• ہلوکی روڈ ڈیفنس
  • Mon - Sat 8:00 - 18:00

کتاب ،شرعی پردہ کیوں؟ کیسے؟، سے اقتباس

کتاب ،شرعی   پردہ کیوں؟ کیسے؟، سے اقتباس

صفحہ  نمبر۴۳:

عورتوں کو گھروں سے رہنے کا حکم:

عورتوں کی عصمت کی حفاظت اور معاشرے کی اخلاقی پاکیزگی کے لئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ عورتوں کا مردوں سے کم سے کم اختلاط ہو ٗ جس کی سب سے اچھی صورت یہ ہے کہ خود عورتیں بلاضرورت گھروں سے نہ نکلیں کہ ان کا بکثرت گھروں سے نکلنا نامحرم مردوں سے ٹکرائو اور شدید فتنہ کا سبب بنتا ہے۔جیسا کہ اسلام سے پہلے کی جاہلیت قدیمہ اور موجودہ جاہلیت جدیدہ سے یہ بات نمایاں طور پرواضح ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے مُسلمان عورتوں کو اپنے گھروں میں ٹکے رہنے کا خاص طور سے حکم دِیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

یٰنِسَآئَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَآحَدٍ   مِّنَ النِّسآءِ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلاَ تَخْضَعْنَ بِالْقَوُل فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہٖ مَرَضٌ وَّ قُلْنَ قَوْلاً مَّعْرُوْفًا۔وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَ لَا تَبَرجْنَ تبرج الْجَاھِلِیَّۃ   ِ الْاُوْلیٰ وَ اَقِمْنَ الصَّلوٰۃَ وَ اٰتِیْنَ الزَّکٰرۃَ وَ اَطِعْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ۔ اِنَّمَا   یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذ ْھِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا

صفحہ نمبر۴۵تا ۴۷:

اس آیت سے دوسرا  اہم حکم یہ معلوم ہوا کہ عورتون کے پردہ کی سب سے اچھی صورت یہ ہے کہ وہ اپنے گھروں میں رہیں اور بلا ضرورت شرعیہ باہر نہ نکلیں اور یہی پردے کی وہ صورت ہے جسے حجاب بالبیوت سے تعبیر کِیا جاتا ہے۔نیز اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قدرت نے عورت کی تخلیق اس انداز میں کی ہے کہ وہ اپنے گھرکی چاردیواری میں گھریلو کاموں میں مشغول ہو کر ہی سکون واطمینان کی زندگی گزار سکتی ہے اور معاشرے کی حقیقی فلاح وبہبود بھی اسی میں ہے

اس کی فطری ساخت اسے روکتی ہے کہ وہ معاشی جدوجہد کے لئے مردانہ وار گھر سے نکلے اور وہ تمام مشکلات برداشت کرے جن سے نبرد آزما ہونے کی مکمل صلاحیت صرف مرد میں رکھی گئی ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام نے عورت کے کاندھے پر کمانے کا کوئی بوجھ نہیں ڈالا ٗ نکاح سے قبل اس کے نان ونفقہ کی ذمہ داری اس کے والدین اور بھائیوں پر ہے اور نکاح کے بعد شوہر پر ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ اہم ترین قانون خود بتاتا ہے کہ اسلام عورتوں کو کس قدر گھر سے باہر نکلتا دیکھنا چاہتا ہے۔

پھر اس آیت میں جو یہ کہا گیا کہ ’’تم جاہلیت اولیٰ کی عورتوں کی طرح کھلی بندوں نہ پھرو‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام سے قبل زمانۂ جاہلیت میں بھی عورتیں آزادانہ ٗ بے محابا ٗ بے حیائی اور بے پردگی سے پھرا کرتی تھیں ٗ چنانچہ قرون اولیٰ کے مفسرین نے اس کی جو کچھ تفسیر کی ہے وہ وہی ہے جو اس زمانہ جاہلیت میں رائج تھی۔ انہیں پڑھئے اور آج کی جاہلیت جدیدہ کو اس کے پیمانے پر ناپیئے تو معلوم ہوگا کہ آج اِنسان حقیقی جاہلیت کے زمانہ سے بھی زیادہ جاہل ہو چکا ہے۔

