• ہلوکی روڈ ڈیفنس
  • Mon - Sat 8:00 - 18:00

توحید بندے کی فطرت ہے

 

اللہ کی معرفت و توحید بندے کی فطرت ہے

اللہ رب العزت کی معرفت و عبادت بندے کی فطرت ہے ٗ کُتّے جیسا ناپاک اور ذلیل جانور اپنے مالک کو پہچانتا ہے۔ دوسرا کوئی آئے ٗ امیر ہو یا غریب ٗ شاہ ہو یا گدا سب کو بھونکتا ہے ٗ کاٹنے کو دوڑتا ہے۔ اگر اپنا مالک آ جائے تو دُم ہلاتا ہے ۔ قدموں میں لوٹتا ہے۔ یہ اسے کسی نے پڑھایا سکھایا نہیں ٗ یہ اس کی فطرت کا تقاضا ہے۔

کُتّا فطرتاً آقا شناس ہے اور آدمی فطرتاً مولا شناس ! جب کُتّے کی فطرت مالک شناسی ہے تو انسان اپنے آقا اور مولا کو کیسے نہ جانے؟ اللہ رب العزت کی معرفت اور اس محسنِ حقیقی کی عبادت بندے کی فطرت ہے ٗ اگر اسے دین کی صحیح تعلیم نہ بھی مل سکے تو یہ فطرت کے تقاضے سے خدا کو جانے گا ٗ مانے گا۔ اور پھر اس کے احسانات و انعامات کا شکر بھی ادا کرے گا۔

انسان بتقاضائے فطرت خدا کا انکار نہیں کر سکتا۔ جس طرح غلّہ ٗ پھل ٗ میوے ٗ سبزی ترکاری کھانا انسان کی فطرت ہے۔ یہ بھوک کے مارے مر تو جائے گا گھاس ٗ چارہ اور بھُوسہ نہیں کھائے گا۔ گیہوں ٗ چاول۔ چاہے پندرہ بیس روپے من ہوں ٗ چاہیے تیس ٗ چالیس یا پچاس روپے من۔ کھائے گا ٗ روٹی ٗ چاول ٗ دال بھات ٗ کھائے گا لیکن مَرتا مَر جائے گا مگر ڈیڑھ دو روپے من کا چارہ یا تین چار روپے من کا بھوسہ نہیں کھائے گا کیوں؟ فطرت سے مجبور ہے! یہ فاقوں مر تو سکتا ہے مگر گھاس چَر نہیں سکتا ٗ چارہ کھا نہیں سکتا ٗ اسی طرح انسان فطرتاً مجبور ہے ٗ اپنے خالق ٗمالک ٗ رب العزت کا انکار نہیں کر سکتا۔ ہر انسان نے خدا کو مانا ہے ٗ اور اگر کسی سرکش و طاغی فرعون نے بظاہر مانا نہیں تو اسے جانا ضرور ہے۔ سیّد اکبر الٰہ آبادی نے کیا خوب کہا ہے  ؎

آدیزہ ہے ہر گوش میں لٹکا تیرا

کانٹا ہے ہر اِک قلب میں اٹکا تیرا

مانا ٗ نہیں جس نے تجھے ٗ جانا ہے ضرور

ہر بھٹکے ہوئے دل میں ہے کھٹکا تیرا

اللہ رب العزت نے ہر اِنسان کو فطرتِ اِسلام پر پیدا فرمایا ہے۔

مَا مِنْ مَوْلُوْدٍ اِلَّا یُوْلَدُ عَلٰی الْفِطْرَۃِ فَاَبَوَاہُ یَھَوِّدَانِہٖ اَوْ یُنْصِّرَانِہٖ اَوْیْمَجِّّسَانِہٖ ثُمَّ یَفُرْلُ فِطْرَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ذٰلِکَٔ الدِّیْنُ اَلْقَیِّمِ۔ متفق علیہ

ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اُسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں ٗ پھر آپ نے (بطوراستشہاد اللہ کا قرآن) پڑھا۔ فطرۃ اللہ… یعنی اللہ کی فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کِیا ہے (اختیار کئے رہو) اللہ کی خلقت میں تبدیلی (ردا) نہیں ٗ پس یہی سیدھا دین ہے۔

فطرت اللہ سے معرفتِ الٰہی کی وہ استعداد و صلاحیت مراد ہے جو اللہ تعالیٰ نے تخلیقی طور پر ہر شخص کے اندر ودیعت کی ہے ٗ اور جو ہر انسان کی جبلت میں پائی جاتی ہے۔

