بے پردگی کے نقصانات
مندرجہ ذیل روایات مختلف علما کرام وغیرہ کی کتب سے ہیں
شرعی پردہ کیوں؟ کیسے؟
صفحہنمبر۸۴؛
نمائشی عورت:
رسالہ ’’بے پردگی‘‘ مصنفہ اہلیہ ڈاکٹر محمد رضا میں لکھا ہے:
’’جو عورتیں اپنی کمین گاہوں سے دلہن بن کر سج دھج کر نکلتی ہیں گویا زبان حال سے وہ دعوت نظارہ دیتی ہیں اور کہتی پھرتی ہیں کہ کیا تم اس حسن جمال کو نہیں دیکھ رہے ہو یہ سب دیکھ کر بھی کیا تم قربت اور وصل کی خواہش نہیں رکھتے ہو؟‘‘
اس طرح یہ عورتیں بازاروں اور شاہراہوں میں اپنی خوبصورتی کی اسی طرح نمائش کرتی ہیں جیسے پھیری والا چل پھر کر اپنا مال جگہ جگہ دکھاتا پھرتا ہے مٹھائی والا اپنا مال مختلف رنگوں سے سجا کر چاندی کا ورق لگا کر شوکیس میں قرینہ سے رکھتا ہے ٗ تاکہ آنے جانے والوں کی نظریں ان پر پڑیں ٗ دل ان کے لئے للچائے اور خریدنے کی خواہش تیز سے تیز تر ہو۔ اس طرح اس کے مال کا رواج ہو۔ گاہک زیادہ آئیں۔ بھوک پیاس کا شکار ہونے والے مٹھائی کے رسیا اور اس کے چاہنے والوں کو بھیڑ لگ جائے۔ (خدا کی پناہ) (ص ۲۶ رسالہ ’’اسلامی تمدن دمشق)
صفحہ نمبر۸۶؛
مغربی معاشرہ بے پردگی کی وجہ سے بگڑا ہے:
مغربی معاشرہ پردہ نہ کرنے کی وجہ سے بگڑا ٗ پردہ کا رواج ہوتا تو امریکا اور یورپ میں شادیاں ناکام ہوتیں نہ فحاشی پھیلتی ٗ مغرب کے رہنے والے پردے کا اِسلامی اصول اپنا لیں تو معاشرے میں انقلاب آجائے۔ ان خیالات کا اظہار ایک اطالوی ماہر نفسیات ڈاکٹر اسٹیفین کلارک نے ایک جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ پردہ حکم ربی ہے جب تک پردہ ہوتا ہے گھر امن سکون اور حیا کا پیکر ہوتا ہے۔ جو قوم ان متین اوصاف سے محروم ہو جائے وہ پریشانیوں میں گھر جاتی ہے۔اُنہوں نے کہا کہ عورتوں اور مردوں کا میل جول رشتہ دار مرد خواتین کا گھربلا روک ٹوک آنا جانا ٗ عام رشتے داروں کے گھر قیام کرنا اور کھانا پینا میری نظر میں سخت نقصان دہ ہے۔ اس کا اثر آئندہ نسلوں پر بھی پڑتا ہے اور میں نے اس میل جول کی وجہ سے عورتوں کو غیر مردوں کے طرف مائل ہوتے دیکھا۔اُنہوں نے کہا کہ مغربی معاشرے میں طلاق کی کثرت ٗ زنا اور فحاشی کی بڑی وجہ فطرت اور اسلامی اصولوں پر عدم عمل درآمد ہے انہوں نے کہا کہ اگر ہم ان اصولوں پر عمل کریں تو ہماری زندگیوں میں انقلاب آسکتا ہے اُنہوں نے کہا کہ اس لئے مسلمانوں کے نبی محمد (ﷺ) نے اس کا سختی سے حکم دیا ہے۔
صفحہ نمبر۹۱ تا ۹۳؛
پردہ نہ کرنے کے نقصانات:
غیر محرم کے سامنے چہرہ کھولنا چاروں ائمہ مجتہدین کے نزدیک ناجائز ہے ائمہ ثلاثہ کے نزدیک مطلقاً ناجائز ہے اور احناف کے نزدیک فتنہ کی وجہ سے ناجائز ہے نامحرم مردوں میں دیور ٗ جیٹھ ٗ بہنوئی ٗ نندوئی ٗ چچا زاد ٗ ماموں زاد ٗ خالہ زاد بھائی بھی داخل ہیں۔ عام طور سے ان رشتہ داروں کو نامحرم نہیں سمجھا جاتا ٗ حالانکہ حضور اکرم ﷺ نے ان رشتہ داروں کو نامحرم قرار دیا ہے۔
چہرہ کھولنے میں فتنوں کا ہونا اتنا واضح ہے کہ اس کے بیان کی ضرورت نہیں ہے ٗ کوئی خاندان اور کوئی برادری ایسی نہیں ہے جہاں اس قسم کے واقعات نہ ہوئے ہوں ٗ مگر چونکہ اس طرح کے واقعات کی اخفاء کی عادت ہے۔ اس لئے بہت کم منظر عام پر آتے ہیں مگر پھر بھی شائع ہوتے رہتے ہیں نمونے کے طور پر چند واقعات لکھتا ہوں
حضرت مفتی رشید احمد لدھیانوی ؒ اپنے ایک مطبوعہ وعظ میں فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے یہاں پردہ نہ کرنے سے کوئی خطرہ کی بات نہیں ہے ماشاء اللہ ہماری بیوی بہت نیک ہے ٗ بیٹیاں ٗ بہنیں ٗ بہوئیں بہت نیک ہیں۔ بہت شریف ہیں۔ ان کی آنکھ میں تو برائی آہی نہیں سکتی تو دل میں کہاں سے آئے گی ؟ یہ تو بہت بعید ہے۔ اور ہمارے بھائی اور دوسرے قریبی رشتہ دار ہمارے چچا زاد ٗ پھوپھی زاد ٗ خالہ زاد ٗ ماموں زاد سارے زاد شامل کر لیں ٗ بہت ہی شریف زادے ہیں۔ اس برائی کا تو ہمارے ہاں تصور بھی نہیں ہو سکتا ۔ یہ مسئلہ جتنا اہم ہے اتنی ہی اس معاملہ میں غفلت پائی جاتی ہے عوام کے علاوہ خواص میں ٗ علماء میں بھی بہت زیادہ غفلت پائی جاتی ہے
قرآن کریم کے صریح حکم پر بالکل عمل نہیں ہو رہا۔ گویا کہ یہ حکم قرآن کریم میں نازل ہی نہیں ہوا ٗ ان کے عمل اور حالات سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا پردہ کا حکم قرآن میں ہے ہی نہیں۔۔۔
میں چند خاندانوں کے واقعات بتاتا ہوں ٗ جو آپ سے زیادہ پارسا ہیں ٗ آپ کی طرح ان کو بھی اپنی پارسائی پر ناز اور غرور ہوا ٗ اور اللہ تعالیٰ کے احکام کو پسِ پشت ڈال دیا اور پردہ نہیں کیا تو انجام کیا ہوا ٗ یہ کوئی گذشتہ زمانہ کا قصہ نہیں ہے۔ یہ واقعات ابھی کے ہیں اور کراچی کے ہی ہیں۔ اگر ان کے خاندان کی بے عزتی کا خطرہ نہ ہوتا تو ان کے نام اور پتے بھی بتا دیتا تاکہ خود جا کر دیکھ لیں اور ان سے پوچھ لیں کہ کیا ہوا؟ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے پردہ کے بارے میں اللہ کے احکام کو توڑ کر خاندان کو خود ہی بے عزت وذلیل کیا ہے اب قصہ سنئے خدا کرے کہ بات دلوں میں اُتر جائے۔
ذلت کا پہلا واقعہ:
ایک حاجی صاحب تھے بہت نیک ٗ بہت ہی پارسا لوگوں کو ان سے اتنی عقیدت اور ان پر اتنا اعتماد تھا کہ لاکھوں کی امانتیں ان کے پاس رکھی ہوئی تھیں ایک بار ان کے کچھ عزیز میرے پاس آئے اور انہوں نے یہ قصہ سنایا کہ اس کے اپنی سالی سے ناجائز تعلقات ہو گئے بیوی کے ہوتے ہوئے۔ اسی گھر میں بیوی موجود سسرال کے سب لوگ موجود اور سالی سے ناجائز تعلق ہو گیا ٗ اور کیا کیا ؟ چپکے سے پاسپورٹ بنوایا اور
کسی ملک کا ویزا لگوایا ٗ داڑھی منڈوائی ٗ کوٹ پتلون پہنا اور کسی غیر ملک میں بھاگ گئے اور لوگوں کی لاکھوں کی امانتیں سب کی سب لے گئے۔ مگر ان کی صورت اور دینی حالات ایسے کہ کسی کو وہم وگمان بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ یہ شخص برا ہو سکتا ہے ٗ مگر کیا ہوا اب آپ اندازہ لگائیں کہ لوگوں کو یہ خیال ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں ایسی بدکاری کا کوئی امکان نہیں میرا گھر انہ اور ماحول تو بڑا ہی پاک وصاف ہے اب اس خوش فہمی اور خام خیالی کا کیا علاج؟
ذلت کا دوسرا واقعہ:
یہ واقعہ بھی کراچی کا ہے ایک صاحب جو ماشاء اللہ بہت دیندار تھے اور دینی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ انہیں حجِ بیت اللہ کی سعادت بھی حاصل تھی اس کے باوجود محض اس وجہ سے کہ ان کے ہاں سالی سے پردے کا رواج نہ تھا ان کا اپنی سالی سے خفیہ تعلق ہو گیا کئی سال تک یہ تعلق رہا ٗ وہ مانع حمل کی گولیا ں استعمال کرتی رہی اور یہاں تک کہ اس کی شادی ہو گئی اور وہ اپنے شوہر کے پاس چلی گئی۔
ذلت کا تیسرا واقعہ:
ایک صاحب نماز روزے کے پابند ٗ ان کی ا ہلیہ بھی شریف گھرانے کی چشم وچراغ تھیں۔ انہوں نے پردہ کا اہتمام نہیں کیا ٗ دوست احباب کے یہاں ان کا جانا اور دوستوں کا ان کے یہاں آنا جانا رہتا تھا تعلق بڑھتا گیا ٗ اسی دوران ان کے ایک دوست سے ان کی بیوی کی آنکھ لڑ گئی ٗ آہستہ آہستہ تعلق بڑھتا گیا ٗ چونکہ شوہر دن میں اپنے کام پر چلا جاتا ٗ بچے اسکول چلے جاتے اور بیوی صاحبہ اپنے شوہر کے دوست کے ساتھ اپنے ہی گھر میں خلوت کے مزے لوٹتی رہی کچھ عرصہ کے بعد شوہر کو بھی پتہ چل گیا ٗ اصلاح کی کوشش کی۔ جب ناکامی ہوئی تو مجبوراً بیوی کو طلاق دے دی۔
نمونہ کے طور پر یہ تین واقعے لکھے ٗ ورنہ اس طرح کے واقعات کا کوئی شمار نہیں۔ یہ ظاہر ہے کہ اس کی ابتداء بے پردگی سے ہوتی ہے۔ بے پردگی پہلا زینہ ہے ٗ اگر پردے کا اہتمام کیا جائے تو پہلے ہی قدم پر روک تھام کی جاسکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پردہ اور جدید ریسرچ
صفحہ نمبر۱۲۷؛
پردہ کی حکمت:
فطری طور پر مردوں میں عورتوں کے لئے رغبت رکھی گئی ہے۔ جب وہ بے پردہ عورت کا عریاں جسم دیکھتا ہے تو شہوت و رغبت کو پورا کرنے کے لئے اس کی طرف لپکتا ہے ۔ آج کل کے اخبارات اس بات پر گواہ ہیں کہ کس طرح مرد بے پردہ سالی ٗ بھابی ٗ ہمسائی اور اجنبی عورت کے ساتھ بُرے کام میں ملوث ہوتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل کراچی ائیرپورٹ پر سندھ کی ایک اعلیٰ شخصیت نے اپنی ناجائز خواہش کی تکمیل کے لئے ایک ائیرہوسٹس کو اسمگلنگ کے جھوٹے الزام میں گرفتار کروایا تاکہ ائیرہوسٹس کو اس تک پہنچایا جا سکے۔ (ازوسیم عثمانی مدنی
صفحہ نمبر۱۴۶تا۱۵۰:
نوجوان کا خط ’’خدارا لڑکیوں کو حسن کی نمائش سے روکئے
مگر اس ضمن میں ایک بات میں اور بھی کہنا چاہتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ جس طرح آج کل کی عورتوں اور لڑکیوں کو نوجوان مردوں اور لڑکوں کی اخلاقی گراوٹ کی شکایت ہے ٗ اسی طرح مردوں کو بھی آج کل کی بنی سنوری اور حسن وجوانی کا مظاہرہ کرنے والی لڑکیوں کی روش پر شدید اعتراض ہے۔ چنانچہ حال ہی میں مجھے ایک بھائی کا خط موصول ہوا ہے۔جس میں وہ لکھتے ہیں
’’خدارالڑکیوں کو سرِراہ حسن کی نماش سے روکئے۔ کیونکہ اس سے بڑے بڑے فتنے پیدا ہو رہے ہیں۔ آج کل کی لڑکیوں کی حالت یہ ہے کہ وہ خوب سن سنور کر اور فیشن کے پُرکشش حربوں سے آراستہ ہو کر گھروں سے نکلتی ہیں اور مردوں کو ہر قدم پر دعوت نظر دیتی ہیں۔ اگر برقعہ میں ہیں تو نقاب چہرے سے غائب ہوتا ہے اور کالے برقعہ میں گورا گورا مکھڑا اس طرح چمکتا ہے جیسے کالی بدلی میں چاند۔ اور اگر ساڑھی میں ہیں تو بلائوزبغیر آستین کا ہوتا ہے تاکہ گورے گورے ہاتھ زیادہ پرکشش ثابت ہوں۔ میں حیران ہوں کہ آخر سر بازارحسن و خوبصورتی کی یہ نمائش کیا معنی رکھتی ہے۔ حسن کی اس نمائش ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ بعض من چلے نوجوان بے قابو ہو کر لڑکیوں کو چھیڑتے ہیں اور اس سے بڑے بڑے فتنے برپا ہو رہے ہیں۔‘‘
اس خط کی عبارت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جس طرح ہماری بہنوں اور لڑکیوں کے معاملے میں نوجوانوں کی چھیڑ چھاڑ اور بے راہ روی کی شکایت ہے ٗ اسی طرح ہمارے بھائی زمانہ حاضرہ کی لڑکیوں کی اندھی آزادی سے نالاں ہیں اور ان کا کہنا یہ ہے کہ ’’آج کل کی لڑکیاں سر بازار اپنے حسن کی نمائش کرکے مردوں کو بدنگاہی اور چھیڑ چھاڑ کی خود دعوت دے رہی ہیں۔‘‘
قدرت نے ہمیشہ ہی اپنے ظاہری حسن کو باطنی خوبیوں پر ترجیح دی ہے۔ چنانچہ ہزاروں برس سے عورتوں میں حسین وجمیل بننے کا شوق رہا ہے۔ لیکن اس زمانے میں اس شوق نے جو خطرناک پہلو اختیار کر لیا ہے اس پر ایک اور بھائی نے اپنے ایک طویل خط میں روشنی ڈالی ہے۔ یہ بھائی لکھتے ہیں
عورتوں اور لڑکیوں میں زیبائش حسن کا شوق تو پرانا ہے ٗلیکن اس زمانے میں زیبائش حسن کے ساتھ آرائش حسن کا جو نیا شوق پیدا ہو گیا ہے وہ میری سمجھ میں نہیں آیا۔ میں بازاروں میں ٗ پارکوں میں ٗ تماشہ گاہوں میں عورتوں اور لڑکیوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ سولہ سنگھار کرکے نکلتی ہیں۔ برقعہ تو اوڑھے ہوئے ہوتی ہیں مگر چاند سا مکھڑا اس کالی بدلی میں سے چمکتا رہتا ہے اور جو لڑکیاں بے پردہ ہوتی ہیں ٗ ان کا تو کچھ کہنا ہی نہیں وہ ایسا چست لباس پہنتی ہیں کہ جسم کے تمام پوشیدہ اعضاء اُبھر کر نگاہوں کے سامنے آجاتے ہیں۔ حسن کی یہ دلخراش داستان سنانے کے بعد ان بھائی نے خط میں مجھ سے پوچھا ہے
آپ تجربہ کار ہیں ٗ زمانہ شناس ہیں ٗمیں پوچھتا ہوں کہ آخر بازاروں میں اور عام گذرگاہوں پر اس نمائش حسن کا کیا مطلب ہے۔ اگر یہ نمائش حسن گھروں کے اندر اور اپنے شوہروں تک محدود رہتی تو شاید کسی کو بھی اعتراض نہ ہوتا ٗ لیکن غیروں کو اور اجنبی راہ گیروں کو دعوت حسن دینے کے آخر کیا معنی ہیں۔ یہ غلط طریقہ کار کیا اس بات کو صاف طور پر ظاہر نہیں کر رہا کہ ہمارے ملک کی لڑکیاں گمراہی کی طرف جار ہی ہیں۔ اگر ان کو اس غلط روش سے نہ روکا گیا تو کسی لمحے بھی ان کے قدموں کو لغزش ہو سکتی ہے۔ سرِ راہ لڑکیوں کو چھیڑنے کی جووبابڑھ رہی ہے وہ اسی نمائشی حسن کا رد عمل ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ان بھائی نے اپنے خط میں جو کچھ بھی لکھا ہے وہ ایک ایسا ضروری مسئلہ جس پر سب بہنوں اور بھائیوں کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ واقعی اگر کوئی شادی شدہ لڑکی اپنے شوہر کے لئے سنگھار کرتی ہے تو کوئی عیب نہیں لیکن اگر وہ بازاروں میں نمائش حسن کرتی پھرتی ہے تو اس کے نیک چلن ہونے پر بھی بجاطور پر شبہ کِیا جا سکتا ہے۔ پھر کنواری لڑکیوں کا ضرورت سے زیادہ سنگھار کرنا اور بن ٹھن کر نکلنا اور بھی زیادہ معیوب ہے۔
اصل بات جس پر عمل کی ضرورت ہے:
اصل بات یہ ہے کہ اس ملک کے نوجوان ہوں یا لڑکیاں سب ہی کے اخلاق گر گئے ہیں۔ اگر نوجوان سر راہ لڑکیوں کو چھیڑتے ہیں تو واقعی یہ بڑی مذموم حرکت ہے اور اگر لڑکیاں سر راہ بن سنور کر نکلتی ہیں اور وہ آزادانہ مردوں کو اور ملک کے نوجوانوں کو دعوت حسن دیتی ہیں تو یہ بھی ہمارے لئے بڑی شرم کی بات ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ دونوں ہی شکایتیں اپنی اپنی جگہ درُست ہیں۔
ص۲۱۲،۲۱۴:
بے پردگی کا خوفناک انجام:
ولیمے پر دوستوں کو دلہن پسند آگئی حجلہ عروسی میں اجتماعی زیادتی ٗ شوہر قتل
کراچی میں چار دوستوں وارث ٗ خالد ٗ نعیم اور خالہ زاد بھائی نے اپنے دوست منور کے ولیمے میں شرکت کی۔ تقریب کے اختتام پر وارث نے کہا کہ مجھے منور کی بیوی نبیلہ پسند آگئی ہے۔اگلے روز چاروں دوست پھر اس کے گھر گئے۔ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر چائے پی اور منور کو قتل کر دیا۔ اس کے بعد نئی نویلی دلہن کے ساتھ باری باری تمام دوستوں نے زیادتی کی اور اس پر بھی خنجر کے وار کرکے فرار ہوگئے۔
قارئین کرام! ہمارے معاشرے میں بے پردگی کا رواج عام ہے۔ اکثر مرد اپنی بیویوں کو دوستوں کے سامنے لا کر بٹھا دیتے ہیں۔ بیوی ان کے لئے چائے لا رہی ہے ٗ کبھی کھانا لا رہی ہے ٗ ایسے بے غیرت مرد اس بات پر فخر محسوس کرتے ہیں۔اور بعض تو اپنی بیوی کی خوبصورتی دکھا کر اپنے دوستوں میں تعریف کرتے ہیں۔ وقتی طور پر ایک دوسرے کو بھائی بہن بنا لیتے ہیں۔ بھابھی دیور بن جاتے ہیں۔
پیٹرول اور آگ:
ایک فیشن ایبل اپ ٹوڈیٹ لڑکی منہ پر پوڈر ملے ٗ لب پر سرخی لگائے ٗ ساڑھی پہنے اور پوری حشر سامانیوں کے ساتھ کلکتہ کی ایک بارونق سڑک پر کچھ اس انداز سے جارہی تھی کہ بقول اکبر الٰہ آبادی:
دل کشی ناز میں ایسی کہ ستارے رک جائیں
سر کشی چال میں ایسی کہ گورنر جھک جائیں
یہ لڑکی جا رہی تھی کہ سامنے سے ایک نوجوان نمودار ہوا۔ جب یہ لڑکی اس نوجوان کے قریب پہنچی تو اس نوجوان نے اس لڑکی کو پکڑ لیا اور تہذیب نو کا مظاہرہ شروع کر دیا۔ نوجوان کی اس جرأت و بے باکی پر فیشن کی پتلی گھبرائی اور نوجوان کو جھڑکنے لگی اور اس کے بعد اس سے پیچھا چھڑا کر گھر پہنچی۔وہ ایک امیر باپ کی بیٹھی تھی۔ اس نے عدالت میں اس نوجوان کے خلاف دعویٰ دائرہ کر دیا۔ جج جو عیسائی تھا اس نے نوجوان کو عدالت میں طلب کرکے اس سے پوچھا کہ تم نے یہ حرکت کیوں کی؟نوجوان نے جواب دیا کہ جناب ! آپ مجھ سے کیا پوچھ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے ایسا کیوں کیا؟ میں بڑا حیران ہوں کہ آپ مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ میں نے ایسا کیوں کیا؟
دیکھئے جناب ! پیٹرول کے نزدیک اگر آگ آجائے تو پیٹرول کی فطرت ہے کہ وہ بھڑک اُٹھے اور جل جائے۔ آگ جب بھی پیٹرول کے نزدیک آئے گی پیٹرول لازماً جلے گا۔ یہی وجہ ہے کہ پیٹرول کی ٹنکیوں پر لکھا ہوتا ہے کہ یہاں سگریٹ پینا منع ہے اور آگ اس جگہ سے دُور رہے۔اب اگر آگ چولھے سے نکل کر خودبخود چل کر پیٹرول پمپ کے نزدیک آجائے اور پیٹرول بھڑک اور جل اُٹھے تو کیا پیٹرول سے پوچھیں گے کہ اے پیٹرول بتائو تم کیوں بھڑک اُٹھے؟پیٹرول سے ایسا سوال لایعنی ہوگا۔ سوال تو آگ سے ہوگا کہ تم چولہے سے نکل کر پیٹرول کے پاس کیوں آئیں اور کیوں پیٹرول کو بھڑک اُٹھنے کا موقعہ دیا؟
جناب عالیٰ اسی طرح مرد کی یہ فطرت ہے کہ عورت اگر بن ٹھن کر مرد کے قریب آگئے گی تو مرد کا خواہ مخواہ اس کی طرف میلان ہوگا اور اس کے جذبات بھڑک اُٹھیں گے۔ آپ مجھ سے نہ پوچھئے ٗ اس لڑکی سے پوچھئے کہ یہ بن سنور کر گھر سے کیوں نکلی؟ اور کیوں ایک ایسی شاہراہ عام سے گزری جہاں سینکڑوں پیٹرول صفت مردوں کے بھڑک اُٹھنے کا خطرہ تھا۔ یہ شعلہ آتش جب میرے نزدیک آیا تو فطرتاً میرے جذبات میں ہیجان پیدا ہوا اور میں بھڑک اُٹھا اور نتیجہ وہی نکلا جو نکل سکتا تھا ٗ اب اس حال میں:
کوئی پوچھے تو میں نے کیا خطا کی
آپ خود ہی انصاف فرمائیں کہ مجرم کون ہے؟ جج کی سمجھ میں یہ بات آگئی اور اس نے یہ فیصلہ لکھا جو اخبارات میں اس طرح آیا کہ نوجوان کو باعزت بری کیا جاتا ہے اور لڑکی کو ایک سال کے لئے اس پردے میں رہنے کی سزا دیتا ہوں جس کا حکم حضرت محمد ﷺ نے دیا ہے۔ (ماہ طیبہ: جولائی ۱۹۵۲
ص۳۰۳تا ۳۱۵:
اس سلسلے میں ٹی وی ٗ وی سی آر ٗ ڈش اور سینما وغیرہ سے اپنے گھر والوں کو بچانا سب سے زیادہ ضروری ہے۔ٹی وی ڈراموں اور فلموں میں عورتوں کو آزادی کی ایسی راہیں دکھائی جاتی ہیں جن کا انجام بربادی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ وہ گھروں سے نکلیں ٗ ڈرنے اور گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ دفتروں میں اور محفلوں میں مردوں کے شانہ بشانہ ہر کام کریں۔ ان سے گپیں ہانکیں ٗ دوستیاں کریں ٗ کوئی ڈر کی بات نہیں۔ اس سے آپ میں اعتماد پیدا ہوگا۔ زندگی کو جرأت سے گزارنے کا حوصلہ ملے گا۔ یہ آپ کا حق ہے ٗ آگے بڑھیں اور یہ حق حاصل کریں۔نئی نسل کو یہ راہ بڑی خوبصورت بنا کر دکھائی جاتی ہے۔ اس کا انجام بڑا خوشگوار دکھایا جاتا ہے۔ نئی نسل اسے حقیقی دُنیا سمجھ کر دیوانہ وار ان راہوں پر چل کھڑی ہوتی ہے ٗ لیکن جب ان راہوں کے قریب جاتے ہیں تووہ سب کچھ سراب ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیا اور پاکدامنی
باب: مخلوطمحفلوں سے اجتناب
ایک ناقابل تردید حقیقت:(ص ۱۲۴)
اگر ایک تنگ راستے پر دو طرفہ ٹریفک چل رہی ہو تو گاڑیوں کے ٹکرانے کی شرح بہت زیادہ ہوگی ٗ اگر ایک طرفہ ٹریفک چلے تو شرح بہت کم ہو جائے گی۔ اسی طرح اگر کسی جگہ مردوں اور عورتوں کا آزادانہ اختلاط ہوتا ہے تو ان کے گناہ میں ملوث ہونے کی شرح بہت زیادہ ہو جائے گی۔ اگر پردے کی پابندی لگا کر مردوں اور عورتوں کو الگ الگ کر دِیا جائے تو پھر گناہ میں ملوث ہونے کی شرح بہت کم ہو جائے گی۔ شریعت نے اسی اصول کے تحت مسلمان مردوں اور عورتوں کو آزادانہ اختلاط سے مکمل اجتناب کرنے کا حکم دیا ہے۔ مثل مشہور ہے کہ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ دوسرے الفاظ میں اگر بانسری بجنے کو ختم کرنا ہے تو اس میں استعمال ہونے والے بانس کی پیداوار کو روکنا پڑے گا یعنی احتیاطی تدابیر اختیا ر کرنی پڑیں گی۔ جو کام نہ کرنا ہو اس کے موقع ہی سے بچنا چاہیے ٗ جب بھی گاڑیاں آمنے سامنے آئیں گی تو ایک نہ ایک دن ضرور ٹکرائیں گی۔ اسی طرح جب بھی غیر محرم کو ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع ملے گا تو ایک نہ ایک دن ملاپ ہو ہی جائے گا۔ دو ماہر ڈرائیور بھی ذرا سی غفلت کریں تو ایکسیڈنٹ کر بیٹھتے ہیں اسی طرح اگر نیک لوگ پردے میں بے احتیاطی کریں تو گناہ کے مرتکب ہو بیٹھتے ہیں۔