حضرت مجاہدؒ اور حضرت قتادۃ ؒ کہتے ہیں کہ ’’تبرج‘‘ عورت کا اِتراتے ٗ اِٹھلاتے اور مٹکتے ہوئے چلنا ہے۔ مقاتل ؒ کہتے ہیں کہ ’’تبرج‘‘ یہ ہے کہ عورت اپنے محاسن کو ظاہر کرے جن کا چھپانا اس کے لئے ذمہ لازم ہے۔لیثؒ کہتے ہیں کہ ’’تبرج‘‘ یہ ہے کہ عورت اپنے چہرے کے خدوخال اور جسم کے نشیب وفراز نہ چھپائے اور اُسے اچھا سمجھے۔ابوعبیدہؒ کہتے ہیں کہ ’’تبرج‘‘ یہ ہے کہ عورت اپنے جسم اور حسن کی اس طرح نمائش کرے کہ جس سے مردوں کے شہوانی جذبات بھڑک اُٹھیں۔ علامہ ابن جوزی ؒ ان اقوال کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ:

میں کہتا ہوں محض عورت کا گھر سے نکلنا اور راستہ میں اُس کا چلنا ہی بڑا فتنہ ہے کجا کہ وہ اپنے محاسن دکھاتے ہوئے چلے ٗ یہ تو کریلہ اور نیم چڑھاہونا ہے‘‘۔

یہ جو کچھ ان قدماء مفسرین نے جاہلیت اولیٰ میں رائج تبرج کے بارے میں کہا ہے یہ سب آج رائج ہے ٗ اور مسلم معاشرے کی بہوبیٹیاں الاماشاء اللہ اس سے بہت آگے نکل چکی ہیں۔اب ذرا غور کیجئے جن کو یہ حکم دیا جا رہا ہے ٗ یہ مرد کون ہیں؟ یہ خواتین کون ہیں؟ حکم کیا دیا جا رہا ہے؟ اور کس ضرورت کے تحت دیا جارہا ہے؟ اب جب ان مقدس ہستیوں کو یہ احکامات دئیے جا رہے ہیں ٗ تو آج کے مردوں اور عورتوں کے لئے ان کی پابندی کس قدر ضروری ہوگی ٗ اس کا اندازہ ہر شخص بخوبی کر سکتا ہے۔

صفحہ نمبر۵۷ ؛ خلاصۂ کلام:

اوپر جو کچھ حق تعالیٰ کے ارشادات لکھے گئے ان کا خلاصہ یہ ہے۔

(۱)

عورتیں بلا شدید ضرورت اپنے گھروں سے باہر نہ نکلیں۔

(۲)

اگر کسی شدید ضرورت سے باہر نکلنا ہی پڑے تو اپنے سارے جسم کو بڑی اور موٹی چادر یا برقع میں لپیٹ کر نکلیں۔

(۳)

مرد عورت کو نہ دیکھے اور عورت بلا ضرورت مرد کو نہ دیکھے۔

(۴)

مرد کو کوئی چیز عورت سے مانگنی ہو یا بات کرنے کی ضرورت پیش آئے تو پردے کے پیچھے سے بات کرے۔ (۵)

عورت جب غیر محرم سے بات کرے ٗ تو پردے کے پیچھے سے بات کرے اور اپنی آواز کو سخت اور درشت بنا کر بات کرے ٗ نرم آواز سے بات نہ کرے۔

(۶)

عام حالات میں چہرہ ٗ ہاتھ اور قدم کے علاوہ اپنا جسم محرم کے سامنے بھی نہ کھولے ٗ اور ہر وقت ستر کو ڈھانکے رکھے۔

صفحہ نمبر۶۶ تا ۶۸:قول علی رضی اللہ عنہ:

جاء   فی الفتح الربانی أنہ قال:  ألا تستحیون… ألاتغارون؟ أن یخرج نساء کم… فا        نہ قد بلغنی أن نساء کم یخرجن فی الأسواق یزاحمن العلوج۔

فتح الربانی میں آیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا تم حیا نہیں کرتے کیا تم غیرت نہیں کرتے کہ تمہاری عورتیں باہر نکلتی ہیں بے شک مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ تمہاری عورتیں بازاروں میں نکلتی ہیں اور موٹے آدمیوں سے مزاحمت کرتی ہیں‘‘

صاحب زواجر نے اسی بات کو یوں نقل کِیا:

ألا    تستحیون ألاتغارون یترک احدکم امرأتہ بین الرجال تنظر الیھم وینظرون الیھا۔

کیا تم حیا نہیں کرتے کیا تم غیرت نہیں کرتے تم میں سے کوئی اپنی عورت کو مردوں کے درمیان چھوڑ دیتا ہے۔ وہ انہیں دیکھتی ہے اور وہ اسے دیکھتے ہیں‘‘۔ ۔۔۔

