• ہلوکی روڈ ڈیفنس
  • Mon - Sat 8:00 - 18:00

شرک کی تاریخ

 

شرک کی تاریخ

شرک کی ابتداء

کتاب و سنت سے معلوم ہوتا ہے کہ شرک کی ابتداء سیّدنا حضرت نوح علیہ السَّلام کے عہد نبوت میں ہوئی اس دھرتی پر سب سے پہلے قوم نوح  بتوں کی نجاست سے ملوت وآلودہ ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اصلاح اور شرک وبت پرستی کی تردید کے لئے اپنے اولوالعزم پیغمبر حضرت نوح علیہ السَّلام کو مبعوث فرمایا

قوم نوحؑ پانچ بڑے بتوں کی پرستش کرتی تھی وَدّ  ٗ  سُواع  ٗ  یعوق  ٗ  یغوث  اور نسر۔

دُنیا میں بت گری و بت پرستی کا آغاز

آئیے ذرا دیکھیں کہ قوم نوح میں ان اوثان وا صنام کی پرستش کا آغاز کیونکر ہوا۔ بلکہ دُنیا میں بت گری کیسے شروع ہوئی؟ اس کا جواب حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت سے ملتا ہے ٗ وہ فرماتے ہیں کہ وَدّ  سُواع    یعوق    یغوث اور نسر۔ یہ سب حضرت نوح علیہ السَّلام کی قوم کے نیک آدمیوں (اولیاء اللہ) کے نام تھے جب یہ وفات پا گئے تو شیطان نے ان کی قوم کو پٹی پڑھائی کہ ’’جہاں یہ بزرگ بیٹھا کرتے تھے تم وہاں اُن کے بُت بنا کر نصب کر دو ٗ اور ان کے نام انہی بزرگوں کے نام پر رکھ دو‘‘ چنانچہ انہوں نے ایسا کیا جبتک وہ لوگ زندہ رہے ان بتوں کی عبادت نہ کی گئی مگر جب وہ لوگ مر گئے اور حقیقت حال کا علم کسی کو نہ رہا تو ان عبادت شروع ہوگئی۔

اسماء رجال صالحین من قوم نوح فلما ھلکوا اوحی الشیطٰن الٰی قومھم ان انصبوا الٰی صجالسہم التی کانوا یجلسون انصابا و سموھا با سمائہم ففعلوٰ فَلَمْ تُعْبَدْ حَتّٰی اِذا ھَلَکَٔ اُولٰئِکَٔ و تنسخ الْعلِْمُ عبدت۔ (صحیح البخاری کتاب التفسیر سورۃ نوح

حضرت شیث ؑ

روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ودّ حضرت آدم علیہ السَّلام کے سب سے بڑے بیٹے تھے اور آپ کا لقب شیث تھا جو شرفِ نبوت سے مشرف ہوئے۔

مفسر شہیر حضرت امام ابن کثیر رحمتہ اللہ لکھتے ہیں:۔

حافظ ابن عساکرؒ نے حضرت شیث علیہ السَّلام کے حالات میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے انہوں نے فرمایا

حضرت آدم علیہ السَّلام کی چالیس ۴۰ اولادیں تھیں ٗ بیس لڑکے اور بیس لڑکیاں ٗ لڑکوں میں سے ہابیل ٗ قابیل ٗ صالح ٗ عبدالرحمن اور  ودّ  زندہ رہے۔

کان ودّیقال لہ شیث و کان اخوتہ قد سودو ہ وَوُلِدَلہ سواع و یغوث و یعوق وَ نَسْرَ۔  تفسیر ابن کثیر ج4 ص426 تفسیر آیت ولا تذرن ودا ۔۔۔ الخ

اور  ودّ کو شیث کہا جاتا ہے ان کے بھائیوں نے انہی کو اپنا سردار بنا لیا تھا ٗ سواع ٗ یغوث ٗ یعوق اور نسران ہی کے لڑکے تھے۔

اَوَّلُ مَعْبُوْدٍ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ

یہی ودّ الملقب بہ شیث علیہ السَّلام اوّلین معبود ہیں ٗ اللہ کے سوا جن کی عبادت کی گئی۔ خاتم المفسرین علامہ سیّد محمود آلو سی بغداد ی رحمتہ اللہ رقمطراز ہیں

ابن ابی حاتم نے حضرت عوہ زبیر (رضی اللہ عنہما) سے روایت کی ہے انہوں نے فرمایا یہ پانچوں آدم علیہ السَّلام کے بیٹے تھے ٗ ان سب میں بڑا اور سب سے نیک وَدّ تھا ٗ مروی ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کے سوا سب سے اوّل معبود  وَدّ  ہے۔ تفسیر روح المعانی آیت ولاتذرن ودا۔۔۔

بیت اللہ میں بُت پرستی کا آغاز

عرب میں بُت پرستی کا بانی عمر وبن لحی ہے۔ (عرب کا مشہور قبیلہ خزاعہ عمر وبن لحی کی نسل سے ہے ٗ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

رأیتُ عمر و بن لحیّ یَجُرُّ قُصْبَہ فِی النَّارِ۔

میں دیکھا عمروبن لحی جہنم میں اپنی آنتوں کو گھسیٹ رہا ہے۔

عمرو بن لُحیّ کسی کام سے مکہ سے شام گیا وہاں عمالیق کو دیکھا کہ

یَعبدونَ الاصنام فقال لھم ما ھٰذہٖ الاصنام التی اراکم تعبدون؟ قالوالہ: ھٰذہٖ اصنام نعبد ھافَنَسُتَمُطِرُھَا فَتُمْطِرنَا ٗ نسْتَنْصرھا فتنصرنا