دوسنہری اصول:
روز مرہ کے تجربات ومشاہدات کو مدنظر رکھتے ہوئے بعض لوگ اچھے اچھے اصول وضع کر لیتے ہیں۔ ان میں سے دو اصول درج ذیل ہیں۔
(1)
مرفی کاقانون: (Murphy’s law)
If any thing can go wrong, it will go wrong
اگر گناہ کا موقع ملتارہیگا تو ایک نہ ایک دن ارتکاب ہو ہی جائے گا
لہٰذا احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ گناہ کے موقع سے ہی بچا جائے تاکہ ملوث ہونے کی نوبت ہی نہ آئے۔ اگر کسی جگہ مردوں عورتوں کو مخلوط محفلیں منعقد ہوتی رہیں گی تو گناہ کی صورتیں بھی سامنے آتی رہیں گی۔
(2)
احتیاط شرمندگی سے بہتر ہے
Rather to be safe than to be sorry
احتیاط کرنا شرمندہ ہونے سے بہتر ہے
اگر کسی کام میں شرمندگی اور ندامت اٹھانے کا خطرہ ہو تو اس کام میں بہت احتیاط برتنی چاہیے۔ اسی طرح عزت وناموس کی حفاظت کرنی ہو تو مخلوط محفلوں میں جانے سے گریز کرنا چاہیے۔
ان دونوں اصولوں کو سامنے رکھ کر یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ نہ تو عورت کو بے حجاب مردوں کے سامنے آنا چاہیے اور نہ ہی مخلوط محفلوں کی زینت بننا چاہیے۔ اسی میں عزت وناموس کی حفاظت ہے اور یہی شریعت کا حکم بھی ہے۔
ص 261۔۔۔۔۔
مرد لوگ تو پہلے ہی عورت کو شیشے میں اتارنے کے لئے تیار ہوتے ہیں اگر کوئی عورت ذرا سا ڈھیلا پن دکھائے تو بات بہت دُور نکل جاتی ہے۔
ایک ان پڑھ نوجوان دکاندار لڑکے نے کہا کہ میرے پاس کالج کی لڑکیاں آکر خود کہتی ہیں کہ جو کرنا ہے جلدی کر لو ہمیں واپس جانا ہے۔ چنانچہ وہ نوجوان انہیں مال دکھانے کے بہانے سٹور کی پوشیدہ جگہ میں لے جاتا اور حرامکاری کا مرتکب ہوتا تھا۔ جو عورتیں کپڑے سلوانے درزی کے پاس جاتی ہیں انہیں جسم کی پیمائش بھی دینی پڑتی ہے۔ نئے نئے فیشن اور فٹ سائز کے کپڑے تیار کرنے کے بہانے درزی کو کھلی باتیں کرنے کا موقع ملتا ہے۔ کئی مرتبہ تو نئے کپڑے سل رہے ہوتے ہیں جبکہ پہنے ہوئے کپڑے اتر رہے ہوتے ہیں۔ جیولرز کا کام تو ویسے ہی زیب وزینت سے متعلق ہوتا ہے۔ کئی عورتیں انگوٹھی اور چوڑیاں خرید کر مرد کو کہتی ہیں کہ پہنا دیں۔ جب ہاتھ ہی ہاتھ میں دے دیا تو پیچھے کیا رہا۔
مجھے سہل ہو گئیں منزلیں تو خزاں کے دن بھی بدل گئے
ترا ہاتھ ہاتھ میں آ گیا تو چراغ رہ کے جل گئے
ڈاکٹر حکیم کو بیماری سے متعلق کیفیات بتانی ہوں تو نہایت احتیاط برتی جائے۔ ایسا نہ ہو کہ جسم کا علاج کرواتے کرواتے دل کا روگ لگا بیٹھیں۔ کئی ڈاکٹر حضرات مریضہ کا علاج کرتے ہوئے خود مریض عشق بن جاتے ہیں۔
سیل فون یاہیل فون:
آجکل کی سائنسی ترقی کی وجہ سے سیل فون کا استعمال عام ہوتا جارہاہے۔سیل فون کی کمپنیاں عشا سے فجر تک کا لیں فری دے دیتی ہے۔ یہی وقت شیطانی شہوانی باتیں کرنے کا ہوتا ہے۔
نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنے سیل فون پر اپنے کمروں کی تنہائی میں بیٹھے گھنٹوں باتیں کرتے ہیں۔ اس طرح یہ سیل فون ہیل فون بن جاتے ہیں۔ بہن بھائی ماں باپ قریب بھی ہوں تو بستر کے اندر پڑے پڑے پیغام کے ذریعے گفتگو جاری ہوتی ہے۔ سیل فون کو بیل کی بجائے وائبریشن پر سیٹ کر دیں تو گھنٹی بھی نہیں بجتی۔ فون کے ہلتے ہی دل دھڑکنے شروع ہو جاتے ہیں۔
سیل فون کتنی بھولی بھالی لڑکیوں کی عزت کا خون کر دیتے ہیں۔ غریب گھروں کی لڑکیاں اگر فون نہیں لے سکتیں تو اوباش نوجوان خود فون لیکر انہیں تحفہ دے دیتے ہیں۔ نہ بل کی پرواہ ٗ نہ بیل کی آواز ٗ یہ جہنم میں جانے کی پکی تدبیر نہیں تو پھر اور کیا ہے۔
Chating یا Cheating:
کہتے ہیں
کمپیوٹر کے ذریعے ایک دوسرے کو پیغام رسانی کرنے کو
Chating
جبکہ
Cheat
کہتے ہیں دھوکا دینے کو۔
آج کل نوجوان ایک دوسرے سے
Chat
نہیں کر رہے ہوتے بلکہ ایک دوسرے کو
Cheat
کر رہے ہوتے ہیں۔ ا یک نوجوان کالج کی سٹوڈنٹ نے پوچھا کہ میں اپنی زندگی کے معاملات ماں باپ کے سامنے نہیں بیان کر سکتی۔ میرے ایک انکل پانچ بچو ں کے باپ ہیں۔ عمر میں مجھ سے دگنے ہیں۔ کیا میں ان سے کمپیوٹر پر
Chat
کر لیا کروں اسے منع کیا گیا کہ یہ حرام ہے۔ وہ باز نہ آئی ٗ چھے مہینے بعد پتہ چلا کہ وہ دونوں حرامکاری کے مرتکب ہوگئے۔
ٹیوشن سنٹر یا ٹینشن سنٹر:
بعض لوگ اپنی نوجوان بچیوں کو مرد استاد کے پاس ٹیوشن پڑھنے بھیجتے ہیں یا انہیں ٹیوشن پڑھانے اپنے گھر بلاتے ہیں۔ دونوں صورتحال میں نتائج بُرے ہوتے ہیں۔ شرع شریف کے احکام سے غفلت برتنے کا انجام ہمیشہ بُرا ہوتا ہے۔ شاگردہ کو استاد کے پاس بیٹھ کر باتیں کرنے کا موقع ملتا ہے تو شیطان مشورہ دیتا ہے کہ کتابیں پڑھنے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کی شخصیت کے بارے میں بھی معلومات حاصل کرو۔ جب پرسنل لائف کی باتیں شروع ہو جاتی ہیں تو حرامکاری کے دروازاے کھل جاتے ہیں۔ ٹیوشن پڑھنی تھی ٹینشن پلے پڑ گئی۔ مردوں کو بھی عورت سے گفتگو کرتے وقت احتیاط کرنی چاہیے۔ علامہ جزری نے لکھا۔
نھی رسول اللہ ﷺ ان یخضع الرجل یغر امراۃ ان یلین لھا بالقول بما یطمعھامنہ (النھایہ)
نبی اکرم ﷺ نے اس بات سے منع کیا ہے کہ مرد اپنی بیوی کے سوا کسی دوسری عورت کے سامنے نرمی سے بات چیت کرے جس سے عورت کو مرد میں دلچسپی پیدا ہو جائے
نوکری پیشہ خواتین:
بعض لڑکیاں حالات کو مجبوری کا بہانہ بنا کر دفتروں یا کارخانوں میں مرد حضرات کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں۔ شیطان کے لئے ان لڑکیوں کو گناہ میں پھنسانا بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔ اکثر اوقات تو افسر ہی عزت کا ستیاناس کر دیتا ہے۔ ورنہ ساتھ مل کر کام کرنے والے لڑکے ہی میل ملاپ کی راہیں ڈھونڈ لیتے ہیں۔ مرد حضرات ایسی صورتحال پیدا کر دیتے ہیں کہ لڑکیوں کو گناہ میں ملوث ہونا پڑتا ہے۔ ایک سختی کرتا ہے کہ تم اچھا کام نہیں کرتی تمہاری چھٹی کروا دینی چاہیے۔ لڑکی ڈر جاتی ہے گھبرا جاتی ہے۔
