مدعی اسلام کو مسلمان کہنا فرض سمجھتے ہیں۔ اگرچہ اس کا کوئی عقیدہ اور عمل اسلام کے موافق نہ ہو اور ضروریات دین کا انکار کرتا ہو۔

اور جس طرح کسی مسلمان کو کافر کہنا ایک سخت پر خطر معاملہ ہے اسی طرح کافر کو مسلمان کہنا بھی اس سے کم نہیں۔ کیونکہ حدودکفرواسلام میں التباس بہردوصورت لازم آتا ہے۔ اس لئے علماء امت نے ہمیشہ ان دونوں معاملوں میں نہایت احتیاط سے کا م لیا ہے۔ امر اول کے متعلق تو یہاں تک تصریحات ہیں کہ اگر کسی شخص سے کوئی کام خلاف شرع صادر ہوجائے اور اس کلام کی مراد میں محاورات کے اعتبارسے چند احتمال ہوں اور سب احتمالات میں یہ کلام ایک کلمہ کفر بنتا ہو۔ لیکن صرف ایک احتمال ضعیف ایسا بھی ہو کہ اگر اس کلام کو اس پر حمل کیا جائے تو معنی کفر نہیں رہتے۔ بلکہ عقائد حقہ کے مطابق ہو جاتے ہیں تو  مفتی پر واجب ہے کہ اسی احتمال ضعیف کو اختیار کرکے اس کے مسلمان ہونے کا فتویٰ دے۔ جب تک کہ خودوہ متکلم اس کی تصریح نہ کرے کہ میری مراد یہ معنی نہیں ۔اسی طرح اگر کوئی مسلمان کسی ایسے عقیدہ کا قائل ہو جاوے جو آئمہ اسلام میں سے اکثر لوگوں کے نزدیک کفر ہو۔ لیکن بعض آئمہ اس کے کفر ہونے کے قائل نہ ہوں تو اس کفر مختلف فیہ سے بھی مسلمان پر کفر کا حکم کرنا جائز نہیں۔ (صرح بہ فی البحر الرائق باب المرتدین ج۵)ومثلہ فی ردالمحتاروجامع الفصولین من باب کلمات الکفر

اور امر دوم کے متعلق بھی صحابہ کرامؓ اور سلف صالحینؒ کے تعامل نے یہ بات متعین کردی کہ اس میں تہاون و تکاسل کرنا اصول اسلام کو نقصان پہنچا نا ہے ۔آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد جو لوگ مرتد ہوئے تھے۔ ان کا ارتداد قسم دوم ہی کا ارتداد تھا۔صریح طور پر تبدیل مذہب (عموماً) نہ تھا ۔لیکن صدیق اکبرؓ نے ان پر جہاد کرنے کو اتنا زیادہ اہم سمجھا کہ نزاکت وقت اور اپنے ضعف کا بھی خیال نہ فرمایا ۔اسی طرح مسیلمہ کذاب مدعی نبوت اور اس کے ماننے والوں پر جہاد کیا جس میں جمہور صحابہؓ  شریک تھے۔ جن کے اجماع سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ جو شخص ختم نبوت کا انکارکرے یا نبوت کا دعویٰ کرے و ہ مرتد ہے۔ اگرچہ تمام ارکان اسلام کا پابند او ر زاہد وعابد ہو۔

ضابطہ تکفیر

اس لئے تکفیر مسلم کے بارہ میں ضابطہ شرعیہ یہ ہوگیا کہ جب تک کسی شخص کے کلام میں تاویل صحیح کی گنجائش ہو اور اس کے خلاف کی تصریح متکلم کے کلام میں نہ ہو۔یا اس عقیدہ کے کفر ہونے میں ادنیٰ سے ادنیٰ اختلاف آئمہ اجتہاد میں واقع ہو۔اس وقت تک اس کے کہنے والے کو کافر نہ کہا جائے ۔لیکن اگر کوئی شخص ضروریات دین میں سے کسی چیز کا انکار کرے یا کوئی ایسی ہی تاویل و تحریف کرے جو اس کے اجماعی معانی کے خلاف معنی پیدا کردے تو اس شخص کے کفر میں کوئی تامل نہ کیا جا ئے۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم

تنبیہ ضروری

مسئلہ زیر بحث میں اس بات کا ہر وقت خیال رکھنا ضروری ہے کہ یہ مسئلہ نہایت نازک ہے ۔اس میں بیباکی اور جلد بازی سے کام لینا سخت خطر ناک ہے ۔مسئلہ کی دونوں جانب نہایت احتیاط کی مقتضی ہیں۔ کیونکہ جس طرح کسی مسلمان کو کافر کہنا و بال عظیم ہے اور حسب تصریح حدیث اس کہنے والے کے کفرکا اندیشہ قوی ہے۔اسی طرح کسی کافرکو مسلمان کہنا یا سمجھنا بھی اس سے کم نہیں۔ جیسا کہ عبارت شفاء سے منقول ہے۔اور شفاء میں مسئلہ کی نزاکت کو بایں الفاظ بیان فرمایا ہے

ولمثل ھذاذھب ابو المعالی رحمۃ اللہ فی اجو بتہ لا بی محمد عبدالحق و کان سالم عن المسالۃ فاعتذر لہ بان الغلط فیھا یصعب لان ادخال کافرفی الملۃ واخراج مسلم عنہا عظیم فی الدین۰

شفا ج ۲ص۲۴۱ فصل فی تحقیق القول فی اکفار المتاؤلین۰

ابو المعالی نے جو محمد عبدالحق کے سوالات کے جواب لکھے ہیں۔ ان میں ان کا بھی یہی مذہب ثابت ہے۔ کیو نکہ ان سے ایسا ہی سوال کیا گیا تھا جس کے جواب میں انہوں نے عذر کر دیا کہ اس بارہ میں غلطی سخت مصیبت کی چیز ہے۔ کیونکہ کسی کافر کو مذہب اسلام میں داخل سمجھنا یا مسلمان کو اس سے خارج سمجھنا دین میں بڑے خطرہ کی چیز ہے۔

اسی لئے ایک جانب تو یہ احتیاط ضروری ہے کہ اگر کسی شخص کا کوئی مبہم کلام سامنے آئے جو مختلف وجوہ کو محتمل ہو اور سب وجوہ سے عقیدہ کفر یہ قائل کا ظاہر ہوتا ہو۔لیکن صرف ایک وجہ ایسی بھی ہو جس سے اصطلاحی معنی اور صحیح مطلب بن سکے ۔گو وہ وجہ ضعیف ہی ہو۔تو مفتی وقاضی کا فرض ہے کہ اس وجہ کو اختیار کرکے اس شخص کو مسلمان کہے۔ (کما صرح بہ فی الشفاء فی ہذہ الصفحۃوبمثلہ صرح فی البحر وجامع الفصولین وغیرہ

اور دوسری طرف یہ لازم ہے کہ جس شخص میں کوئی وجہ کفر کی یقیناثابت ہوجائے۔ اس کی تکفیر میں ہر گز تاخیر نہ کرے اور نہ اس کے متبعین کو کافر کہنے میں دریغ کرے۔ جیسا کہ علماء امت کی تصریحات محررہ بالا سے بخوبی واضح ہوچکا۔واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم

تتمہ مسئلہ از امداد الفتاویٰ جلدسادس

یہ کل بیان اس صورت میں تھا جب کہ کسی شخص یا جماعت کے متعلق عقیدہ کفر یہ رکھنا یا اقوال کفر یہ کا کہنا متیقن طریق سے ثابت ہو جائے۔ لیکن اگر خود اسی میں کسی موقع پر شک ہو جائے کہ یہ شخص اس عقیدہ کا معتقد یا اس قول کا قائل ہے یا نہیں۔ تو اس کے لئے احوط و اسلم و ہ طریق ہے جو امداد الفتاویٰ میں درج ہے۔جس کو بعینہ ذیل میں بطور تتمہ نقل کیا جاتا ہے ۔

