درس و تدریس
آپ صرف17سال کی عمر میں دینی علوم میں درجہ کمال کو پہنچ گئے تھے اور اسی عمر میں اپنے اساتذہ کی اجازت سے درس دینے لگے تھے۔ امام صاحب خود فرماتے ہیں
جب تک70علما نے میرے بارے میں یہ شہادت نہیں دی کہ میں فتویٰ دینے کا اہل ہوں ٗ اس وقت تک میں نے فتویٰ نہیں دیا۔
آپ نے جب فتویٰ دینا شروع کیا ٗ اس وقت آپ کے کئی استادزندہ تھے… گویا آپ ان کی زندگی ہی میں فتویٰ دیتے تھے… ایوب سختیانی آپ کے استاد تھے۔ وہ کہتے ہیں
میں حضرت نافع کی زندگی میں مدینہ منورہ گیا۔ اس وقت مالک کا حلقہ درس اور افتاء قائم تھا۔ امام صاحب کے درس اور افتاء کے حلقے میں آپ کے استاد بھی شریک ہوتے تھے۔
امام صاحب فرماتے ہیں
میرے اساتذہ میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جنھوں نے مرنے سے پہلے میرے پاس آکر مجھ سے فتویٰ نہ پوچھا۔
امام صاحب کا حلقہ دو جگہ لگتا تھا۔ ایک مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے ریاض الجنہ میں۔ یہاں امام صاحب اپنے استاد نافع کی زندگی میں بیٹھ کر ان سے علم حاصل کیا کرتے تھے۔ دوسرا حلقہ وادیٔ عقیق کے مقامِ جرف میں۔ یہاں آپ کا ذاتی مکان تھا۔
آپ کے بیٹھنے کی جگہ پر دائیں بائیں تکیے رکھے جاتے تھے۔ عور سلگائی جاتی تھی۔ مجلس میں شور اور ہنگامہ نہیں ہوتا تھا۔ قریش اور انصار کے علاوہ بیرونی طلبہ کی بھیڑ رہا کرتی تھی۔ اس کے باوجود مجلس کے آداب کا اس قدر خیال رکھا جاتا تھا کہ سکون میں ذرہ برابر فرق نہیں آتا تھا۔ بیرونی طلبہ اگر کوئی سوال کرتے تو امام صاحب باری باری ان کے جوابات دیتے تھے۔ حدیثِ رسول کا ادب ہر حال میں برقرار رکھا جاتاتھا۔
درس کا طریقہ یہ تھا کہ امام صاحب کے خاص کاتب حبیب حدیث پڑھتے تھے اور تمام طلبہ خاموشی سے درس سنتے تھے ۔ کوئی طالب علم بھی امام صاحب کے رعب کی وجہ سے نہ اپنی کتاب میں دیکھتا تھا ٗ نہ کوئی سوال کرتا تھا ٗ اگر حبیب سے کوئی غلطی ہو جاتی تو امام صاحب اسے درست کر دیتے تھے۔
امام صاحب کے دروازے پر طلبہ کا ہجوم ہو جاتا تو انہیں اندر لانے کا حکم دیتے تھے۔ پہلے خاص خاص طلبہ کو بلاتے ٗ پھر باقی کو۔ کبھی امام صاحب خود بھی اپنی کتاب طلبہ کے سامنے پڑھتے تھے۔ یحییٰ بن بکیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے14 مرتبہ امام صاحب سے مؤطاً سنی ہے۔
خلیفہ ہارون ایک مرتبہ حج کے موقعے پر مدینہ منورہ گئے۔ امام مالک ان سے ملاقات کے لئے گئے۔ خلیفہ بہت عزت و احترام سے پیش آئے۔ اپنے دونوں صاحب زادوں کو حکم دیا
’’امام صاحب سے حدیث پڑھیں۔
اس پر امام مالک نے کہا۔
امیر المومنین! علم کا احترام واجب ہے۔ اس لئے عالم کے پاس جانا چاہیے ٗ نہ کہ اسے اپنے پاس بلانا چاہیے۔‘‘
خلیفہ نے امام صاحب کی اس بات کو تسلیم کیا اور صاحب زادوں کو آپ کی خدمت میں بھیج دیا… اور ساتھ میں کہلوا بھیجا۔
آپ انہیں حدیث پڑھ کر سنائیں۔
امام صاحب نے جواب میں کہلا بھیجا
