• ہلوکی روڈ ڈیفنس
  • Mon - Sat 8:00 - 18:00

پردہ اور یہود ونصاریٰ کی سازشیں

 

 

کتاب، پردہ اور جدید ریسرچ، سے اقتباس

 

 

پردہ اور یہود ونصاریٰ کی سازشیں:

صہیونیت اور استعمارو سامراجیوں اور مادیت اور اباحت پسندوں کے پروگراموں کا سب سے بڑا

اور اولین مقصد یہ ہوتا ہے کہ مسلمان معاشرے کو بگاڑ دیا جائے اور اس کی حیثیت کو ختم کرکے اسے ٹکڑے ٹکڑے اور پراگندہ کر دیا جائے ٗ جس کا طریقہ یہ ہے کہ اخلاقی اقدار کو ختم کر دیا جائے اورنوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے دِلوں میں دینی مفاہیم و مذہب کی عظمت ختم کر دی جائے اور مسلم معاشرے میں ہر اعتبار اور ہر پہلو سے آزادی ٗ بے راہ روی اور برائیوں کو پھیلا دیا جائے۔

اباجیت و آزادی کی اس دعوت کو عام کرنے اور مکروفریب کا جال پھیلانے کے لئے ان لوگوں کے یہاں عورت سب سے کار آمد اسلحہ اور اولین مقصد اور ہدف ہے۔ اس لئے کہ اباجیت کی دعوت کو عام کرنے اور سا مراج کا پروگرام نافذ کرنے کے لئے عورت ہی سب سے ضعیف و کمزور اور جذباتی عنصر ہے جو ان کے مقاصد کے حصول کا بہترین ذریعہ بنتی ہے۔

سامراجیوں کا ایک پوپ کہتا ہے

شراب کا جام اور حسین وجمیل دو شیزہ امت محمدیہ کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں وہ اثر رکھتی ہے جو ہزار توپیں نہیں رکھتیں۔ لہٰذا اس امت محمد یہ کو مادے اور جنس و شہوت کی محبت میں غرق کرڈالو۔

بدنام زمانہ فری میسن تنظیم کے لیڈروں میں سے ایک لیڈر کہتا ہے

عورت کو اعتماد میں لینا ہمارا فریضہ ہے۔ اس لئے کہ جس دن بھی اس نے اپنا ہاتھ ہماری طرف بڑھا دیا ٗ اسی دن ہم حرام تک پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور دین کی فتح وکامیابی کے لئے کوشش کرنے والوں کا لشکر تتربتر ہو جائے گا۔

صہیونی حکماء کے پروٹوکول میں یہ لکھا ہے کہ

یہ نہایت ضروری ہے کہ ہم اس بات کی کوشش کریں کہ ہر جگہ اخلاقی حالت دگرگوں ہو جائے تاکہ ہر جگہ ہم غلبہ حاصل کر سکیں۔ ’’فرائڈ‘‘ ہماری جماعت کا آدمی ہے اور وہ کھلم کھلا جنسی تعلقات کے مناظر پیش کرتا ر ہے گا تاکہ نوجوانوں کی نظر میں کوئی چیز بھی مقدس نہ رہے اور ان کا سب سے بڑا مقصد اپنی جنسی خواہشات کی تسکین بن جائے اور اس صورت میں ان کے اخلاق کا جنا زہ نکل چکا ہوگا۔

لہٰذا جو لوگ اِسلامی ملکوں میں مردوز ن کے اختلاط کے دعویدار ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ یہ اختلاط ہماری معاشرتی زندگی کے ہر شعبے میں عام ہو جائے ٗ یہی لوگ درحقیقت اسلام کے دشمن  مادی ٗ الحادی اور ا باجیت پسند مذاہب والوں کی سازشوں کو نافذ کرنے کا ذریعہ اور ان کے لئے پروپیگنڈہ کرنے کا آلہ بن رہے ہیں اور یہ لوگ سا  مراجی اور صہیونی اور ماسونی (فری میسن) کے افکار کی دعوت دینے والوں کا فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ خواہ اس بات کو یہ لوگ سمجھ رہے ہوں یا نہ سمجھیں اور خواہ انہیں یہ حقیقت محسوس ہو رہی ہو یا محسوس نہ ہو رہی ہو۔

