السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
1-ایک ادارہ کا ملازم بار بار تنبیہ کرنے کے باوجود اپنی مفوضہ ذمہ داریاں پوری طرح نہیں نبھا تا، یا وقت مقررہ پر نہیں کر تا تاخیر سے کرتا ہے،اس صورت میں اس کی ایک دن کی تنخواہ کاٹنا یا کام کی نوعیت کے اعتبار سے آدھ دن یاپھر تنخواہ میں سے ایک مخصوص مقدار کاٹنا جائز ہے یا نہیں؟
2-نیز اگر پہلے ہی بتادیا جائے کہ فلاں فلاں ذمہ داری ادا کرو گے تو تنخواہ ملےگی، پھر جو کام نہیں کیا اسکی تنخواہ کاٹ لی تو کیا حکم ہے؟
3-نیز اگر پہلے ہی بتاکرتنخواہ کے مختلف حصے مفوضہ کام کے اعتبار سے کردیئے جائیں اور پھر جتنا کام کیا اتنی تنخواہ ادا کی جائے تو کیا حکم ہے؟
بینوا فتواجروا
الجواب ومنہ الصدق والصواب
شریعت نے طرفین کو یہ اختیاربھی دیا ہے کہ تنخواہ کے بارے میں باہمی رضامندی سے چھٹی یا تاخیر کی صورت میں جائز ضابطہ بناکر آپس میں طے کرسکتے ہیں۔
کسی بھی ادارے کے ملازمین کی حیثیت شرعی طور پر اجیر خاص کی ہوتی ہے۔اجیر خاص سے مرادوہ شخص ہےجو ایک وقت میں صرف ایک ہی ادارے یا شخص کا کام کرنے کاپابند ہو، اس وقت میں وہ کسی دوسرےکا کام نہیں کر سکتا۔ جیسے کسی کمپنی وغیرہ میں کام کرنے والاملازم۔اجیر خاص وقت کا پابند ہوتاہے، اورملازمت کے مقررہ وقت پر حاضر رہنے سے اجرت (تنخواہ) کا مستحق ہوتا ہے، اگر وہ ملازمت کے اوقات میں حاضر نہیں رہا یا تاخیر سے آیا تو اس غیر حاضری اور تاخیر کے بقدر تنخواہ کا وہ مستحق نہیں ہوتا۔
نیز ملازم کا مقصد ہی یہ ہے کہ طے شدہ اوقات کے دوران مفوضہ کام کو ادا کرے۔ اگر ملازم صرف حاضر ہے لیکن تفویض کردہ کام نہیں کرتا یا جان بوجھ کر کام خراب کرتا ہے یا بلاعذر تاخیر کرتا ہے تو اس کو رکھنے کے مقاصد پورے نہیں ہوتے۔ نیز کام کو ادھورا کرنا، وقت ضائع کرنا، یا جان بوجھ کر دیر سے کام کرنا، یہ ادارہ کے لئے نقصان اور پریشانی کا باعث ہوتا ہے۔لہذا ادارہ حسب نقصان ملازم کی تنخواہ سے رقم کی کٹوتی کرسکتا ہے۔
سوال نمبر 2 اور 3 میں درج تفصیل کے مطابق معاملہ کرنا جائز ہے۔ لیکن ہر سہ صورتوں میں خیرخواہی اور عدل کو ملحوظ رکھا جائے۔
حوالہ جات
(1) مشکاۃ المصابیح، باب الافلاس والانظار، الفصل الثانی، 1/253
وعن عمرو بن عوف المزني عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «الصلح جائز بين المسلمين إلا صلحاً حرم حلالاً أو أحل حراماً، والمسلمون على شروطهم إلا شرطاً حرم حلالاً أو أحل حراماً» . رواه الترمذي وابن ماجه وأبو داود
(2) فتاوی شامی، کتاب الاجارۃ، ج 9 ص 118- 119
والثاني وہوالأجیر الخاص ویسمی أجیر وحد وہو من یعمل لواحدٍ عملاً موقتاً بالتخصیص ویستحق الأجر بتسلیم نفسہ في المدۃ وإن لم یعمل کمن استؤجر شہراً للخدمۃ أو شہراً لرعي الغنم المسمی بأجر مسمی ۔۔۔۔ ولیس للخاص أن یعمل لغیرہ ، ولو عمل نقص من أجرتہ بقدر ما عمل ۔۔۔۔۔ وإن لم یعمل أي إذا تمکن من العمل فلو سلم نفسہ ولم یتمکن منہ لعذر کمطر ونحوہ لا أجر لہ
(3) وليس للخاص أن يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل، فتاوى النوازل
(قوله: وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلاً يوماً يعمل كذا، فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة، وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا: له أن يؤدي السنة أيضاً. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلاً، وعليه الفتوى … (قوله: ولو عمل نقص من أجرته إلخ) قال في التتارخانية: نجار استؤجر إلى الليل فعمل لآخر دواة بدرهم وهو يعلم فهو آثم، وإن لم يعلم فلا شيء عليه، وينقص من أجر النجار بقدر ما عمل في الدواة
(وکذا فی البحر الرائق : ۸ /۵۲ ، کتاب الإجارۃ)
(4) البحر الرائق، فصل فی التعزیر ج5 ص 41
وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال
(5) لما في شرح المجلۃ ج1 ص 239
الأجیر الخاص یستحق الأجرۃ إذا کان فی مدۃ الإجارۃ حاضراً للعمل ۔۔۔۔ غیر أنہ یشترط أن یتمکن من العمل ، فلو سلم نفسہ ولم یتمکن فیہ لعذر کالمطر والمرض ، فلا أجر لہ ، ولکن لیس لہ أن یمتنع عن العمل وإذا امتنع لا یستحق الأجرۃ
فقط واللہ سبحانہ وتعالی اعلم بالصواب وعلمہ اتم واحکم
کتبہ: محمد اعظم
28 محرم الحرام 1443ھجری بمطابق 06 ستمبر2021ء
فتوی نمبر: 5
دارالافتاء: جامعہ رہبر اسلام لاہور پاکستان
© Copyright 2025, All Rights Reserved