اس شہر میں استاد کے سامنے پڑھا جاتا ہے جس طرح بچہ اپنے استاد کے سامنے پڑھتا ہے۔ جب بچہ غلطی کرتا ہے تو استاد صحیح کر دیتا ہے۔
صاحب زادوں نے خلیفہ کے پاس جا کر اس بات کی خبر دی۔ خلیفہ نے امام صاحب کو پیغام بھیجا
آپ نے دونوں صاحب زادوں کو پڑھانے سے انکار کر دیا؟
امام صاحب نے جواب میں کہلوایا
امیر المومنین! میں نے ابن شہابؒ سے سنا ہے کہ ہم نے سعید بن مسیب ٗ ابو سلمہ ٗ عروہ بن زبیر ٗ سالم ٗ خارجہ ٗ سلیمان اور نافع رحمہم اللہ سے اسی طرح اس مقام میں علم حاصل کیا اور پھر ابن ہر مز ٗ ابوزنا د ٗ ربیعہ اور ابن شہاب کے سامنے حدیث پڑھی جاتی تھی ٗ وہ حضرات خود نہیں پڑھتے تھے۔
یہ پیغام سن کر ہارون رشید نے صاحب زادوں سے کہا
تم خو دجا کر پڑھو۔
یحییٰ اندلسیؒ میں مدینہ منورہ آئے… اور آپ کے درس میں شریک ہوئے… یہ اندلس کے علماء میں بہت مرتبے اور مقام کے مالک تھے… ایک دن شور ہو اکہ ہاتھی آیا ہے… اس شور کے ساتھ ہی تمام طلبہ اُٹھ کر ہاتھی کو دیکھنے کے لئے چلے گئے(وہاں ہاتھی نایاب جانور تھا)… مگر یہ یحییٰ اپنی جگہ بیٹھے رہے۔ امام صاحب نے محبت بھرے لہجے میں کہا۔
جائو ! تم بھی ہاتھی دیکھ آئو۔
یحییٰ نے جواب دیا۔
حضرت! میں اپنے شہر سے آپ کو دیکھنے اور آپ سے علم و ادب سیکھنے کے لئے آیا ہوں ٗہاتھی دیکھنے کے لئے نہیں آیا۔
امام صاحب اپنے لائق شاگرد کا یہ جواب سن کر بہت خوش ہوئے اور انہیں اندلس کے عاقل کا خطاب دے دیا۔ یہ یحییٰ جب اندلس پہنچے تو وہاں ان کے علم و فضل کی شہرت یوں ہوئی کہ بڑے علماء ان سے پیچھے رہ گئے۔
امام مالک رحمہ اللہ کی درس گاہ سے علم حاصل کرنے والے شاگردوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ قاضی عیاض نے ان گننا شروع کیا تو تعداد تیرہ سو تک پہنچ گئی۔
امام ذہبی ؒ نے لکھا ہے
امام مالک سے اتنے لوگوں نے حدیث کی روایت کی ہے کہ ان کا شمار نہیں ہوسکتا
امام صاحب کے اساتذہ تک نے آپ سے احادیث لی ہیں۔ مدینہ منورہ میں یہ اعلان کیا جاتا تھا۔
امام مالک اور ابن ابی ذئب کے علاوہ کسی سے فتویٰ نہ لیا جائے۔
علماء سے کہا جاتا تھا
اُن کے علاوہ کوئی فتویٰ نہ دے
آج تو لوگ بے دھڑک فتوے دے دیتے ہیں… اس زمانے میں ایسا نہیں تھا… امام مالک جیسے لوگ بلا جھجک یہ کہ دیا کرتے تھے
اس بارے میں کچھ نہیں جانتا۔
عبدالرحمن بن مہدی کہتے ہیں ٗ ہم امام مالک کی خدمت میں حاضرتھے۔ایک شخص آیا اور اس نے کہا
حضرت میں چھ ماہ کا سفر کرکے یہاں پہنچا ہوں… میرے شہر والوں نے چند مسائل پوچھنے کے لئے مجھے خاص طور پر آپ کے پاس بھیجا ہے۔
یہ سن کر آپ نے پوچھا
تم کیا پوچھنے کے لئے آئے ہو؟
اس نے وہ مسائل سامنے رکھے… امام صاحب نے سن کر کہا
مجھے ان مسائل کے بارے میں تحقیق نہیں۔
آپ جواب سن کر وہ شخص حیرت زدہ رہ گیا۔ اس نے کہا۔