وہ بتوں کی پوجا کرتے ہیں۔ اس نے ان سے پوچھا تم بُتوں کو کیوں پوجتے ہو؟ انہوں نے کہا ہم ان بُتوں کو پوجتے ہیں ٗ ہم ان سے (خشک سالی میں) بارش کا سوال کرتے ہیں تو یہ بارش برساتے ہیں اور (جنگ میں) فتح کی دُعا مانگتے ہیں تو ہمیں فتح دیتے ہیں۔

عمرو نے ان سے کہا تم مجھے بھی ایک بُت دے دو میں اسے عرب لے جائوں تاکہ وہ لوگ بھی اس کی عبادت کریں۔

فَاَعطَوْہ صَنمًا یقال لہ ھُبَلْ فقدم بہٖ فَنَصَبَہ وَ اَمَرَ النَّاس بعبادتہ و تعظیمَ  ۔سیرت ابن حشام ج1 ص 78

چنانچہ انہوں نے اسے ایک بُت دے دیا جسے ہبل کہا جاتا تھا وہ اسے مکہ لے آیا اور نصب کر دیا اور لوگوں کو اس کی پوجا اور تعظیم کا حکم دیا۔

چونکہ یہ حرم کا متولی تھا۔ اس لئے مکہ اور پھر عرب میں بُت پرستی پھیل گئی پہلے حرم کی تولیت کا تاج قبیلہ جرہم کے سردار حارث کے سر پر تھا۔ عمرو نے لڑکر حارث اور اس کے قبیلہ کو مکہ سے نکالدیا اور خودحرم کا متولی بن گیا ۔ اور اس ظالم ولعین نے تولیت کعبہ کے شرفِ عظیم سے ناجائزہ فائدہ اُٹھا کر بانی کعبہ حضرت ابراہیم و اسمعٰیل علیہما السَّلام کے دین حنیف کو اوّل دفعہ بدل کر بُت پرستی کی بنا ڈالی ٗ لعنہ اللہ۔

عرب میں بُت پرستی کا شیوع

کعبتہ اللہ ٗ اللہ کا گھر ہے ٗ اللہ والوں کا دل اللہ کے گھر کی محبت و عقیدت کے مقدس اور پاک جذبہ سے معمور اور بھرپور ہے۔ بیت اللہ کی عقیدت کے اسی مقدس جذبہ سے عرب میں بت پرستی کا آغاز و شیوع ہُوا۔

امام ابن اسحاق رحمتہ اللہ کاقول ہے کہ

بنی اسماعیل (عرب) میں عبادت الحجارہ (بُت پرستی) کا آغاز یوں ہُوا کہ جب مکہ کی سر زمین  (کثرت آبادی کی وجہ سے یا وسائل معاش کی کمی کے باعث) ان پر تنگ ہو گئی اور وہ فراخی ووسعت کی تلاش میں دوسرے شہروں کی طرف نکلے تو جو بھی (مستقلاً یا طلب معاش کے لئے) مکہ سے روانہ ہوتا تھا

حَمَدَ معہ حجرًا من حجارۃ الْحَرَمِ تَعْظِیمًا للحرم فحیثما نزلو اوضعوہ فَطَا فوابِہٖ کطوافہم بالکعبتہ حتّٰی سلخ ذٰلکٔ بہم الی ان کا نوا یعبدن و ما استحسنوا مِنَ الحجارۃ وَ اعجبہُمْ ۔ سیرت ابن حشام

وہ اپنے ساتھ حرم کعبہ کے پتھروں میں سے ایک پتھر حرم ہی کی تعظیم کے پیش نظر لے جاتا تھا ٗ جہاں جا کر ٹھہرتا وہاںاس پتھر کو رکھ دیتا اور طوافِ کعبہ کی طرح اس کا طواف کرتا ٗ پھر نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ جس پتھر کو وہ اچھا سمجھتے اور پسند کرتے اس کی عبادت کرنے لگے۔

 

خلاصہ

شیطان مردودوملعون کے اغواواضلال سے دُنیا میں بت گری و بت پرستی کا آغاز ہُوا ابلیس لعین نے رجال صالحین کے مجین ومتبعین کے دل میں وسوسہ ڈالا۔ ریشہ دوانی کی۔ اولیاء اللہ کی یادگار کے طور پر ان کے اضام و انصاب ٗ مجمسے ٗ اور بت ہوائے اور اس طرح دُنیا میں بُت پرستی کی بنیاد قائم کی۔

 

پھر عرب میں بُت پرستی کا شیوع ہُوا۔ تو بیت اللہ کی عقیدت اور حرم مکہ کی تعظیم کے جذبہ سے ہُوا۔ غرض شرک کی اصل و اساس معرفت ومحبت ربانی کے جذبہ پر قائم ہے جس نے بھی جب کبھی کسی کو معبود بنایا۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کے کسی تعلق ہی کی بنا پر بنایا۔ خواہ مزعومہ نسبی تعلق کی بناء پر خواہ عبدی و قربی تعلق کی بناء پر۔

آج بھی لوگ اولیاء اللہ ؒ  کی عبادت کرتے ہیں ٗ ان کو معبود بناتے ہیں تو اس شرک کی بنیاد بھی ان اولیاء و مشائخ ان صلحاء امت کا اللہ تعالیٰ سے قرب و تعلق ہے۔ اللہ رب العزت ہدایت عطا فرمائے۔ آمین۔

 

© Copyright 2025, All Rights Reserved