دوسرا نجات وہندہ بن جاتا ہے کہ میں تمہاری مدد کروں گا۔ کچھ نہیں ہونے دوں گا ٗ کچھ عرصہ کے بعد پتہ چلتا ہے کہ لڑکی نجات دہندہ کے پھندے میں پھنس چکی ہوتی ہے۔ دفتر میں کام کرنے والی لڑکیوں کو کم یا زیادہ ایسے ناپسندیدہ واقعات پیش آتے ہیں۔ پانچویں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں ٗ وہ نوکری پیشہ خواتین جو کم گو ہوتی ہیں ٗ کسی مرد پر اعتبار نہیں کرتیں نہ ہی کسی سے اپنی زندگی کے بارے میں تبادلہ خیالات کرتی ہیں ٗ بس کام سے کام رکھتی ہیں۔ جو مرد ان سے
Loose Talk
یعنی آزاد گفتگو کرنے لگے اسے ڈانٹ پلا دیتی ہیں ، اگرچہ وہ دفتر میں سٹریل مشہور ہو جائیں مگر کم از کم وہ اپنی عزت بچا لیتی ہیں۔
حضرت عمر کا عمل:
خلافت فاروقی کے دور میں ایک شخص کسی جگہ سے گزرا تو اس نے ایک مرد وعورت کو آپس میں نرم گفتگو کرتے سنا۔ معلوم کرنے سے پتہ چلا کہ وہ آپس میں غیر محرم تھے۔ اس شخص نے مرد کے سر پر اس زور سے کوئی چیز ماری کہ سر پھٹ گیا۔ جب مقدمہ حضرت عمرؓ کے پاس پہنچا تو انہوں نے سر پھاڑنے والے شخص کو کوئی سزا نہ دی۔ علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ اس طرح سختی سے شر اور بُرائی کے بیج کو ہی ختم کر دینا چاہیے تاکہ دوسرے اس سے عبرت پکڑیں۔
ص ۱۸۲
غیر محرم سے چھپی آشنائی کرنا
انسان بعض اوقات ایسی غلطیاں کو بیٹھتا ہے جو پوری زندگی کے لئے سوہان روح بن جاتی ہیں۔ ان غلطیوں میں سے ایک غلطی یہ ہے کہ عورت کسی نامحرم مرد سے اپنے ذاتی معاملات پر باتیں کرنی شروع کر دے۔ اس کی ابتدا کتنے ہی خلوص پر مبنی کیوں نہ ہو اس کی انتہا ہمیشہ بُری ہوتی ہے۔ بعض لڑکیاں اپنے ماں باپ سے بات کرنے میں دُشواری محسوس کرتی ہیں نہ ہیکوئی ایسی بہن ہوتی ہے جو رازدار بن سکے۔ لہٰذا وہ اپنے کسی کزن سے یا سہیلی کے بھائی سے یا محلے دار لڑکے سے یا کلاس فیلو سے بات کر بیٹھتی ہیں۔ مرد بڑی فراخدلی سے اس کی بات سنتے ہیں اس کی مدد کرتے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ اس لڑکی میں دلچسپی لینا بھی شروع کر دیتے ہیں۔ شروع میں دونوں فریقین کو اس بات چیت میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ دونوں میں ناجائز تعلقات کی صورت بن جاتی ہے۔ آجکل کے نوجوان لڑکے بھولی بھالی لڑکیوں کو جال میں پھنسانے اور ان کو دانہ ڈالنے میں مہارت حاصل کر چکے ہیں۔ عموماً لڑکیاں ناتجربہ کار ہوتی ہیں جبکہ لڑکے محبت کی پینگیں بڑھانے کا تجربہ حاصل کر چکے ہوتے ہیں ٗ لہٰذا وہ ہر نئی لڑکی کو ایسی حکمت عملی سے قریب کرتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اگر لڑکی انہیں دینی ذہن کی نظر آتی ہے تو اس سے نیکی اور نماز کی باتیں کرنی شروع کر دیتے ہیں۔ اس لڑکی کو کہتے ہیں کہ تمہاری وجہ سے میرے دل میں نیک بننے کا شوق پیدا ہو گیا ہے۔ اگر لڑکی کی طبیعت میں ہمدردی نظر آتی ہے تو اس کے سامنے اپنی والدہ کی سختی اور تروشروئی یا اپنی بیوی کی تلخ کلامی کا ایسا منظر پیش کرتے ہیں کہ لڑکی کو اس پہ ترس آجاتا ہے ٗ وہ سوچتی ہے کہ اگر میں اس سے بات نہیں کروں گی تو یہ لڑکا کہیں خود کشی نہ کرلے۔ اگر لڑکی غریب نظر آتی ہے تو اس کو نوکری دلوانے یا اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اگر لڑکی نازنخرے والی اورچنچل نظر آتی ہے تو اس کی جوتی اور کپڑوں کی تعریفوں کے پل باندھ دیتے ہیں۔ اس کے جسم سے ریح بھی خارج ہو تو کہتے ہیں واہ کیا گلاب کی خوشبو آرہی ہے۔ کلر میچنگ کی تعریف کرکے اس کو قریب کر لیتے ہیں۔ جو لڑکی دیکھنے میں عام سی شکل وصورت رکھتی ہو اس کو کہتے ہیں تمہارے چہرے پہ سادگی کا نور نظر آتا ہے۔ جو لڑکی عمر میں بڑی ہو جائے اس کو کہتے ہیں کہ تمہارے چہرے پر بڑی معصومیت ہے۔ جو لڑکی بے وقوف نظر آئے اس کی عقلمندی کی خوب تعریفیں کرتے ہیں۔ جو لڑکی موٹی ہو اسے کہتے ہیں کہ آپ کی صحتمندی کا راز کیا ہے؟ ہمیں بھی بتائیں کہ آپ کون سے وٹامن استعمال کرتی ہیں؟ اگر کچھ اور سمجھ نہ آئے تو کہتے ہیں کہ میرے دل میں آپ کا بڑا احترام ہے آپ کی شرافت مجھے اچھی لگی ہے۔ غرض کوئی نہ کوئی ایسی بات کرتے ہیں جو اس لڑکی کی دکھتی رگ ہوتی ہے کہ وہ لڑکی محسوس کرے کہ مجھے بھی کوئی چاہنے والا ہے۔ ساتھ یہ بھی یقین دہانی کرواتے ہیں کہ میں عام لڑکوں کی طرح نہیں ہوں میں تو کسی سے بات ہی نہیں کرتا ٗ پتہ نہیں کیوں میرے دل میں آپ کا بڑا مقام ہے۔ جب لڑکی بات چیت کرنے لگ جاتی ہے تو پھر آہستہ آہستہ اسے شیشے میں اتارتے ہیں۔ اس کی تاریخ پیدائش لکھ کر رکھتے ہیں تاکہ اسے مبارکباد دی جا سکے۔ خط کے ذریعے رابطہ ہو تو ایسے ایسے اشعار لکھتے ہیں کہ پڑھنے والا دل تھام کے رہ جائے کبھی کہتے ہیں کہ آپ مجھے کھانا کھاتے یاد آئیں آپ مجھے سوتے وقت یاد آئیں آپ مجھے نماز پڑھتے وقت یاد آئیں ٗ اگرچہ وہ بیت الخلاء میں یاد آئی ہو۔ اگر لڑکی میں شرافت نظر آئے تو کہتے ہیں کہ آپ نے مجھے سیدھے رستے پر ڈالا ہے میں گندگی کی دلدل میں پھنس رہا تھا۔ اگر لڑکی نمازی ہو تو کہتے ہیں کہ میرے لئے دُعا کرنا مجھے تمہاری دعائوں کی قبولیت پر بڑا یقین ہے۔ اگر لڑکی میں کوئی بیماری نظر آئے تو اس کے علاج معالجے کی باتیں کرتے ہیں
مقصد یہ ہوتا ہے کہ کوئی ایسی بات کی جائے جو لڑکی کو اچھی لگے اور وہ بھی کوئی بات کرے تو پھر بات سے بات بڑھے۔ جب محسوس کرتے ہیں کہ لڑکی نے بے جھجک بات کرنا شروع کر دی ہے تو بات چیت کے دوران کبھی کبھار کہتے ہیں کہ آپ مجھے بتائیں ناں کہ آپ مجھے اچھی کیوں لگتی ہیں؟ جب دیکھتے ہیں کہ اس نے مسکرا کر دیکھا ہے تو کہتے ہیں پلیز آپ مجھے یاد نہ آیا ٗ میری نیت صاف ہے ایسا نہ ہو کہ مجھے آپ کو بھلانا مشکل ہو جائے۔ کبھی کبھی بات چیت کے دوران کہتے ہیں ٗ حیرانگی کی بات ہے کہ میری اور آپ کی پسند اور ناپسند بہت ملتی ہے۔ کبھی کبھی یہ کہتے ہیں کہ آپ بہت عقلمند ہیں آپ نے فلاں مشورہ بڑا ہی اچھا دیا۔ کبھی صاف لفظوں میں کہہ دیتے ہیں کہ میں آپ کو اپنانا چاہتا ہوں ٗ میرا مقصد بُرا نہیں ہے۔ ان تمام ہتھکنڈوں کا لب لباب یہ ہوتا ہے کہ لڑکی ہم سے بات چیت کرے ٗ ہنسی مذاق کرے اور اپنی ذاتی زندگی کی باتیں کھولنا شروع کرے۔ جب لڑکی نے اپنی ذاتی باتیں شروع کیں تو وہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ پرندہ اب جال میں پھنس جائے گا۔
دوسرے مرحلے میں اس لڑکی کو یقین دہانی کرواتے ہیں کہ میری نیت بُری نہیں ہے مگر مجھے آپ سے محبتہوگئی ہے۔ زبان سے کہتے ہیں
