وفات
آپ بہت خوب صورت تھے۔ جسم سرخ و سفید تھا۔ آنکھیں بڑی بڑی تھیں۔ ڈاڑھی لمبی تھی۔ نہایت خوش لباس تھے۔ عمدہ خوشبو لگا تے تھے۔
آپ کے زمانے میں حدیث اور فقہ کی تدوین کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ سن140 اور150 ہجری کے دوران عالمِ اسلام کے بڑے شہروں میں علماء نے فقہ کی ترتیب پر کتابیں لکھیں۔ اس کے تقریباً تیس سال بعد امام مالک رحمہ اللہ کی وفات سن179 ہجری میں ہوئی۔ اس مدت میں بھی بہت سے علماء نے کتابیں لکھیں۔ ان میں امام مالک رحمہ اللہ نمایاں رہے۔ آپ کی تصنیف میں’’مؤطا امام مالک‘‘ سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ مؤطا کے بارے میں امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
روئے زمین پر موطا سے زیادہ صحیح کتاب کوئی نہیں۔
کہا جاتا ہے کہ اس کتاب کو امام صاحب نے خلیفہ ہارون رشید کی گزارش پر لکھا۔
عتیق زبیری کا قول ہے
امام صاحب نے تقریباً دس ہزار احادیث سے احادیث منتخب کرکے موطاء میں شامل کی تھیں۔ اس میں بھی تحقیق کرتے رہے۔ اس طرح اس میں کمی ہوتی چلی گئی۔
اسی بنیاد پر یحییٰ بن سعید کہتے ہیں
لوگوں کا علم بڑھتا ہے ٗ امام مالک کا کم ہوتا ہے ٗ اگر وہ کچھ دنوں تک اور زندہ رہتے تو ختم ہو جاتا۔
سلیمان بن بلال کہتے ہیں
ابتداء میں مؤطا میں چار ہزاریا اس سے زیادہ احادیث تھیں مگر انتقال کے وقت تعداد کم ہو گئی تھی۔
امام صاحب زندگی کے آخری سالوں میں تقریباً گوشہ نشین ہو گئے تھے۔ یہاں تک کہ جمعہ اور جماعت کی نماز کے لئے بھی نہیں جاتے تھے۔ اس سلسلے میں کہا کرتے تھے
ہر شخص کھل کر عذر بیان نہیں کر سکتا۔
یعنی میں اپنے عذر کی وضاحت بیان نہیں کر سکتا جس کی بنا پر میں جمعہ اور جماعت کی نماز نہیں پڑھنے جاتا۔ لوگوں میں آپ کی مقبولیت میں اس بنیاد پر کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ ایک روایت ہے کہ آپ نے آخر عمر میں بتا دیا تھا کہ انہیں ذیابیطس(شوگر) کا مرض لاحق ہوگیا۔ مسلسل پیشاب آتا رہا ہے۔ میں اس حالت میں مسجد نبوی میں نہیں جانا چاہتا کہ اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کی بے ادبی کا سبب بنوں اور میں نہیں چاہتا کہ اپنی بیماری کا ذکرکرکے اللہ سے شکوہ کریں۔ امام صاحب 22دِن بیمار رہے اور14 ربیع الاول179 ہجری کو انتقال کر گئے۔ انتقال سے پہلے کلمہ پڑھا۔ ابن کنانہ اور ابن زبیر نے غسل دیا۔ آپ کے صاحب زادے یحییٰ اور کاتب حبیب نے پانی ڈالا۔ سفید کپڑوں میں کفن دیا گیا۔ مدینہ کے امیر عبدالعزیز بن محمد ابراہیم نے نمازِ جنازہ پڑھائی ۔ جنت البقیع میں دفن کیے گئے۔
امام صاحب کی وفات ایک بہت بڑا سانحہ تھی۔ علمانے تعزیتی کلمات کہے۔ درجات کی بلندی کی دُعائیں کیں۔ شاعروں نے تعزیتی اشعار کہے اور جہاں جہاں آپ کی وفات کی خبر پہنچی ٗ رنج اور غم کی فضا چھا گئی۔ امام محمد نے جب یہ خبر سنی تو بولے
کتنی بڑی مصیبت آن پڑی ٗ مالک بن انس وفات پا گئے۔ حدیث کے امیر المومنین وفات پا گئے۔
جب مسجد میں یہ خبر پھیلی تو ہر طرف غم طاری ہو گیا۔ امام مالک کے دو لڑکے یحییٰ اور محمد تھے۔ ایک پوتے احمد بن یحییٰ تھے۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی بے شمار رحمتیں نازل فرمائیں۔ (آمین
© Copyright 2025, All Rights Reserved