• ہلوکی روڈ ڈیفنس
  • Mon - Sat 8:00 - 18:00

 

تنگ دستی

آپ کے گھر میں عام طور پر تنگ دستی کا دور دورہ رہتا تا۔ ان حالات میں کسی نے پانچ سو درہم آپ کو بھیجے ٗ لیکن آپ نے واپس کر دیے۔ ان کے چچا اسحاق کو اس بات کا پتا چلا تو ان سے کہا

آپ نے یہ رقم واپس کر دی ٗ حالانکہ گھر میں تنگ دستی ہے۔

آپ نے اپنے چچا کو جواب دیا

چچا !  ہم دولت طلب کرتے تو یہ نہ ملتی ٗ چونکہ ہم نے طلب کرنا چھوڑ دیا ہے ٗ اس لئے ہمارے پاس آتی ہے۔

آپ کے صاحب زادے صالح کہتے ہیں

جس دَور میں ہم لوگ سخت غربت میں مبتلا تھے ٗ ایک دن والد نماز عصر کے لئے اُٹھے۔ میں نے ان کے بیٹھنے کی جگہ سے چٹائی اُٹھائی تو ایک خط نظر آیا۔ خط میں لکھا تھا ٗ ابوعبداللہ! مجھے آپ کی تنگ دستی کا حال معلوم ہوا۔ میں فلاں شخص کے ذریعے چار ہزار درہم بھیج رہا ہوں ٗ اس رقم سے قرض ادا کریں اور اپنا کام چلائیں۔ یہ رقم زکوٰۃ یا صدقہ نہیں بلکہ والد کے ترکے سے مجھے ملی ہے۔

میں نے خط پڑھ کر وہیں رکھ دیا۔ والد گھر آئے تو میں نے پوچھا ٗ یہ خط کیسا ہے۔ یہ سنتے ہی سخت ناراض ہوئے اور کہا ٗ تم اس خط کا جواب اسی وقت لے کر جائو۔ پھر اس آدمی کے نام خط لکھا۔ اس کے الفاظ یہ تھے

آپ کا خط پہنچا  ہم لوگ عافیت سے ہیں جس کا قرض ہمارے ذمے ہے  وہ ہمیں تنگ نہیں کرتا اور ہمارے اہل وعیال الحمداللہ اس کے فضل و کرم سے نعمت میں گزر بسر کر رہے ہیں۔

اس شخص نے وہ رقم پھر واپس بھیج دی۔ والد صاحب نے بھی اسی طرح رقم واپس کر دی۔

حسن بن عبدالعزیز نے ایک ایک ہزار دینار کی تین تھیلیاں امام صاحب کے پاس بھجوائیں اور کہلوایا

یہ رقم حلال ہے ٗ ترکے میں ملی ہے ٗ آپ اسے قبول کر لیں اور اپنے بال بچوں پر خرچ کریں۔

آپ نے تھیلیاں واپس کر دیں اور کہلا بھیجا

مجھے ان کی ضرورت نہیں۔

خلیفہ مامون رشید نے اپنے دربان کو کچھ مال دیا اور اس سے کہا

یہ محدثین میں تقسیم کر دو کہ یہ حضرات ضرورت مند ہوتے ہیں۔

امام احمد بن حنبل کے علاوہ جن جن کو اس رقم میں سے دیا گیا ہے ٗ سب نے قبول کر لی ٗ لیکن آپ نے انکار کر دیا۔

ایک بار آپ کے استاد یزید بن ہارون نے پانچ سو درہم آپ کے سامنے پیش کیے مگر آپ نے قبول نہیں کیے۔

آپ کے صاحب زادے صالح کہتے ہیں

بغداد کے ایک صراف کا لڑکا والد صاحب کی درس کی مجلس میں شریک ہوتا تھا۔ ایک دن آپ نے اسے کاغذ خریدنے کے لئے ایک درہم دیا۔ اس نے کاغذ خرید کر اس میں پانچ سو دینار رکھ دیے اور کاغذ لپیٹ دیا۔ جب آپ کو وہ کاغذ ملے اور آپ نے ان کو کھولا تو دینار گر کر بکھر گئے۔ آپ نے دیناروں کے ساتھ کاغذ بھی لڑکے کے سامنے رکھ کر کہا