حضرت میں نے آپ کوبتایا ہے… میں چھ ماہ کا طویل سفر کرکے یہاں آیا ہوں… شہر کے لوگوں نے خاص طور پر مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے… اور آپ کہ رہے ہیں… مجھے ان مسائل کے بارے میں تحقیق نہیں… اب میں شہر والوں کو جا کر کیا جواب دوں گا…
امام صاحب نے کہا
تم ان سے کہنا کہ مالک نے کہا ہے کہ وہ ان مسائل کے متعلق کوئی تحقیق نہیں رکھتا۔
ہیشم بن حییل کہتے ہیں
میرے سامنے امام صاحب سے48مسائل پوچھے گئے۔ ان میں سے33مسائل کے جواب میں انہوں نے کہا میں نہیں جانتا۔
خالد بن فروش کہتے ہیں
میں نے امام صاحب سے 40مسائل معلوم کیے ٗ آپ نے ان میں سے صرف پانچ کا جواب دیا۔
ابن وہب کہتے ہیں
امام مالک اکثر مسائل میں کہتے تھے… میں نہیں جانتا۔
امام صاحب خود فرماتے ہیں
میں اکثر اوقات ایک مسئلے کی تحقیق کے لئے تمام رات جاگتا ہوں اور ایک مسئلے میں تو میں دس سال سے غور کر رہا ہوں مگر اب تک صحیح فیصلہ نہیں کر سکا۔
ایک شخص نے آپ سے پوچھا
اس کا کیا مطلب ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ نے عرش پر قرار پکڑا؟
جواب میں امام صاحب نے فرمایا
اللہ تعالیٰ کا عرش پر قرار پکڑنا تو معلوم ہے… اس کی کیفیت سمجھ سے باہر ہے… اس کے بارے میں بات کرنا بدعت ہے اور اس پر ایمان رکھنا فرض ہے…
ایک شخص کسی غلط فرقے کا تھا۔ اس نے آکر کہا
ابوعبداللہ! میں آپ سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں… آپ پہلے میری بات سن لیں ٗ پھر میں آپ سے بحث کروں گا۔
آپ نے اس بات کرنے سے انکار کر دیا۔ صرف اتنا فرمایا
حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ جو شخص اپنے دین کو لڑائی جھگڑے کانشانہ بنائے گا ٗ وہ دین بدلتا رہے گا۔
ایک شخص نے امام صاحب سے باطنی علم کے بارے میں پوچھا۔ اس پر امام صاحب نے غصے ہو کر فرمایا
باطنی علم بھی وہی جانتا ہے جو ظاہری علم جانتا ہے۔ یہ علم دل میں نور پیدا ہونے پر ملتا ہے۔ تم خالص دین اختیار کرو۔ خبردار ادھر اُدھر کی باتوں پر نہ جائو… جو جانتے ہو ٗ اس کو لے لو اور جو نہیں جانتے اس کو چھوڑ دو…
کوئی غلط عقیدے کا آدمی آپ کے پاس آتا تو آپ یہ کہ کر اس سے الگ ہو جاتے۔
میں تو اپنے رب کی طرف سے دلیل رکھتا ہوں اور تم شک وشہبے میں مبتلا ہو… تم اپنے جیسے آدمی سے بحث مباحثہ کرو۔
امام صاحب اکثر فرمایا کرتے تھے
جو شخص چاہتا ہے کہ اس کا دل روشن ہو ٗ موت کی سختی سے نجات ہو ٗ قیامت کی سختیوں سے محفوظ رہے ٗ اس کا باطنی عمل ظاہری عمل جیسا ہونا چاہیے۔
معصب بن عبداللہ کا بیان ہے کہ جب امام صاحب کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر مبارک ہوتا تھا تو ان کے چہرے کا رنگ بدل جاتا تھا۔ سر نیچے جھک جاتا تھا۔ کہتے تھے