اسلام کے خلاف ایک منظم سازش کے ذریعے اس بے حیائی کو عام کِیا جارہا ہے۔ یہود ونصاریٰ کی اسلام دُشمنی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ان دونوں دشمنوں کی طرف سے اسلام کو مٹانے یا کم از کم بدنام کرنے کی کوشش ہر دَور میں ہوتی رہی ہے اور بدقسمتی سے ہمارے اس ملک پر ابتداء ہی سے اس طبقے کا قبضہ رہا جن کی پرورش اہل مغرب کی گود میں ہوتی تھی ٗ جن کی آنکھ بھی اس حیا باختہ ماحول میں کھلی تھی ٗ جن کی تربیت امریکہ اور برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں ہوئی تھی ٗ جن کے دِلوں میں نہ اللہ کی کوئی عظمت تھی نہ اس کے رسول  ﷺ سے کوئی تعلق تھا اور نہ ہی اس کے دین سے واقف تھے ٗ جو بجائے اللہ کے اہل مغرب پر ایمان رکھتے تھے اور جو مکہ و مدینہ کی بجائے لندن و پیرس کی تاریخ سے واقفیت رکھتے تھے ٗ جن کو مسجد کے بجائے نائٹ کلبوں سے محبت تھی ٗ اسلامی تعلیم کی جگہ مخلوط نظام تعلیم کو جانتے تھے ٗ جن کو ذکر اللہ کے بجائے شراب و شباب کی محفلوں میں قلبی سکون کا زعم تھا ٗ بیت اللہ کی جگہ واشنگٹن اور لندن کو قبلہ و کعبہ سمجھتے تھے ٗ قرآن پاک کی جگہ ڈائجسٹوں کے شوقین تھے ٗ جو اپنی بہن بیٹی کو بھی پردے کی قیود سے آزاد اور عیاں دیکھنا پسند کرتے تھے۔

جب یہ طبقہ برسراقتدار آیا تو سب سے پہلے اس مغرب زدہ طبقے نے مغربی تہذیب و تمدن کو اس ملک پر مسلط کیا اور اس کے لئے مختلف ادارے وجود میں آئے اور ان اداروں نے اہل مغرب کے اشاروں پر اپنے مشن کا  آغاز کیا اور مخطوط نظام تعلیم رائج کرکے شرم وحیا کی پہلی دیوار مسمار کر دی۔اس سلسلے میں ملک کے پہلے وزیراعظم کی بیوی بیگم لیاقت علی خان نے ۲۳ اپریل ۱۹۴۹ ء کو لندن میں غیر ملکی اخبار نویس عورتوں کے سامنے اپنے مغربی آقائوں کے مشن کو شروع کرتے ہوئے کہا تھا

اگرچہ پاکستان کی شہری عورتیں پردہ بھی کرتی ہیں اور نقاب بھی اوڑھتی ہیں ٗ تاہم اسی فیصد عورتیں جو دیہات میں رہتی ہیں وہ ایسا نہیں کرتیں۔ نیز پردہ نشین عورتیں بھی اپنے مردوں پرویسی ہی اور اپنے گھر کے معاملات میں ویسی ہی بااختیار ہیں جیسے کہ بے پردہ عورتیں۔ مغرب میں بھی تو عورتوں کے مردانہ کارروائیوں اور مصروفیتوں میں حصہ لینے کا خیال ابھی نیا نیا پید اہوا ہے۔ بہر حال پردہ دیر سویر ختم ہوکے رہے گا۔ لڑکیوں کی نئی پودجن کی تربیت لڑکوں اور لڑکیوں کی مخلوط درسگاہوں میں ہو رہی ہے وہ پردے میں نہیں جائے گی۔ (ڈیلی سول اینڈ ملٹری گزٹ  مورخہ ۲۷۔۴۔۱۹۴۹ء