I Love You
مگر دل میں کہتے ہیں
I Need You
(مجھے آپ کی ضرورت ہے)
جب دیکھتے ہیں کہ اب ایک قدم اور آگے بڑھایا جا سکتا ہے تو اس لڑکی کو اپنے فرضی اور جھوٹے عشق کی داستان سناتے ہیں۔ اگر وہ غور سے سن لے تو اسے اپنے خواب سناتے ہیں کہ آج رات میں نے خواب میں ایک لڑکی سے یہ کیا وہ کیا۔ اگر اس پر بھی لڑکی اچھا رویہ ظاہر کرے تو اس سے فلموں ڈراموں اور گانوں کے بارے میں بتادلہ خیالات کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ پوچھتے ہیں کہ تمہیں کون سا گانا پسند ہے مجھے تو یہ پسند ہے ٗ تمہیں کون سی فلم پسند ہے مجھے تو یہ پسند ہے۔
غرض جب اس قسم کی ناشائستہ باتیں کھلے عام ہونے لگیں تو سمجھتے ہیں کہ اب کامیابی کے امکان روشن ہیں۔
تیسرے مرحلے میں اس لڑکی سے کہتے ہیں کہ میرا دل چاہتا ہے کہ آپ کے پاس بیٹھ کر آمنے سامنے جی بھر کے باتیں کروں ٗ میرے لئے کچھ وقت اور موقع نکالو ٗ کبھی کہتے ہیں میرا جی چاہتا ہے کہ سمندر کا کنارا ہو اور ہم دونوں باتیں کرتے کرتے دُور چلے جائیں۔ گرمی کے موسم میں کہتے ہیں کہ میرا جی چاہتا ہے کہ ٹھنڈی سڑک ہو اور ہم دونوں ننگے پائوں اس پر چلتے چلتے تھک جائیں تو اسی پر سو جائیں چاہے کوئی ہمارے اُوپر سے ٹرک ہی گزار دے۔ سردی کے موسم میں کہتے ہیں کہ میرا جی چاہتا ہے کہ ہم ایک چار پائی پر بیٹھے باتیں کرتے رہیں اور ہمارے ہاتھ پائوں کمبل میں لپٹے ہوں۔ اگر لڑکی ایسی بات چیت کو خوشی خوشی سن لے تو سمجھتے ہیں کہ منزل قریب ہے۔
چوتھے مرحلے میں اس لڑکی سے تنہائی میں ملاقات کی خواہش ظاہر کرتے ہیں اور تھوڑی گفتگو کے بعد کہتے ہیں کہ تھوڑی دیر گلے مل لو ٗ ایک مرتبہ اپنی آنکھوں کا بوسہ لینے دو آئندہ میں کبھی ایسا نہیں کرونگا۔ اگر اجازت مل گئی تو ہر ملاقات میں کھلتے کھلتے بالآخر زنا کے مرتکب ہو جاتے ہیں۔ ایک اوباش نوجوان نے توبہ کی تو اس نے یہ ساری رام کہانی سنائی ٗ یہ بھی بتایا کہ ایک وقت میں پانچ پانچ چھ چھ لڑکیوں سے معاشقہ چل رہا ہوتا ہے۔ ایک سے بات چیت کرکے فون بند کرتے ہیں تو دوسری لڑکی کو کال کرکے کہتے ہیں کہ آج میں آپ کے لئے بہت زیادہ اداس ہوں۔ جب فون بند کرتے ہیں تو تیسری لڑکی کو کال کرکے کہتے ہیں کہ ہائے میں تو آج آپ سے بات چیت کرنے کے لئے ترس گیا تھا۔ شیطانی کام کے لئے قدم قدم پر جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں۔
مقصد صرف اور صرف لڑکی سے اپنی شہوت پوری کرنا ہوتا ہے۔ لیکن جس لڑکی سے ایک دفعہ شہوت پوری کر لیں اس سے کبھی شادی کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ دل میں یہ بات ہوتی ہے کہ جو لڑکی کنوارے پن میں میرے ساتھ ناجائز تعلقات استوار کر سکتی ہے وہ میری بیوی بن گئی تو اووروں سے تعلقات کیوں نہیں جوڑے گی۔ لہٰذا اس پیار کو ختم بھی مرحلہ وار کرتے ہیں۔
مرحلہ نمبر1
(Use The Girl):
لڑکی سے اپنی نفسانی خواہش پوری کرو جتنا عرصہ بھی دائو لگ سکے۔ جب لڑکی مجبور کرے کہ آپ میرے گھر اپنی والدہ کو رشتہ کے لئے کیوں نہیں بھیجتے تو بہانے بنائو۔ اگر لڑکی سمجھدار ہو اور پیچھے ہٹنے لگے تو اسے بُرائی کے لئے مجبور کرو۔
مرحلہ نمبر۲
(Abuse the girl)
لڑکی کو مجبور کرکے اس سے خواہش پوری کرو۔ کبھی کہو میں گولیاں کھالوں گا ٗ میں پنکھے سے لٹک جائوں گا ٗ میں جیب میں تمہارے نام خط لکھ کر چھت سے چھلانگ لگا دوں گا ٗ ورنہ تم مجھ سے ضرور ملو۔ اس طرح جتنا عرصہ گزر سکتا ہے گزارنے کی کوشش کرو۔
مرحلہ نمبر3
(Confuse the Girl)
اگر لڑکی کے والدین اس کا رشتہ کہیں اور کرنا چاہتے ہیں تو اس کے سامنے اداسی کے فقر ے بولو۔ میں تمہارے بغیر زندہ نہیں رہ سکوں گا ٗ تم نے میرا سکون تباہ کر دیا ہے ٗ تمہاری وجہ سے میرا پڑھائی میں دل نہیں لگتا لہٰذا میں فیل ہو گیا ہوں ٗ اگر تم نے میرے ساتھ شادی نہ کی تو میں عین اس وقت خود کشی کروں گا جب تمہاری ڈولی جا رہی ہوگی۔ یادرکھنا اگر تم نے میری ساتھ شادی نہ کی تو میں تمہارے ہونے والے خاوند کو سب کچھ بتا دوں گا ٗ میں تمہارے خاوند کو تمہارے خط دکھائوں گا تمہاری تصویریں دکھائوں گا ٗ تمہیں طلاق دلوا کررہوں گا ٗ اب تم میری بیوی بن کر ہی زندہ رہ سکو گی۔ لڑکی بیچاری ان جھوٹی مکاریوں سے متاثر ہو کر اچھے اچھے رشتوں سے انکار کر دیتی ہے۔ والدین کے سامنے ذلت ورسوائی برداشت کرتی ہے مگر ضد کرتی ہے کہ میرا رشتہ فلاں لڑکے سے ہی کیا جائے ورنہ میں خود کشی کر لوں گی ٗ کہیں چلی جائوں گی ٗ سب کی ناک کٹواکے رہوں گی۔ اگر والدین آمادہ ہو جائیں کہ چلو اسی اوباش لڑکے سے تمہاری شادی کر دیتے ہیں اور لڑکی اس لڑکے سے کہے کہ آپ اپنی والدہ کو ہمارے گھر رشتہ مانگنے کیلئے بھیجو میرے والدین ہاں کر دیں گے تو لڑکا سمجھ لیتا ہے کہ چوتھا مرحلہ شروع ہو گیا۔
مرحلہنمبر4
(Refuse the girl)
لڑکا تو جب دیکھتا ہے کہ لڑکی ہر طرف سے ہٹ کٹ کے میرے لئے فارغ ہو گئی ہے۔ تو اس سے جنسی تعلقات قائم رکھتا ہے مگر والدہ کو بھیجنے کے بارے میں بہانے کرتا ہے۔ کبھی کہتا ہے کہ فلاں کام کی وجہ سے امی مصروف ہیں ٗ کبھی کہتا ہے کہ فلاں بات پیش آگئی لہٰذا اب میں گھر میں یہ بات کیسے کروں۔ جب لڑکی زیادہ مجبور کرتی ہے تو لڑکا کہہ دیتا ہے کہ میری امی نہیں مانتیں۔ کیا کروں میرے ابو نہیں مانتے۔ اسی لیت ولعل میں وقت گزار دیتا ہے۔ لڑکی کو مصیبت میں ڈال دیتا ہے ٗ وہ نہ آگے کی رہتی ہے نہ پیچھے کی۔ ایسے موڑ پر پہنچ کر بعض لڑکیاں خود کشی کر لیتی ہیں ٗ بعض دن رات وظیفے کرتی ہیں کہ لڑکا اپنی ماں کو بھیج دے بعض منتیں مانتی ہیں یا تعویذ دھاگے کے پیچھے وقت ضائع کرتی ہیں۔ بعض اپنی غلطی تسلیم کرنے کی بجائے نمازیں پڑھنا چھوڑ دیتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے میری دُعا قبول نہیں کی۔ حالانکہ غلطی تو اپنی ہوتی ہے۔ لڑکا اس لڑکی سے اپنی شہوت پوری کر چکا ہوتا ہے۔ اب وہ لڑکی اس کی نظر میں استعمال شدہ ٹائلٹ پیپر کی مانند ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ حیلے بہانے کرکے لڑکی کو ٹالتا ہے اور ملنا بند کر دیتا ہے۔ یوں سمجھیں کہ لڑکی کو بند گلی میں پہنچا کر خود غائب ہو جاتا ہے۔
نتیجہ:
اکثر اوقات تو چھپی آشنائی والی شادیاں ہوتی ہی نہیں اگر ہو بھی جائیں تو دو وجوہات کی بنا پر طلاق ہونے کے چانسز زیادہ ہوتے ہیں۔