میں نے جو کچھ دیکھا ہے ٗ اگر تم لوگ دیکھتے تو تعجب نہ کرتے۔ محمد بن منکدر بہت بڑے قاری تھے۔ ہم لوگ ان سے کوئی حدیث معلوم کرتے تو رونے لگتے تھے ٗ ایک مدت تک ان کے ہاں آیا ہوں… میں نے انہیں ہمیشہ تین حالتوں میں سے کسی ایک حالت میں دیکھا ہے… نماز میں مشغول ہیں ٗ روزے سے ہیں یا پھر تلاوت میں مصروف رہتے تھے… آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث باوضو بیان کرتے تھے… بہت بڑے عابد اور زاہد تھے… میں ان کے ہاں جاتا تو تکیہ رکھ دیتے… جب میں اپنے دل میں سختی پاتا ہوں تو انہیں ایک نظر دیکھ لیتا ہوں… اسی طرح کئی دن تک میرا نفس نیک اثرات محسوس کرتا رہتا ہے…
امام صاحب کا معمول تھا کہ ہر ماہ کی پہلی رات کو تمام رات عبادت کیا کرتے تھے۔ دیکھنے والے خیال کرتے کہ آپ اس ماہ کا استقبال عبادت سے کر رہے ہیں۔
آپ کی صاحب زادی فاطمہ بیان کرتی ہیں
امام صاحب ہر رات اپنا وظیفہ (نوافل وغیرہ) پورا کرتے تھے اور جمعہ کی رات میں پوری رات عبادت کرتے تھے۔‘‘
امام صاحب نوافل میں طویل رکوع اور سجود کرتے تھے۔ کوڑوں کی سزا کے بعد لوگوں نے عرض کیا۔
آپ ہلکی نماز پڑھا کریں
آپ نے جواب میں فرمایا
بندے کو چاہیے کہ اللہ کے لئے جو عمل کرے ٗ اچھی طرح کرے۔
آپ اپنے رومال کو تہ کرکے سجدے کی جگہ رکھتے تھے… کسی نے پوچھا
آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟
جواب میں فرمایا
میں ایسا اس لئے کرتا ہوں کہ پیشانی پر سجدے کا نشان نہ پڑے… اور لوگ یہ نہ کہیں کہ میں راتوں کو قیام کرتا ہوں۔
آپ نفل عبادت تنہائی میں کرتے تھے ٗ تاکہ کوئی دیکھ نہ سکے اور ان کی بزرگی کی شہرت نہ ہو۔
آپ میں وہ تمام خوبیاں موجود تھیں جو صحابہ کرامؓ اور تابعین عظامؒ میں تھیں۔ آپ مدینہ منورہ میں کبھی سواری پر نہیں بیٹھے ٗ فرمایا کرتے تھے
جس سر زمین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرما ہیں ٗ اور جس زمین پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلے پھرے ہیں ٗ اس پر سواری کرنا ادب کے خلاف ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ امام مالک رحمہ اللہ کے دروازے پر عمدہ عمدہ خراسانی گھوڑے اور مصری خچر دیکھے۔ میں نے ان کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا
یہ سب تمہیں دیے۔
امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ یہ سن کر میں گھبرا گیا میں نے کہا
آپ ان میں سے اپنے لئے کم از کم ایک تو رکھ لیں۔
جواب میں فرمایا
مجھے اللہ تعالیٰ سے شرم محسوس ہوتی ہے کہ اللہ کے رسول کی سرزمین کو چوپایوں کے پیروں سے روندوں۔
امام مالک رحمہ اللہ کو کیلا بہت پسند تھا۔ کیلے کے بارے میں کہا کرتے تھے
اس پر نہ مکھی بیٹھتی ہے ٗ نہ گندا ہاتھ لگتا ہے۔ جنت کے پھلوں کے مشابہ ہے۔ سردی گرمی ہر موسم میں ملتا ہے۔ یہ جنت کے پھلوں کی خصوصیت ہے یعنی ہر موسم میں ملتے ہیں۔
امام مالک رحمہ اللہ اپنے گھر والوں اور بال بچوں سے بہت شفقت سے پیش آتے تھے۔ آپ اچھی صحت کے مالک تھے۔ کھانا بہت کم کھاتے تھے۔ صرف مسکراتے تھے ٗ کھل کر نہیں ہنستے تھے۔ آپ تجارت کرتے تھے۔ اور اس کی آمدنی سے زندگی کی تمام ضروریات پوری کرتے تھے۔