بیگم صاحبہ نے مغرب والوں سے کہا تھا کہ کچھ پردہ نشین عورتیں جو ہمارے مُلک میں تمہیں نظر آرہی ہیں عنقریب ہماری کوششیں رنگ لائیں گی اور یہ پردہ نشین عورتیں پھر تمہاری طرح لباس سے بے نیاز ہو کر گھومیں پھریں گی۔اتنی جلدی تو پردہ ختم نہیں ہو سکتا ٗ ابھی ہماری عمر ہی کیا ہے۔ ہمیں اختیارات ملے ابھی دو سال ہی تو گزرے ہیں اور تمہارے ہاں مغرب میں بھی تو ابھی تک کوئی خاص قسم کی بے حیائی نظر نہیں آتی جس پر تم ہمیں ڈانٹتے ہو۔ بیج تو ہم نے ابھی ڈالا ہے ٗ مخلوط تعلیم کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور جو لڑکیاں ان درسگاہوں سے تربیت پا کر نکلیں گی وہ کبھی بھی پردے کا بوجھ اپنے سر پر نہیں اُٹھائیں گی۔ وہ تمہاری طرح مادر پدر آزاد ہو کر اسلام کا مذاق اڑائیں گی۔جس معاشرے کو وہ وجود میں لانا چاہتے تھے بدقسمتی سے ہمارے موجودہ دَور میں ان کا مدعا پورا ہو گیا

جس میں کچھ انسان کی توقیر کے احکام تھے

وہ شریعت مغرب زدوں کے زیر سایہ ہوگئی

بے حیائی کا سیلاب ہے ٗ جس سے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ کتنے شریف گھرانوں کی بہو بیٹیاں آج بے حجابانہ نیم برہنہ ہو کر پارکوں ٗ ہوٹلوں ٗ سیر گاہوں اور دفتروں میں نامحرم مردوں کے شانہ بشانہ نظر آرہی ہیں۔

سامراجی طاقتوں کا فتنہ و فساد:

استاذ حسین یوسف نے ایک رسالہ تحریر کیا ہے ٗ جس کا نام ’’مشرق میں نسوانی تحریک اور سامراج سے ان کے روابط‘‘ ہے۔ اس کتاب میں روشن دلائل اور دوٹوک تحقیقات سے صاحب موصوف نے یہ ثابت کیا ہے کہ سامراجی طاقتوں نے بے شمار نسوانی انجمنوں کو خرید رکھا ہے اور ان کی زبردست مالی امداد کرتی ہیں۔

صلیبی سامراج اور صہیونی مصنف کا کہنا ہے

عورتوں کی ایک ایسی کھیپ تیار ہونی چاہئے جو اسلام سے قطعاًنا واقف ہو! طریقہ اس کا بھی وہی ہے جو پہلے مردوں پرآزمایا جا چکا ہے۔ یعنی تعلیم

پردہ اور صیہونی اور صلیبی سازش:

عالم اسلام کی موجودہ نسل، صلیبی سامراج اور یہودی سازش کا اصل سرمایہ ہے۔ کیونکہ یہی نسل اسلامی عقیدے کے خاتمے کے لئے فیصلہ کن وار کرنے والی ہے۔ اور خاص طور پر موجودہ عالم اسلام کی خاتون جس کے بارے میں ایک یہودی مصنف کہتا ہے کہ

’’معاشرے کو بے دین بنانے میں عورت زیادہ موثر کردار ادا کر سکتی ہے۔‘‘

اور یہ بات صحیح بھی ہے ۔ کیونکہ آج کی ’’تعلیم یافتہ حریت پسند خاتون‘‘ اپنے بچوں کے دل میں اسلام کے بیج نہیں بوئے گی۔ کیونکہ اس عقیدہ پر وہ خود ایمان نہیں رکھتی اور اسلام سے وہ متنفر ہے۔اب صلیبی سا مراج اور صہیونی سازشی دو صدیوں کی مسلسل جدوجہد سے چھٹکارا پا جائیں گے کیونکہ اب عورت تعلیم یافتہ اور حریت پسند ہونے کی بناء پر مسلمان بچے ہی نہیں پیدا کرے گی پھر بھی عورت پر گرفت مضبوط ہے اور اس کے دل میں اسلام دُشمنی کے جذبات ابھارنے کا کام منظم طریقے پر جاری ہے۔