(1)
خاوند اپنی بیوی کے بارے میں شکی مزاج بن جاتا ہے حتیٰ کہ وہ لڑکی اپنے سگے بھائی سے بھی مسکرا کر بات کرلے تو خاوند کو ناجائز تعلقات کا شبہ ہو جاتا ہے۔ لڑکی اگر والدین کو ملنے کے لئے گھر جانے کی اجازت مانگے تو خاوند اس لئے اجازت نہیں دیتا کہ میکے جا کر کہیں کسی مرد کے ساتھ ملوث نہ ہو جائے۔
ایک تعلیم یافتہ نوجوان کی پسند کی شادی ہوئی تووہ دفتر جاتے ہوئے گھر کو تالا لگا کر جاتا تھا۔ کسی نے پوچھا کہ گھر میں بیوی کو ایمرجنسی ضرورت پیش آسکتی ہے کہ وہ باہر نکلے ٗ آپ اسے بند کیوں کر دیتے ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ جو لڑکی والدین سے چھپ چھپا کر محبت کر سکتی ہے وہ مجھ سے چھپ چھپا کر کسی ہمسائے سے محبت کیوں نہیں کر سکتی۔ اس سے اندازہ لگانا چاہیے کہ چھپی دوستی کرنے والی ایسی لڑکیاں ساری عمر کے لئے اپنا اعتبار کھو بیٹھتی ہیں۔
(2)
شادی ناکام ہونے کی دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ شادی سے پہلے لڑکا ہر بات میں لڑکی کی تعریف کرتا تھا ٗ اس کی ہر اُلٹی بات کو سیدھی کہتا تھا۔ اب شادی کے بعد حقیقت میں وہ خاوندبن کر رہتا ہے ٗ ٹھیک کوٹھیک اور غلط کو غلط کہتا ہے۔ لڑکی سمجھتی ہے کہ پہلے میں اچھی تھی اب کیا ہوا کہ اسے میرے اندر عیب نظر آنے لگے اسی طرح آپس میں جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں۔ شادی سے پہلے لڑکا جس طرح لڑکی کی تعریفوں کے پل باندھتا تھا اسے آئے دن تحفے تحائف دیتا تھا شادی کے بعد وہ معاملہ چل نہیں سکتا تو لڑکی سمجھتی ہے کہ اسے مجھ سے اب کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ بعض مرتبہ لڑکا شادی تو کر لیتا ہے مگر اس کو چھپی آشنائی کی لت پڑی ہوتی ہے لہٰذا وہ کسی اور لڑکی سے وہی پیارومحبت کے مراحل کا سلسلہ شروع کر دیتا ہے جس کی وجہ سے پہلی شادی ناکام ہو جاتی ہے۔
نصیحت کی بات:
یہ بات کھلی حقیقت ہے کہ عورت کسی غیر مرد کی جھولی میں اس وقت گرتی ہے جب اس کے اپنے گھر کے حالات اچھے نہیں ہوتے۔ اگر ماں فوت ہو جاتی ہے تو رضاعی ماں محبت نہیں دیتی اگر ماں ان پڑھ ہوتی ہے تو بیٹی کے حالات سے بے خبر رہتی ہے اگر میاں بیوی آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں تو اولاد کی طرف سے غفلت ہوتی ہے ٗ یا ان پڑھ ماں بات بات میں بیٹی کو ڈانٹتی ہے جبکہ بیٹوں کی ہر بات مانتی ہے ٗ یا بیٹی کو ہر چھوٹی سی غلطی پر کوسنے دیتی ہے حتیٰ کہ وہ بیٹی ماں کے سامنے اپنی کسی غلطی کا اظہار نہیں کرنا چاہتی ٗ یا پھر ماں اپنی بیٹی کو گھر میں اکیلے چھوڑ کر گھر سے باہر چلی جاتی ہے اور ٹیلیفون کا ل پر غیر محرم مرد کو اس کی بیٹی سے بات کرنے کا موقع مل جاتا ہے ٗ یا قریب کے غیر محرم مردوں کو اکیلی لڑکی سے معاشقہ بڑھانے کا موقع مل جاتا ہے ٗ یا خاوند بیوی کو محبت نہیں دے پاتا اور وہ محبت کی بھوکی غیر محرم کی میٹھی آواز پر قربان ہو جاتی ہے ٗ یا خاوند گھر سے دُور رہتا ہے اور بیوی غیر مرد کے چکر میں پھنس جاتی ہے ٗ یا خاوند کا رویہ بیوی کے ساتھ انتہائی سخت ہوتا ہے لہٰذا بیوی کو جہاں سے کھچ پڑے وہ کھچی چلی جاتی ہے۔ یا عورت کو اکیلا باہر جانے کی کھلی اجازت ہوتی ہے ٗ خرید و فروخت کے لئے بازار جاتی ہے اور غیر مرد سے آشنائی کا موقع نکل آتا ہے یا ٗ لڑکی سکول کالج اکیلی جاتی ہے یا سہیلی کے ساتھ جاتی ہے اور راستے میں غیر محرم لڑکے اسے اپنی طرف متوجہ کر لیتے ہیں۔ ایسی تمام صورتحال میں پہلا قصور گھر والوں کا ہوتا ہے کہ وہ لڑکی یا عورت کو غیر محرم کی طرف مائل ہونے کا موقع ہی کیوں دیتے ہیں۔ دوسرا قصور غیر مرد کا ہوتا ہے کہ وہ مختلف ہتھکنڈوں سے عورت یا لڑکی کو محبت کے جال میں پھنسا لیتے ہیں۔ تیسرا قصور عورت یا لڑکی کا اپنا ہوتا ہے کہ اگرچہ حالات ناسازگار سہی مگر وہ غیر محرم کے قریب کیوں آتی ہے ٗ اپنی عزت کا جنازہ نکالتی ہے اور زندگی بھر کی بدنامی کا داغ اپنے ماتھے پر سجاتی ہے۔ جہاں قصور دوسروں کا ہوتا ہے وہاں اپنا بھی ہوتا ہے۔ بقول شاعر۔
کچھ اویں ہی راہواں اوکھیاں سن
کچھ گل وِچ غماں دا طوق وی سی
کچھ شہر دے لوگ وی ظالم سن
کچھ سانوں مرن دا شوق وی سی
جو لڑکیاں اپنے عزت وناموس کی قدروقیمت جانتی ہیں وہ لاکھوں پریشانیوں کے باوجود غیر محرم مرد کی طرف بال برابر متوجہ نہیں ہوتیں ٗ نہ ہی کسی کو قریب ہونے کا موقع دیتی ہیں۔ ایسی عورتوں کو اللہ تعالیٰ اپنے قریب کر لیتے ہیں اور ولایت کا نور عطا فرماتے ہیں۔
(۲۵)
شادی میں بلاوجہ تاخیر (ص۲۳۲)
زنا اور فحاشی کی بہت بڑی وجہ شادی میں بلاوجہ تاخیر ہے۔ ماں باپ سوچتے ہیں کہ بیٹا پڑھے گا۔ پھر نوکری کرکے گھر بنائے گا تب شادی کی جائے گی اور اسی میں بچے کی عمر۳۰سال کی ہو جاتی ہے۔ بعض مرتبہ بڑے لڑکے کی شادی میں تاخیر ہوتی ہے تو نیچے کے تین بھی جوانی کی عمر کو پہنچ چکے ہوتے ہیں۔ بعض مرتبہ لڑکے کسی آئیڈیل کی تلاش میں ہوتے ہیں اور انہیں اپنی من پسند کی حورپری نہیں مل رہی ہوتی۔ بعض مرتبہ بڑا بھائی سوچتا ہے کہ میں چھوٹے بھائی بہنوں کی شادی پہلے کرلوں بعد میں خود شادی کروالوں گا۔ اور اسی میں اس کی عمر چالیس سال ہو جاتی ہے۔ مرد کے لئے شادی کی بہترین عمر ۲۵ سال ہے اور عورت کے لئے بہترین عمر۱۸ سال ہے۔ جتنی دیر ہوگی اتنا ہی بُرائی کے امکانات بڑھتے جائیں گے۔ بچے جوان ہوجائیں اور ماں باپ شادی میں تاخیر کریں تو بچے جتنے جنسی گناہ کریں گے ماں باپ اس کی سزا میں شریک ہوں گے۔
حضرت علی ؓ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے میرے محبوب ﷺ نے تین چیزوں میں جلدی کرنے کی تلقین فرمائی۔
(۱)
نماز پڑھنے میں جب وقت ہو جائے۔
(۲)
مردہ کو دفن کرنے میں۔
(۳)
لڑکی کا نکاح کرنے میں جب جوڑ کا خاوند مل جائے۔
بعض گھروں میں لڑکیاں ۲۵ سال کی عمر کو پہنچ جاتی ہیں مگر ماں باپ آئیڈیل رشتے کی تلاش میں لگے ہوتے ہیں۔ اتنی تاخیر بہت زیادہ نقصان دہ ہوتی ہے۔ ہمارے بزرگ اگر معلوم کر لیتے کہ فلاں گھر میں جوان لڑکی موجود ہے اور ماں باپ شادی میں سستی کر رہے ہیں تو اس شخص کے کنویں سے پانی بھی نہیں پیتے تھے۔ لڑکی کی شادی تاخیر سے کی جائے تو اس میں ایک نقصان یہ بھی ہے کہ شادی کے بعد اس کے بچے کی ولادت میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ اگر لڑکے کی شادی دیر سے کی جائے تو لڑکے جنسی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں کسی نہ کسی طریقے سے اپنی شہوت کی پیاس بجھاتے رہتے ہیں۔ جب شادی ہوتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ بیوی سے جماع کے قابل ہی نہیں ہوتے۔