آپ کے اُستاد ربیعہ رائی نے آپ کو آتے ہوئے دیکھتے تو کہتے
عاقل آگیا۔
ابن مہدی کہتے ہیں
میں نے مالک ٗ سفیان ٗ شعبہ اور ابن مبارک میں سب سے زیادہ مالک کو عقل مند پایا۔ میری آنکھوں نے ان سے زیادہ بارعب عقل مند ٗ متقی اور عالی دماغ کسی کو نہیں دیکھا۔
ابن وہب کہتے ہیں
ہم نے امام مالک سے علم سے زیادہ ادب سیکھا۔
یحییٰ بن یحییٰ معمودی اندلسی نے امام صاحب سے علم حاصل کرنے کے بعد ایک سال تک ان کی خدمت میں رہ کر اسلامی آداب سیکھے۔ ان کا بیان ہے کہ میں امام مالک کی عادات سیکھنے کے لیے ان کے پاس ایک سال تک ٹھہرا رہا۔
امام صاحب بہت حق گو تھے… آپ وقت کے حکمرانوں کے ساتھ نہایت جرأت سے حق بات کہتے تھے ایک مرتبہ کسی نے اعتراض کیا
آپ ظالم اور جابر حکمرانوں کے یہاں آتے جاتے ہیں۔
امام صاحب نے جواب دیا
حق بات کہنے کے لئے جاتا ہوں… حق بات ان کے سامنے نہیں تو اور کہاں کہی جائے گی۔
امام مالک کہتے ہیں
میں خلیفہ ابوجعفر منصور کے پاس کئی مرتبہ گیا ٗ لیکن میں نے کبھی اس کے ہاتھ کو بوسہ نہیں دیا۔
اس وقت باقی سب لوگ خلیفہ کے ہاتھوں کو بوسہ دیتے تھے۔ خلیفہ منصور ایک مرتبہ مدینہ منورہ آئے تو آپ سے کہا
مالک! آپ کے بال بہت زیادہ سفید ہوگئے ہیں۔
جواب میں امام صاحب نے کہا
امیر المومنین جس کی عمر زیادہ ہوتی ہے ٗ اس کے بالوں میں سفیدی زیادہ ہو جاتی ہے۔
اس کے بعد خلیفہ نے کہا
مالک! آپ صحابہ میں سے ابن عمر رضی اللہ عنہ کے قول پر اعتماد کرتے ہیں ٗ اس کی کیا وجہ ہے۔
امام صاحب نے جواب دیا
امیر المومنین! وہ آخری صحابی تھے جو ہمارے یہاں زندہ رہے۔ ضرورت کے وقت لوگ انھی سے مسائل پوچھتے تھے۔
اس پر خلیفہ نے کہا
ٹھیک ہے ٗ آپ کے پاس حق ہے۔
ایک مرتبہ خلیفہ منصور نے آپ سے پوچھا
روئے زمین پر کوئی آپ سے بڑا عالم ہے؟
جواب میں امام مالک نے کہا
ہاں! مجھ سے بڑے عالم بھی موجود ہیں۔
منصور نے کہا
مجھے ان کے نام بتائیں۔
آپ نے جواب دیا
مجھے ان کے نام یاد نہیں۔
اب خلیفہ نے کہا
میں چاہتا ہوں… آپ کی کتاب مؤطا کو عام کروں ٗلشکروں کے امیروں اور شہروں کے قاضیوں کو لکھوں کہ اس کو سیکھیں … اسے رائج کریں… جو اس کی مخالفت کر ے ٗ اس کی گردن ماردوں۔
جواب امام مالک نے کہا
امیر المومنین! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم امت کے لئے نمونہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غزوات کے لئے لشکر روانہ فرماتے تھے… آپ کی زندگی میں بہت سے ملک فتح نہیں ہوئے تھے۔ آپ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ خدمت انجام دی… لیکن اس وقت بھی بہت سے ملک فتح نہیں ہوئے تھے۔ ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے ٗ آپ کے ہاتھوں پر بہت سے ملک فتح ہوئے… انہوں نے حضرات صحابہ کرام کو فتح ہو جانے والے ملکوں میں معلم بنا کر بھیجا یعنی انہیں تعلیم دینے کے لئے بھیجا… ان حضرات سے دین کا علم حاصل کیا جاتا رہا… یہاں تک کہ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے… اگر آپ ان صحابہ کے شاگردوں در شاگردوں میں کتاب مؤطاً کی اشاعت کریں گے تو اس صورت میں فتنہ برپا ہوگا… ہر شہر کے لوگوں کو ان کے ہاں کے علم پر رہنے دیں… آپ خود میرے علم پرعمل کریں۔