خدائے رحیم نے ابتدائے آفرینش سے اپنی معرفت کا ایک اجمالی نقش و تصوّر ہر انسان کے دِل میں بطور اصل ہدایت ثبت کر دِیا ہے ٗ اپنی توحید کی ایک چنگاری ہر آتشکدئہ قلب میں دبادی ہے۔ جسے اگر تعلیم و ماحول کے پیاپے پھونکوں سے بجھا نہ دِیا جائے تو یہ شعلہ بن کر خرمن کفر و شرک کو جلا کر خاک سیاہ کر ڈالتی ہے۔ اگر انسان کو اس کی فطرت پر آزاد چھوڑ دِیا جائے۔ اس کے اخلاق و کردار کی تعمیر وتشکیل میں غلط تعلیم و تربیت یا غلیظ و متعفن ماحول کے گندے اثرات کی مداخلت نہ ہو اور انسان قدرت کی عطا کردہ اس جبلّی استعداد و طبعی قابلیت سے کام لے تو حق سمجھ میں آسکتا ہے اور اس کا میلان دین حق ٗ دین قیم کی طرف ہو سکتا ہے۔ لیکن والدین و اساتذہ کی مشرکانہ تعلیم و تربیت ٗ گردوپیش کے حالات اور گندی صحبت کے بُرے اثرات سے متاثر ہو کر انسان شرک و کفر کی اتھاہ اور عمیق ظلمتوں اور ضلالتوں میں کھو جاتا ہے تو اللہ رب العزت کی معرفت و عبادت انسان کی فطرت ہے ٗ اور ہر آدمی نے۔ بشرطیکہ آدمی ہو گدھا نہ ہو… خدا کا جانا اور مانا ہے ٗ اس کی اَن گنت و بیشمار نعمتوں کا شکر بھی ادا کیا ہے اور اپنے ڈھنگ سے اس کی عبادت بھی کی ہے۔  ؎

مندر میں کسی نے راگ گا یا تیرا

مسجد میں کسی نے جلوہ پایا تیرا

دہریہ نے دہر سے کیا تعبیر تجھے

انکا رکسی سے بن نہ آیا تیرا!

اکبر الٰہ آبادی

توحید ربّانی انسانی فطرت ہے

نہ صرف اللہ کی معرفت و عبادت بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ رب العزت کی توحید بھی انسانی فطرت کا تقاضا ہے ٗہر انسان پیدائشی طور پر خدائے واحد کی وحدت ووحدانیت اور توحید کا قائل ہے ٗ اور یقین رکھتا ہے کہ اللہ کی ذاتِ واحد کے سوا کوئی مالک و متّصرف نہیں ٗ چنانچہ:۔ رئیس المفسرین ٗ جرامّت ٗ حضرت عبداللہ بن عباسی رضی اللہ عنہما سے دَعَوُاللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ کی تفسیر میں مروی ہے کہ وہ (مشرکین مکہ) شرک نہ کرتے ہوئے خالص اللہ تعالیٰ کو پکارتے ہیں۔

لِرُجُوْعِہِمُ مِنْ شِدَّۃِ الْخَوْفِ اِلَی الفِطْرَۃِ الَّتِیْ جبلّ عَلَیْھَا کُلُّ اَحَدٍ مِنَ التَوُحِیُدِ وَ انََّہٗٗ لَا متصرف اِلَّا اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ المرکوز فی طبائع العالم

شدت خوف سے فطرت کی طرف ان کے رجوع کے باعث ! جس فطرت پر ہر فردِ بشر پیدا کِیا گیا ہے یعنی توحید اور یہ حقیقت ! کہ سوائے اللہ سجانہ ٗ کے کوئی صاحب اختیار نہیں ٗ اور یہ حقیقت ساری دُنیا کے طبائع میں مرکوز و موجود ہے۔

–  حضرت ابولعالیہؒ سے امام ابن جریرؒ وغیرہ نے روایت کیا ہے ٗ اُنہوں نے کہا۔

کُلُّ آدمی اَقَرَّ عَلٰی نَفْسِہٖ بِاَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی رَبِیُّ وَ اَنَا عَبْدُہٗ

ہر آدمی نے دل ہی میں اقرار کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ میرا رَب ہے اور میں اس کا بندہ ہوں۔

اسی تقاضائے فطرت اور داعیۂ جبلّت سے مجبور ہو کر مشرکین مکہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کا علم وعرفان اور احساس وادراک رکھتے تھے ٗ عالم اضطرار میں وہ خدا کی توحید کے بھی قائل و معترف تھے ٗ نامساعد حالات اور مصائب و مشکلات میں وہ خالص اللہ رب العزت ہی کو پکارتے تھے ٗ لیکن حوادث و آفات سے نجات پا کر وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے لگ جاتے تھے۔

 

© Copyright 2025, All Rights Reserved