اس مقصد کے لئے حریت پسند خاتون کو حصول حقوق کی اُلجھن میں مبتلا کر دِیا گیا ہے اور یہ اُلجھن اس وقت تک دُور نہیں ہو سکتی ہے جب تک اِسلامی قوانین کا خاتمہ نہ کر دیا جائے۔ یا اس سے بھی خطر ناک مہم کہ اسلام کے مفہوم و معنی کو بدل دیا جائے!

وہ گندگی میں پڑا رہے اور ان کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ اس لاپرواہی سے گذشتہ اقوام کِس انجام کو پہنچیں اور آج بعض قومیں کس انجام سے دو چار ہیں۔ اسے ان باتوں سے کوئی سروکار نہیں کیونکہ دُنیا کی تخریب پسند قومیں ان کے اخلاق کی بربادی اور ان کے دین اور ایمان کی تباہی کا ایک بڑا پروگرام اپنے سامنے رکھتی ہیں اور پروگرام کی منظوری صلیبی اور صہیونی دُنیا سے مل چکی ہے اور اب یہ نوجوان نسل، شہوت رانی اور لذت پرستی میں اتنی منہمک ہو چکی ہے کہ وہ اب صحیح زندگی کی طرف نہیں آسکتے۔ چنانچہ یہ بھی اسلام کو ناپسند کرتے ہیں۔

عیسائی مشنریوں کے دو مقاصد اور ہدف

موجودہ دَور کی کی آزاد عورت تو خاص طور پر اسلام کو ناپسند کرتی ہے۔ عالم اسلام میں آزادی نسواں ایک اہم مسئلہ رہا ہے جس کے لئے صلیبی سا مراج اور صیہونی سازش نے پوری ایک صدی تک جدوجہد کی ہے۔’’عالم اسلام پرحملہ‘‘ نامی کتاب میں ہے کہ مشنری کوششوں کے دو مقاصد ہیں ایک نوجوانوں کو عیسائی بنانا اور دوسرے تمام مسلمانوں میں مسیحی افکار کی اشاعت۔اسی کتاب کے صفحہ ۴۷ پر ہے۔

مشنری اگر اپنی تحریکات کے آثار کمزور دیکھیں تو اس سے ناامید نہ ہوں کیونکہ کہ یہ بات بالکل سامنے آچکی ہے کہ مسلمانوں کو مغربی علوم اور آزادی نسواں کی چاٹ پڑ چکی ہے۔

صفحہ ۸۸ اور ۸۹ پر لکھنؤ اور قاہرہ کی مشنری کا نفرنسوں کے طے کردہ لائحہ عمل ہے لکھنؤ کانفرنس جو ۱۹۱۱ء میں ہوئی اس میں یہ دو نکاتی لائحہ عمل منظور ہُوا۔

(۱)

موجودہ حالات کا مطالعہ۔

(۲)

تعلیم نسواں۔ اور مشنریوں کی تعلیم کے لئے کوشش۔

قاہرہ کانفرنس (۱۹۰۶ئ) نے جو پروگرام منظور کیا۔ اس کا ایک نکتہ درج ذیل ہے:۔

مسلم خواتین میں اجتماعی اور نفسیاتی ارتقاء

یہ وہ طریقہ کار تھا جو مسلم خواتین کی آزادی کے لئے مشنری کانفرنس میں طے پایا  اور صلیبی مشنریوں نے اس مقصد کے لئے انتھک کوششیں کیں۔

