• ہلوکی روڈ ڈیفنس
  • Mon - Sat 8:00 - 18:00

مزارعت میں نفع کی تقسیم کس طرح ہو گی

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

 عمر نے ٹھیکہ پر ایک زمین لی  اور اس نے بکر اور علی سے کہا آپ کھیتی کریں ۔اخراجات عمر کرے گا اور آپ دونوں محنت کریں گے اور آخر میں نفع کے تین حصے کیئے جائیں گے۔ یعنی تمام اخراجات اور عشر نکال کر باقی نفع کےتین حصے ہونگے۔اگر نفع نہ ہواتو عاملین کوکچھ نہیں ملےگا۔

اب سوال یہ ہے کہ

1-نفع کی صورت میں عشر نکالنے کا اختیار کس کو ہے؟

2-نقصان کی صورت میں عشر نکالنے کا اختیار کس کو ہے؟

3-کیا یہ کہاجاسکتاہے کہ بکراورعلی نے تومحنت کرنی ہے اور اپنےحصہ کی پیداوار لےجانی ہے،  لہذا عشر بھی اخراجات کاحصہ ہے اورعمرسے وصول کیاجائے۔ بکراورعلی کاعشر سے کوئی تعلق نہیں

الجواب ومنہ الصدق والصواب

سب سے پہلے یہ جان لیا جائے کہ مزارعت میں یہ شرط لگانا کہ

” تمام اخراجات اور عشر نکال کر باقی نفع کےتین حصے ہونگے۔اگر نفع نہ ہواتو عاملین کوکچھ نہیں ملےگا”

۔۔۔ یہ شرط لگانا درست نہیں ہے۔اس سے توبہ استغفار کیا جائے۔

جو بھی پیداوار ہو گی (خواہ کم ہویازائد)،  اس میں یہ تینوں حسب معاہدہ فیصد کے اعتبار سے حصہ دار ہوں گے۔ اور ہر ایک اپنے اپنے حصہ سے عشر نکالنے کا ذمہ دار ہوگا خواہ نفع ہو یا نقصان۔ اس کی  ایک صورت یہ ہے کہ سب سے پہلے کل پیداوار کا عشر نکال دیا جائے، اسکے بعد طے شدہ فیصد کے مطابق باقی کھیتی کے حصے کردیئے جائیں ۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ  پہلے سب کے حصے الگ الگ کر دیئے جائیں پھر ہر شخص اپنے حصے کا عشر ادا کرے۔

سوال نمبر 3 میں درج تفصیل درست نہیں ہے

حوالہ جات

(1)   وفی بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، ج 2 ص500 کتاب الزکاۃ

ولو دفعھما مزارعۃ فاماعلی مذہبھما :فالمزارعۃ جائز ،والعشر یجب فی الخارج ،والخارج بینھما ،فیجب العشر علیھما۔

(2)    وفی الفتاوی الھندیۃ المعروفۃ بالفتاوی العالمگیریۃ، ، ج1،ص205، کتاب الزکاۃ، باب الزرع والثمار

وفی المزارعۃ علی قولھما العشر علیھما بالحصۃ وعلی قولہ علی رب الارض لکن یجب فی حصتۃ فی عینہ وفی حصۃ المزارع یکون دینا فی ذمتہ کذا فی البحرالرائق۔

(3)    و فی البحرالرائق شرح کنزالدقائق، ،ج 2 ص 413، کتاب الزکاۃ، باب العشر:

وفی المزاعۃ علی قولھما فالعشر علیھما بالحصۃ ۔۔۔الخ۔

(4)    وفی الفتاوی الھندیۃ ، كتاب الزكوة، الْبَابُ السَّادِسُ فِي زَكَاةِ الزَّرْعِ وَالثِّمَارِ، ١ / ١٨٧

وَلَا تُحْسَبُ أُجْرَةُ الْعُمَّالِ وَنَفَقَةُ الْبَقَرِ، وَكَرْيُ الْأَنْهَارِ، وَأُجْرَةُ الْحَافِظِ وَغَيْرُ ذَلِكَ فَيَجِبُ إخْرَاجُ الْوَاجِبِ مِنْ جَمِيعِ مَا أَخْرَجَتْهُ الْأَرْضُ عُشْرًا أَوْ نِصْفًا كَذَا فِي الْبَحْرِ الرَّائِقِ.، وَلَايَأْكُلُ شَيْئًا مِنْ طَعَامِ الْعُشْرِ حَتَّى يُؤَدِّيَ عُشْرَهُ كَذَا فِي الظَّهِيرِيَّةِ. وَإِنْ أَفْرَزَ الْعُشْرَ يَحِلُّ لَهُ أَكْلُ الْبَاقِي وَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ – رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى – مَا أَكَلَ مِنْ الثَّمَرَةِ أَوْ أَطْعَمَ غَيْرَهُ ضَمِنَ عُشْرَهُ كَذَا فِي مُحِيطِ السَّرَخْسِيِّ فِي بَابِ مَا يُحْتَسَبُ لِصَاحِبِ الْأَرْضِ

فقط واللہ سبحانہ وتعالی اعلم بالصواب وعلمہ اتم واحکم

کتبہ: محمد ہارون محمود

28 محرم الحرام 1443ھجری   بمطابق 06 ستمبر2021ء

فتوی نمبر: 8

دارالافتاء: جامعہ رہبر اسلام  لاہور پاکستان

© Copyright 2025, All Rights Reserved