یہ لے جائو۔

اس پر لڑکے نے کہا

کاغذ تو آپ کے درہم سے خریدا گیا ہے۔ یہ تو رکھ لیں۔

آپ نے وہ کاغذ بھی رکھنے سے انکار کر دیا۔ ابوبکر مروزی کہتے ہیں

میں فقر اور محتاجی کے برابر کسی چیز کو نہیں سمجھتا۔ میں نے صالحین کی جماعت کو اسی حال میں دیکھا ہے۔ میں نے تو عبداللہ بن ادریس کو دیکھا ہے ٗ بڑھاپے میں ان کے جسم پر ایک جبّہ تھا ٗ ابودائود کو دیکھا ٗ ان کے جسم پر پھٹا ہوا جبّہ تھا جس سے روئی باہر نکل رہی تھی ٗ وہ مغرب اور عشا کے درمیان نماز پڑھ رہے تھے اور بھوک سے نڈھال تھے۔ مکہ مکرمہ میں ابوایوب بن بخاء کو دیکھا ہے ٗ وہ دُنیا کی خوش حال زندگی بسر کر رہے تھے مگر انہوں نے سب کچھ چھوڑ چھاڑ دیا اور عبادت گزاروں میں رہنے لگے۔

جس زمانے میں امام شافعی بغداد میں تھے اور امام احمد بن حنبل ان کے درس میں شریک ہوتے تھے خلیفہ ہارون رشید نے امام شافعی سے کہا

یمن میں قاضی کی ضرورت ہے۔ آپ کے پاس آنے جانے والوں میں کوئی شخص اس عہدے کے لائق ہو تو بھیج دیں۔

دوسرے دن امام شافعی حلقہ درس میں آئے اور امام صاحب سے کہا

خلیفہ نے یمن میں قاضی کے عہدے کے لئے مجھ سے بات کی ہے اور آدمی کا انتخاب میری مرضی پر چھوڑا ہے ٗ میں اس کام کے لئے آپ کو مناسب خیال کرتا ہوں۔ تیار ہو جائیں ٗ تاکہ میں آپ کا نام خلیفہ کے سامنے پیش کر سکوں۔

یہ سن کر حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ  نے فرمایا

میں آپ کی خدمت میں رہ کر علم حاصل کرنا چاہتا ہوں اور آپ مجھے مشورہ دیتے ہیں کہ قاضی کا عہدہ قبول کر لوں۔

یہ جواب سن کر امام شافعی خاموش ہو گئے۔ ایک مرتبہ خلیفہ متوکل کے ہاں گئے۔ اس نے اپنی ماں سے کہا

امام صاحب کی آمد سے ہمارا گھر روشن ہو گیا ہے۔

پھر خلیفہ نے آپ کو لباس فاخرہ پہنایا۔ اس وقت آپ نے رو کر کہا

میں عمر بھر ان لوگوں سے بچتا رہا ٗ موت کا وقت قریب آیا تو یہاں آگیا۔

پھر آپ نے باہر آتے ہی وہ لباس اُتار دیا۔ ایک مرتبہ امام صاحب کی والدہ کے پاس کپڑے نہیں تھے۔ اسی زمانے میں زکوٰۃ کی رقم آئی۔ انہوں نے یہ کہ کر واپس کر دی

لوگوں کے مال کے میل سے عریانی بہتر ہے۔ تھوڑے دِن یہاں رہ کر کوچ کرنا ہے۔

آپ کے بیٹے صالح کہتے ہیں

میں نے اپنے والد کو کبھی میوہ خریدتے نہیں دیکھا۔ البتہ تربوز ٗ انگور اور کھجور خرید کر روٹی سے کھا لیا کرتے تھے۔ روٹی کے ٹکڑوں سے غبار صاف کرکے ان کو پیالے میں رکھ کر پانی سے تر کرتے اور نمک سے کھا لیتے تھے۔

دوستوں کی ایک جماعت آپ سے ملنے کے لئے آئی۔ ان کی خاطر تواضع میں اپنے پاس موجود ساری رقم خرچ کر دی۔ خود پندرہ دن تک بہت مشکل سے گزارا کیا۔ یہاں تک کہ بغداد سے ان کا خرچ آگیا۔

آپ رات دن میں تین سو رکعات نفل پڑھتے تھے۔ جب آپ کو کوڑے لگائے گئے تو بہت کمزور ہو گئے۔ اس حالت میں بھی ڈیڑھ سو نفل دن رات میں پڑھتے تھے۔ اس وقت ان کی عمر80سال تھی۔ روزانہ قرآن کا ساتواں حصہ پڑھا کرتے تھے۔ عشا کے بعد تھوڑی دیر سو کر صبح تک نماز میں مشغول رہتے۔

آپ نے پانچ مرتبہ حج کی سعادت حاصل کی۔ ان میں سے تین مرتبہ مکہ معظمہ تک پیدل گئے اور آئے اور ایک مرتبہ حج میں صرف بیس درہم خرچ کیے۔

 

© Copyright 2025, All Rights Reserved