لڑکا اگر پندرہ سال کی عمر میں بالغ ہو جاتا ہے تو اس کا۳۰ سال کی عمر تک عفیف رہنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ترین کام ہے۔ وہ ماں باپ سے چوری چھپے کسی نہ کسی لڑکی سے ناجائز تعلقات استوار کرے گا۔ اسی طرح اگر لڑکی کی عمر ۲۵ سال ہو جائے تو وہ بھی چھپی آشنائی کے لئے قدم اُٹھائے گی ٗ ماں باپ کی ناک کے نیچے دِیا جلائے گی۔ نوکری پیشہ خواتین کی شادی میں اکثر وبیشتر تاخیر ہوجاتی ہے جو بہت خطر ناک ہوتی ہے۔ بعض دیہاتوں میں لڑکیوں کی شادی ہی نہیں کی جاتی تاکہ جائیداد تقسیم نہ کرنی پڑے۔ بعض جاہل لوگ لڑکی کی شادی قرآن سے کر دیتے ہیں۔ یہ کتنی واہیات بات ہے۔
سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری کو معلوم ہوا کہ کسی گھر میں فلاں لڑکی موجود ہے مگر ماں باپ شادی میں سستی کر رہے ہیں۔ اُنہوں نے لڑکی کی والدہ سے کہا کہ اس کی جلدی شادی کردو۔ ماں نے کہا ابھی اس کی عمر ہی کیا ہے منہ سے دودھ کی خوشبو آتی ہے۔ حضرت شاہ صاحب نے فرمایا کہ بی بی اگر دودھ پھٹ گیا تو بدبو بھی آئے گی اور پھر یہ دودھ انسانوں کی بجائے کتوں کے کام آئیگا۔۔۔ الخ
ص ۱۰۳:
یہ احتیاط کرنی ضروری ہے کہ برقعہ اتنا نقش و نگار والا نہ ہو کہ دیکھنے والا سمجھے کہ اندر حور کی بچی موجود ہے۔آج کل کے مردوں کی حریص نگاہیں عورت کے بقیہ جسم پر نہ بھی پڑیں تو بھی ہاتھ پائوں پر نظر ڈالتے ہی عورت کے حسن و جمال کا اندازہ لگا لیتے ہیں ۔۔۔۔
ص ۱۱۴
ماں باپ کسی شادی کی تقریب میں گئے تو بیٹی گھر میں اکیلی تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد بھائی گندی جنسی فلم لے کر آیا اور بھائی بہن نے فلم دیکھی۔ فلم میں جنسی مناظر اتنے تھے کہ بھائی کی نیت خراب ہو گئی۔ ۔۔۔۔۔۔۔بالآخر وپہی ہوا جو نہ ہونا چاہیئے تھا دوسرے دن بہن نے پنکھے سے لٹک کر پھانسی لے لی۔ اس کی جیب میں سے اس کے ہاتھ کا لکھا رقعہ ملا جس سے اس واقعہ کا پتہ چلا۔
ص۱۱۵:
خاوند کو فوت ہوئے دو سال گزر گئے تو بیٹا ۔۔ سولہ سال کا ہو گیا۔ ۔۔۔۔بیٹا بری سوسائٹی کا شکار ہوگیا۔ ماں گھر میں بغیر ڈوپٹے کے کھلے گلے والی قمیض پہن کر کام کرتی رہتی۔وقت گذاری کے لئے خود بھی۔۔ ۔فلم یا ڈرامے دیکھتی اور بیٹے کو بھی دکھاتی۔۔۔۔۔۔بیٹے کو کئی دن(باہر) غلط فلمیں دیکھ کر غلط کاموں کا چسکا پڑ گیا ۔ ایک دن اس نے چائے کی پیالی میں نشی آور دوا ملا کر ماں کو پلائی اور وہ کچھ کیا جس کو قلم لکھنے سے قاصر ہے۔
(۵)
ایک مرتبہ کسی عورت نے پڑھنے کے لئے عمل پوچھا کہ مجھے کچھ پڑھنے کے لئے بتائیں تاکہ میرے خاوند کے دل سے میری جوان بیٹی کا خیال نکل جائے۔
ناطقہ سر بگریباں ہے، اسے کیا کہیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پردہ کے شرعی احکام
ص ۴۴، ص ۵۱ تا۵۳ ۔
۔۔ کیونکہ جب کوئی عورت برقع اوڑھ کر غیر مَردوں کے ساتھ اختلاط کرے گی اور ان سے بے تکلف
باتیں کرے گی تو اوّل تو مرد اس کی ذاتی حیثیت کو (کہ خوب صورت ہے یا بدصورت جوان ہے یا بوڑھی وغیرہ) خود نظر سے اور انداز گفتگو سے بھانپ لیں گے اور اگر بالفرض نہ بھانپ سکیں تو وہ ان باتوں کے معلوم کرنے کی کوشش کریں گے جس سے عفت خطرہ میں پڑ جاوے گی۔ دوسرے خود عورتیں بُرقعہ کی جالی سے مردوں کو دیکھیں گی اور چونکہ عورتوں میں بھی جذبات شہوانی ہوتے ہیں اس لئے جو مردا نہیں پسند ہوگا اُس کے پھانسنے کی وہ خود کوشش کریں گی۔ اور جب عورتیں خود طالب ہوں گی تو ایسی حالت میں ظاہر ہے کہ برقعہ کیا کام دے سکتا ہے۔ اس لئے برقعہ کے ساتھ عورتوں کو مَردوں کے ساتھ ربط ضبط اور خلاملا کی اجازت دینا ضرور شرعی مقصد کے خلاف ہے اور وہ بھی بے پردگی میں داخل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹی وی کی تباہ کاریاں مولانا محمد الیاس قادری (بریلوی) بیان نمبر ۱۱
ص۸؛
سرخی: مولانا صاحب! مجرم کون؟:
مجھے مکہ مکرمہ میں کسی نے ایک۔۔لڑکی کا خط پڑھنے کو دیا، جس میں مضمون کچھ اس طرح تھا۔ ہمارے گھر میں ٹی وی پہلے ہی موجود تھا۔۔ابو۔۔ڈش انٹینا بھی اٹھا لائے ۔۔۔میری سکول کی سہیلی نے ایک دن مجھے کہا کہ فلاں چینل لگائو گی تو ۔۔۔۔(جنسی) مناظر کے مزے لوٹنے کو ملیں گے۔ ایک بار جب میں گھر میں اکیلی تھی ،وہ چینل آن کردیا جنسیات کے مختلف مناظر دیکھ کر میں جنسی خواہش کے سبب آپے سے باہر ہو گئی، بیتاب ہو کر فورا گھر سے باہر نکلی ۔ اتفاق سے کار قریب سے گزر رہی تھی جسے ایک نوجوان چلا رہا تھا۔۔۔۔میں نے اس سے لفٹ مانگی اس نے مجھے بٹھا لیا۔۔۔۔ یہاں تک کہ میں نے اس کے ساتھ منہ کالا کر لیا۔۔۔۔۔ مولانا صاحب بتائیے کہ مجرم کون؟ میں خود یا میرے ابو کہ جنہوں نے پہلے ٹی وی لا کر گھر میں بسایا اور پھر ڈش انٹینا بھی لگایا۔۔۔الخ
مذید حوالہ جات
طوالت کے خوف سے مذید حوالہ جات نقل نہیں کئے جارہے۔ جو ملاحظہ کرنا چاہے وہ ان کتب کا مطالعہ کرے جس میں علماء کرام نے یہود و نصاری اور قادیانیوں وغیرہ کی وہ سرگرمیاں لکھی ہیں جو وہ مسلمان نوجوانوں کو بہکانے اور کافر بنانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ان سرگرمیوں میں سب سے اہم طریقہ خوبصورت ، جوان دوشیزائیں اور شراب سپلائی کرنا ہے۔ خاص طور پر مفت زنا کرنے اور مختلف طرح کے جنسی اختلاط کے لئے مختلف فلمیں، لڑکیاں، دولت، ادویات وغیرہ۔یہ وہ چیزیں ہیں کہ ہر نوجوان کو بہت مرغوب ہیں (اگر مسلمان نوجوان دیندار بھی ہو اور اللہ کی مہربانی سے ان کے چنگل میں نہ آئے، تب بھی یہ بہرحال مرغوب ضرور ہیں کیونکہ یہ فطری بات ہے)۔کتاب حیا اور پاکدامنی میں بھی تفصیل سے فحاشی عریانی ، اس کے اسباب، واقعات اور سدباب پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ہمارے پاس اور بھی کافی مواد ہے اگر اکٹھا کیا جائے تو ضخیم کتاب تیار ہوجائے مگر طوالت کے خوف سے لکھا نہیں جا رہا۔ اہل نظر کے سوچنے کیلئے اتنا بھی بہت ہے۔
دو چار سے دنیا واقف ہے، گمنام نہ جانے کتنے ہیں
© Copyright 2025, All Rights Reserved