آپ کو یہ بات سن کر منصور نے کہا
کس قدر دواندیشی کی بات ہے۔ آپ میرے بیٹے کے لئے یہ علم لکھ دیں۔ یعنی کتاب مؤطاً امام مالک۔
ہارون رشید حج کے موقع پر مدینہ منورہ آئے۔ انہوں نے امام صاحب کی خدمت میں 500دینار کی ایک تھیلی پیش کی۔ جب حج سے فارغ ہو کر دوبارہ مدینہ آئے تو امام صاحب سے کہا
میری خواہش ہے کہ آپ میرے ساتھ بغداد تک چلیں۔
ان کی خواہش کے جواب میں امام مالک نے کہلا بھیجا
وہ تھیلی جوں کی توں رکھی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مدینہ منورہ لوگوں کے حق میں بہتر ہے۔ اگر وہ اس بات کو جانیں۔
یہ سن کر ہارون رشید اپنے ارادے سے باز آگئے۔ امام صاحب سے حسد کرنے والوں نے ایک دن منصور سے کہامالک آپ کی بیعت کو جائز نہیں سمجھتے… اور عباسی خلافت کے منکر ہیں۔
اس پر منصور غصب ناک ہوا۔ اس نے امام صاحب کے قمیض اتروائی اور آپ کے جسم پر کوڑے لگوائے۔
کوڑے لگنے سے آپ کا ایک ہاتھ اتر گیا ٗ لیکن اس واقعے سے آپ کی عزت میں اضافہ ہی ہوا۔ یہ کوڑے آپ کی عظمت کا نشان بن گئے۔ عوام میں خواص میں آپ کی مقبولیت بڑھ گئی۔
حضرات سفیانؓ بن عیینہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث نقل کی ہے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
عن قریب لوگ علم کی طلب میں سوریوں پر سوار ہو کر سفر کریں گے اور مدینہ کے عالم سے بڑا عالم نہیں پائیں گے۔
امام شافعی کہتے ہیں
اگر مالک اور سفیان بن عیینہ نہ ہوتے تو حجاز سے علم ختم ہو گیا تھا۔
امام مالک کو جب کسی حدیث کے کسی جز میں شک ہو جاتا تھا تو پوری حدیث چھوڑ دیتے تھے۔
امام مالک بہت رعب والے آدمی تھے۔ ان کے سامنے کسی کو بات کرنے کی مجال نہیں ہوتی تھی… لیکن اس کایہ مطلب نہیں کہ وہ خشک مزاج تھے… موقع کی مناسبت سے خوش طبعی بھی کرتے تھے۔ آپ نے ایک نوجوان کو دیکھا ٗ وہ اکڑ کر چل رہا تھا۔ آپ اس کے پہلو میں جا کر اسی طرح چلنے لگے۔ پھر اس نوجوان سے پوچھا
کیا میری چال اچھی ہے؟
اس نے کہا
یہ چال تو اچھی نہیں۔
اب امام صاحب نے کہا
تو پھر تم کیوں اس طرح چلتے ہو؟
یہ سن کر نوجوان نے اپنی چال درست کر لی…
ابنِ مہدی نے ایک مرتبہ آپ سے کہا
مجھے یہاں مدینہ منورہ میں رہتے ہوئے بہت دن ہوگئے ہیں ٗ معلوم نہیں میرے گھر والوں پر کیا گزر رہی ہوگی؟
یہ سن کر امام صاحبؒ نے کہا
میرے بال بچے مجھ سے قریب ہیں ٗ لیکن مجھے خبر نہیں کہ ان پر کیا گزر رہی ہے۔ یعنی مدینہ منورہ میں رہتے ہوئے (علمی مشغولیات کی وجہ سے) میں ان سے بے خبر ہوں… اتنا وقت نہیں ملتا کہ ان سے مل کر آیا کروں۔
© Copyright 2025, All Rights Reserved