ایک امریکی یہودی مور برجراپنی کتاب آج کی عربی دُنیا میں کہتا ہے ۔

تعلیم یافتہ مسلمان عورت مذہبی تعلیمات سے بہت دُور ہے ا ور معاشرے کو بے دین بنانے میں حد درجہ مفید ہے۔

جو مقصد اس یہودی مصنف نے بتایا ہے اس کے لئے ظاہرہے کہ مشنری بہت زیادہ  کوشش کریں گے کیونکہ اگر عورت مسلمان رہ جائے تو خواہ جاہل ہی کیوں نہ ہو وہ بہر حال معاشرے کو بے دین بنانے کی مہم میں ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہو گی عورت ہی تو بچے کی پرورش کرتی ہے۔اور مسلمان عورت تو خواہ جاہل ہی کیوں نہ ہو دوران تربیت بچوں میں اسلام کے ایسے بیج بو دیتی ہے کہ خواہ فساد اور بگاڑ کے عوامل کتنے ہی مؤثر کیوں نہ ہوں اور لوگوں کی بر بادی دین و ایمان کے کتنے ہی منظم پروگرام کیوں نہ ہوں مسلمانوں میں پھر بھی اسلام کا کوئی نہ کوئی شائبہ باقی رہ جاتا ہے اور خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں پکا سچا مسلمان نہ بن جائے اور اس خطرے کو راستے سے ہٹانا صلیبی سا مراج اور یہودی سازش کے لئے ضروری ہے اس لئے اُنہوں نے سوچا کہ مسلمان عورت کے دِل سے اِسلامی عقیدہ مٹنا چاہئے۔

یہ بڑے افسوس کا مقام ہے کہ آج ہم نے اپنی ساری قوتوں کو فجور کے تابع کر دیا ہے۔ ہم ثقافت اور تہذیب کے نام پروہ سب کچھ کر گزرنا چاہتے ہیں جس کی جھلک ہمیں مغربی معاشرے میں دکھائی دیتی ہے۔ مغربی تہذیب کا سارا چکر ایک عریاں یا نیم عریاں عورت کے گرد گھوم رہا ہے اور ہم بھی کوے کی طرح اسی چال پر چلنا چاہتے ہیں جس کا لازمی نتیجہ اپنی اڑان بھول جانا ہے۔

میڈیا کی کوئی بھی سرگرمی ہو ٗ عورت کی تشہیر کے بغیر نامکمل نظر آتی ہے ۔ کوئی ایسا معمولی سا موقع بھی خالی نہیں جانے دِیا جاتا ٗ جس میں عورت کو ایک شوپیس بنا کر پیش نہ کِیا گیا ہو۔ ملک کے طول و عرض کو دیکھ لیں ٗ سائن بورڈ ٗ اخبارات ٗ سینماہال ٗ بک اسٹال ٗ غرض یہ کہ وہ کونسی چیزہے اور وہ کونسی جگہ ہے جہاں ہم نے اپنے کاروبار اور اپنی مضوعات بیچنے کے لئے عورت کو سیڑھی نہیں بنایا۔ تھرپار کرکے وہ پسماندہ علاقے جہاں پانی تک میسر نہیں ٗ وہاں بھی سائن بورڈ پر عورت مشروب کے لئے اشتہار بنی ہوئی ہے

میڈیا کی ساری چمک دمک ایک نیم برہنہ اور بے پردہ عورت کے گرد گھوم رہی ہے۔ میں اکثر احباب سے یہ سوال کرتا ہوں کہ اگر میڈیا سے عورت کو خارج کر دیا جائے تو کیا اس سے میڈیا ختم ہو جائے گا یا اس کی افادیت گھٹ جائے گی یا کوئی مضائقہ نہیں ہوگا تو اکثر کا یہی جواب ہوتا ہے کہ پھر یہ ٹی وی ٗ یہ انٹرنیٹ اور یہ سینما گھر کون دیکھے گا؟ ٹی وی کوٹی وی رہنے دوا سے مولوی نہ بنائو۔