اگر کسی خاص شخص کے متعلق یا کسی خاص جماعت کے متعلق حکم بالکفر میں ترددہو خواہ ترددکے اسباب علماء کا اختلاف ہو خواہ قرائن کا تعارض ہو یا اصول کا غموض‘ تو اسلم یہ ہے کہ نہ کفر کا حکم کیاجائے نہ اسلام کا حکم۔ اول میں تو خود اس کے معاملات کے اعتبار سے بے احتیاطی ہے اور حکم ثانی میں دوسرے مسلمانوں کے معاملات کے اعتبار سے بے احتیاطی ہے۔ پس احکام میں دونوں احتیاطوں کو جمع کیا جائے گا ۔یعنی اس سے نہ عقد منا کحت کی اجازت دیں گے نہ اس کی اقتدا ء کریں گے نہ اس کا ذبیحہ کھائیں گے۔ اور نہ اس پر سیاست کافر انہ جاری کریں گے۔اگر تحقیق کی قدرت ہو اس کے عقائد کی تفتیش کریں گے اور اس تفتیش کے بعد جو ثابت ہو ویسے ہی احکام جاری کریں گے۔ اور اگر تحقیق کی قدرت نہ ہوتو سکوت کریں گے اور اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپر دکریں گے۔ اس کی نظیر وہ حکم ہے جو اہل کتاب کی مشتبہہ روایات کی متعلق حدیث میں واردہے

لا تصدقوا اھل الکتاب ولا تکذبو ھم وقولوااٰمنا باللہ وما انزل الینا الایۃ البخاری ج۲ص۱۰۹۴ باب لاتسئلوا ھل الکتاب

نہ اہل کتاب کی تصدیق کرونہ تکذیب بلکہ یوں کہو کہ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور اس وحی پر جو ہم پر نازل ہوئی ۔

دوسری فقہی نظیر احکام خنشٰی کے ہیں

یوخذفیہ بالاحوط والاوثق فی امورالدین وان لایحکم بثبوت حکم وقع الشک فی ثبوتہ واذا وقف خلف الا ما م قام بین صف الرجال والنساء و یصلی بقنا ع و یجلس فی صلاتہ جلوس المرأۃ ویکرہ لہ فی حیاتہ لبس الحلی والحریر وان یخلوابہ غیر محرم من رجل اوامرأۃ اویسا فرمع غیر محرم من الرجال والاناث ولا یغسلہ رجل ولا امرأۃ ویتیمم با لصعیدویکفن کما یکفن الجاریۃ وامثالہ مما فصلہ الفقہاء ۱۱شعبان ۵۱ھ/ جو اھر الفقہ ج ا ص ۳۸

خنشٰی مشکل کے بارہ میں امور دین میں وہ صورت اختیار کی جائے جس میں احتیاط ہو او رکسی ایسی چیز کے ثبوت کا اس پر حکم نہ کیا جائے جس کے ثبوت میں شک ہو اور جب و ہ امام کے پیچھے نماز کی صف میں کھڑا ہو تو مردوں او ر عورتوں کی صف کے درمیان کھڑا ہو۔اور عورتوں کی طرح دوپٹہ اوڑھ کر نماز پڑھے اور قعدہ میں اس طرح بیٹھے جیسے عورتیں بیٹھتی ہیں۔اور اس کے لئے زیو ر اور ریشمی کپڑا پہننا مکروہ ہے۔ اور یہ بھی مکروہ ہے کہ کوئی مرد یا عورت غیر محرم اس کے ساتھ خلوت میں بیٹھے یا ایسے مرد یا عورت کے ساتھ سفر کرے جو اس کا محرم نہ ہو اور مرنے کے بعد اس کو نہ کو ئی مرد غسل دے نہ عورت۔ بلکہ تمیم کرادیا جائے اور کفن ایسا دیا جائے جیسا لڑکیوں کو دیا جاتا ہے اور اسی طرح دوسرے احکام جن کو فقہاء نے مفصل لکھا ہے۔

مشورہ

یہ بحث کہ کن کن امور سے کوئی مسلمان خارج از اسلام ہو جاتا ہے اور حکم تکفیر کے لئے شرعی ضابطہ کیا ہے۔اور اہل قبلہ کو کافر نہ کہنے کی کیا مراد ہے ۔اس کے متعلق ایک جامع مانع بہترین رسالہ رئیس المحدثین حضرت مولانا سید محمدانور شاہ کا شمیری رحمتہ ا للہ علیہ کا اکفار الملحدین کے نام سے عربی زبان میں شائع ہو چکا ہے ۔جو حضرات ان مسائل کو مکمل دیکھنا چاہتے ہیں اس کی مراجعت کریں۔ (اس کا اب اردو ترجمہ بھی ہوگیا ہے۔ عام مل جاتا ہے۔ مرتب

© Copyright 2025, All Rights Reserved