یہودوہنود یہ جانتے ہیں کہ ہمارے دین کی بنیاد حیا پر رکھی گئی ہے اور اس میں عورت کی بے پردگی ٗ بے حیائی اور فحاشی پر سخت وعیدیں آتی ہیں ٗ اس لئے وہ اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں ٗ ہمارے درمیان فحاشی اور بے حیائی پھیلا کر ہمیں اللہ کے دین سے دھیرے دھیرے دُور کر رہے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ٗ مسلمانوں کے خلاف عورت کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی روایت چودہ سو سال پُرانی ہے۔

جب آپ  ﷺ نے اللہ کے دین کی تبلیغ شروع کی تو قریش نے آپ  ﷺ کو تین لالچ دئیے تھے۔ قریش کی سرداری ٗ اعلیٰ خاندان کی حسین عورت سے نکاح اور بے حساب مال وزر ٗ جنہیں آپ  ﷺ نے رد فرما دِیا تھا۔

پھر عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دَور خلافت میں مصر کے کمانڈر نے ان کی طرف ایک قاصد روانہ کیا کہ یہاں کے کفار نے ایک گہری سازش کی ہے ٗ ہمارے مجاہدوں کو بہکانے کے لئے جگہ جگہ اپنی حسین اور خوبصورت عورتوں کو ڈھول اور تاشے دے کر نیم برہنہ حالت میں کھڑا کر دیا ہے جو انہیں دعوت گناہ دیتی ہیں ٗ میں پریشان ہوں ٗ میری رہنمائی فرمائیں۔‘‘

عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے قاصد روانہ کیا اور پیغام بھیجا کہ اپنے تمام سپاہیوں کو اکٹھا کرکے انہیں قرآن سنائیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ قرآن کی برکت سے مسلمان سپاہیوں نے ان عورتوں کی طرف آنکھ اُتا کر بھی نہیں دیکھا ٗ آخر ان عورتوں نے مسلمان سپاہیوں سے پوچھا کہ کیا ہم خوبصورت نہیں ہیں ٗ ہم میں کیا کمی ہے جو تم ہماری طرف راغب نہیں ہوتے ہو تو سپاہیوں نے  کہا کہ ہمارے رب کا حکم ہے۔ ’

آپ حکم دیجئے مومنوں کو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ٗان کے لئے یہ بہت پاکیزہ طریقہ ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ ان کاموں سے خوب آگاہ ہیں ٗ جو وہ کرتے ہیں۔‘‘ (نور ۳۰

ہمیں آج پھر اپنے ذرائع ابلاغ کی اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے کہ کہیں آج پھر ہم اسی کفر یہ سازش کا شکار تو نہیں ہو رہے؟ آج بھی یہود و ہنود ایک گہری سازش کے تحت مسلمانوں کے افکار پراگندہ کرنے کے لئے مخرب اخلاق ویڈیو ز ٗ سی ڈیز اور لٹریچر کا زہر ہمارے معاشرے میں پھیلا رہے ہیں۔ بے حیائی اس قدر عروج پر ہے کہ اب آپ انٹرنیٹ کے ذریعے اخلاق باختہ فلمیں گھروں میں ڈائون لوڈ کر سکتے ہیں اور جب کوئی اللہ کا بندہ آرزہ دل ہو کر اس پر تنقید کرتا ہے تو اسے مولوی کہہ کر چپ کرا دیا جاتا ہے۔

آج مسلمانوں کو اسی فحاشی و بے حیائی میں ترقی نظر آرہی ہے ٗ وہ کہتے ہیں کہ انگریزوں او رمغرب کے لوگوں نے اتنی ترقی کی ہے ٗ مولوی نے ہمیں کیادیا ہے ؟ آج یورپی معاشرہ جس ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور ان کی تہذیب کا طلسماتی مینار جس طرح زمین بو س ہو رہا ہے اس کے پیچھے کار فرما عوامل میں بے حیائی ٗ فحاشی اور عورت کا مادر پدر آزاد ہونا ایک اہم عامل کی حیثیت رکھتا ہے۔

 

© Copyright 2025, All Rights Reserved