پردے کے بارے میں اقوال مفسرین

قاضی شوکانی لکھتے ہیں:

علامہ ابن جریرابن ابی حاکم اورا بن مردویہ نے حضرت ابن عباس سے تفسیر میں نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی ضرورت کے تحت گھر سے نکلیں تو اپنی چادروں سے اپنے سروں کو ڈھانپتی ہوئی اپنے چہروں کو چھپا کر نکلیں اور صرف وہ ایک آنکھ کھلی رکھ سکتی ہیں۔۔۔۔

محمد ابن سیرین لکھتے ہیں:

میں نے حضرت عبیدۃ بن سفیان بن حارث حضرمی سے اس کا طریقہ پوچھا تو انہوں نے اپنی شال اُٹھائی اور اسے باقاعدہ اوڑھ کر سمجھایا پہلے اُنہوں نے اس سے اپنے سر اور پیشانی کو اس طرح ڈھنکا کہ بھنویں تک چھپ گئیں ٗ پھر اسی چادر سے اپنے چہرے کے بقیہ حصے کو اس طرح چھپایا کہ صرف داہنی آنکھ کھلی رہ گئی

صفحہنمبر۷۱ تا ۷۳:

علامہ الخطاب مالکی اپنی شراح مختصر خلیل میں فرماتے ہیں:

آزاد نوجوان اجنبی عورت کی طرف دیکھنا تین مواقع پر جائز ہے گواہی کے لئے ٗ طبیب اور اس جیسوں کے لئے اور  خِطبہ دینے والے کے لئے اور امام مالک سے خاطب کے لئے عدم جواز بھی مروی ہے اور علم وغیرہ سیکھنے کے لئے بھی دیکھنا جائز نہیں۔

مختصر الاحکام لابن قطان میں الخطاب کے کلام کا یہ مقتضیٰ لکھا ہے کہ خریدوفروخت کے لئے بھی اس کی طرف دیکھنا جائز نہیں کیونکہ وہ فرماتے ہیں کہ خریدوفروخت کرنا کوئی صنعت اختیار کرنا اس کی ضروری احتیاج میں سے نہیں ہے کیونکہ اکثر اوقات یہ ایسی ضرورت نہیں ہوتی کہ اس میں چہرے کا تکشف (کھولنا) مباح ہو جائے وہ خریدوفروخت اور صنعت حجاب کے ساتھ بھی اختیار کر سکتی ہے اور انہیں باہر نکلنے اور اپنی ضروریات کے لئے جانے سے منع بھی نہیں کیا گیا ہے اگرچہ وہ عدت میں ہی کیوں نہ ہوں البتہ انہیں باہر جاتے وقت تبرج ٗ تکشف ٗ تطیب و تزین سے منع کیا گیا ہے۔ اگر انہیں نکلنا ہے تو وہ نقاب باندھیں اور راستے میں چلتے وقت اتراہٹ سے نہ چلیں بلکہ دیواروں سے چمٹتے ہوئے چلیں۔الخطاب کے کلام سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اجنبیہ کے چہرے کو دیکھنا حرام ہے اور وہ اپنی ضرورت کے لئے باہر نہیںجا سکتی سوائے اس صورت کے کہ وہ نقاب ڈالی ہوئی ہو۔

ابن عربی فرماتے ہیں:

والمرأۃکلھا عورۃ ٗ بد نھا و صوتھا ٗ و لا یجوز کشف ذلک الا للضرورۃ والحاجۃ

عورت پوری کی پوری ستر ہے اس کا بدن اس کی آواز اور اس کا کھولنا بجز ضرورت وحاجت کے جائز نہیں۔

صفحہ   نمبر۸۲:

دوسرا درجہ ترک حجاب کا یہ ہے کہ گھروں کی چار دیواری سے باہر برقع یا لمبی چادر سے پورا بدن چھپا کر باہر نکلے یہ سبب بعید ہے فتنہ کا ٗ اس کا حکم ہے کہ اگر ایسا کرنا سبب فتنہ ہو تو ناجائز ہے اور جہاں فتنہ کا خوف نہ ہو وہاں جائز ہے ٗ اس لئے اس کا حکم زمانے اور حالات کے بدلنے سے بدل سکتا ہے۔ آنحضرت  ﷺ  کے زمانے میں اس طرح کا خروج عورتوں کا موجب فتنہ نہیں تھا ٗ اس لئے آپ  ﷺ نے عورتوں کو برقع وغیرہ میں سارا بدن چھپا کر مسجدوں میں آنے کی چند شرائط کے ساتھ اجازت دی تھی۔ اور ان کو مسجدوں میں آنے سے روکنے کو منع فرمایا تھا ٗ اگرچہ اس وقت بھی ان کو ترغیب اسی کی دی تھی کہ نماز اپنے گھروں میں ادا کریں ٗ کیونکہ ان کے لئے مسجدوں میں آنے سے زیادہ ثواب گھر میں پڑھنے کا ہے ٗ مگر فتنہ کا خوف نہ ہونے کے سبب منع نہیں فرمایا تھا۔ آپ  ﷺ کی وفات کے بعد صحابۂ کرام ؓ نے دیکھا کہ اب عورتوں کا مسجدوں میں آنا فتنہ سے خالی نہیں رہا ٗ اگرچہ برقع چادر وغیرہ لپیٹ کر آئیں ٗ تو ان حضرات نے بالا جماع وبالا تفاق عورتوں کو مسجدوں کی جماعت میں آنے سے روک دیا ٗ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے فرمایا کہ اگر رسول اللہ  ﷺ آج کے حالات کو دیکھتے تو ضرور عورتوں کو مسجدوں میں آنے سے روک دیتے۔ اس سے معلوم ہوا کہصحابۂ کرام  ؓ کا فیصلہ رسول اللہ  ﷺ کے فیصلہ سے مختلف نہیں بلکہ آپ  ﷺ نے جن شرائط کی بناء پر اجازت دی تھی اب وہ شرائط نہ رہیں تو حکم آپ  ﷺ ہی کے فیصلے سے بدل گیا۔

صفحہ نمبر۱۰۸ تا ۱۱۰:

حجاب شرعی کے درجات:

پردہ نسواں کے متعلق قرآن مجید کی سات آیات او رحدیث کی ستر روایات کا حاصل یہ معلوم ہوتا ہے کہ اصل مطلوب شرعی حجاب اشخاص ہے ٗ یعنی عورتوں کا وجود اور ان کی نقل وحرکت مردوں کی نظروں سے مستور ہو ٗ جو گھروں کی چار دیواری خیموں اور معلق پردوں کے ذریعہ ہو سکتا ہے۔ اس کے سوا جتنی صورتیں حجاب کی منقول ہیں ٗ وہ سب ضرورت کی بناء پر اور وقت ضرورت اور قدر ضرورت کے ساتھ مقید اور مشروط ہیں۔

اس طرح پردہ کا پہلا درجہ جو اصل مطلوب شرعی ہے وہ حجاب اشخاص ہے کہ عورتیں اپنے گھروں میں رہیں۔ لیکن شریعت اسلامیہ ایک جامع اور مکمل نظام ہے جس میں انسان کی تمام ضرورتیں پیش آنا ناگزیر ہے ٗ وہ کسی وقت گھروں سے نکلیں اس کے لئے پردہ کا دوسرا درجہ قرآن وسنت کی رو سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سر سے پائوں تک برقع یا لمبی چادر میں پورے بدن کو چھپا لیں پھر نکلیں ٗ راستہ دیکھنے کے لئے چادر میں سے صرف ایک آنکھ کھولیں یا برقع میں جو جالی آنکھوں کے سامنے استعمال کی جاتی ہے وہ لگالیں ٗ ضرورت کے مواقع میں پردہ کا دوسرا درجہ بھی پہلے کی طرح سب علماء وفقہاء کے درمیان متفق علیہ ہے۔

ایک تیسرا درجہ بھی بعض روایات سے مفہوم ہوتا ہے جس میں صحابہ وتابعین اور فقہاء امت کی رائیں مختلف ہیں وہ یہ کہ عورتیں جب بضرورت گھر سے باہر نکلیں۔ تو وہ اپنا چہرہ اور ہتھیلیاں بھی لوگوں کے سامنے کھول سکتی ہیں بشرطیکہ سارا بدن مستور ہو۔

چہرے کا پردہ:

جن حضرات نے الاما  ظھر کی تفسیر چہرے اور ہتھیلیوں سے کی ہے ان کے نزدیک چونکہ چہرہ اور ہتھیلیاں حجاب سے مستثنیٰ ہو گئیں اس لئے ان کو کھلا رکھنا جائز ہو گیا جیسے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے اور جن حضرات نے ماظھر سے برقع ٗ جلباب وغیرہ مرادلی ہے وہ اس کو ناجائز کہتے ہیں جیسے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے۔

جنہوں نے جائز کہا ہے ان کے نزدیک بھی یہ شرط ہے کہ فتنہ کا خطرہ نہ ہو ٗ مگر چونکہ عورت کی زینت کا سارا مرکز اس کا چہرہ ہے اس لئے اس کھولنے میں فتنہ کا خطرہ نہ ہونا شاذونادر ہی ہے ٗ اس لئے انجام کا رعام حالات میں ان کے نزدیک بھی چہرہ وغیرہ کھولنا جائز نہیں۔

ائمہ اربعہ میں سے امام مالک ٗ شافعی ٗ احمد بن حنبل رحمہم اللہ تینوں اماموں نے تو پہلا مذہب اختیار کرکے چہرہ اور ہتھیلیاں کھولنے کی مطلقاً اجازت نہیں دی ٗ خواہ فتنہ کا خوف ہو یا نہیں۔ امام اعظم رحمہ اللہ نے اگرچہ دوسرا مسلک اختیار کیا مگر خوف فتنہ کا نہ ہونا شرط قرار دیا اور چونکہ عادۃ یہ شرط مفقود ہے اس لئے فقہاء حنفیہ نے بھی غیر محرموں کے سامنے چہرہ اور ہتھیلیاں کھولنے کی اجازت نہیں دی۔

اس بحث کا حاصل یہ نکلتا ہے کہ اب باتفاق ائمہ اربعہ یہ تیسرا درجہ پردہ کا ممنوع ہو گیا کہ عورت برقع چادر وغیرہ میں پورے بدن کو چھپا کر مگر صرف چہرہ اور ہتھیلیوں کو کھول کر مردوں کے سامنے آئے۔ اس لئے اب پردے کے صرف پہلے ہی دو درجے رہ گئے ٗ ایک اصل مقصود یعنی عورتوں کا گھروں کے اندر رہنا اور بلا ضرورت باہر نہ نکلنا ٗ دوسرا برقع وغیرہ کے ساتھ نکلنا ضرورت کی بناء پر بوقت ضرورت و بقدر ضرورت۔

صفحہ  نمبر۱۱۴۔۱۱۵؛

حاجات کے لئے گھر سے نکلنے کی اجازت:

حدیث میں ہے کہ احکام حجاب نازل ہونے سے پہلے حصرت عمر رضی اللہ عنہ کا تقاضا تھا کہ یا رسول اللہ  ﷺ اپنی خواتین کو پردہ کرائیے۔ ایک مرتبہ ام المومنین حضرت سودہ ؓ بنت زمعہ رات کے وقت باہر نکلیں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو دیکھ لیا اور پکار کر کہا کہ سودہ! ہم نے تم کو پہچان لیا۔ اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ کسی طرح خواتین کا گھروں سے نکلنا ممنوع ہو جائے۔ اس کے بعد جب احکام حجاب نازل ہوئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بن آئی۔ انہوں نے عورتوں کے باہر نکلنے پر روک ٹوک شروع کر دی۔ ایک مرتبہ پھر حضرت سودہؓ کے ساتھ وہی صورت پیش آئی۔ وہ گھر سے نکلیں اور عمر رضی اللہ عنہ نے ان کوٹوکا۔ انہوں نے حضور اکرم  ﷺ سے شکایت کی۔ حضور اکرم  ﷺ نے فرمایا:

قد اذن اللّٰہ لکن ان تخرجن لحوائجکن…

’’اللہ نے تم کو اپنی ضروریات کے لئے باہر نکلنے کی اجازت دی ہے‘‘۔

اس سے معلوم ہوا کہ وقرن         فی بیوتکن کے حکم قرآنی کا منشاء یہ نہیں ہے کہ عورتیں گھر کے حدود سے قدم کبھی باہر نکالیں ہی نہیں۔ حاجات وضروریات کے لئے ان کو نکلنے کی پوری اجازت ہے۔ مگر یہ اجازت نہ غیر مشروط ہے نہ محدود۔ عورتیں اس کی مجاز نہیں ہیں کہ آزادی کے ساتھ جہاں چاہیں پھریں اور مردانہ اجتماعات میں گھل مل جائیں۔ حاجات و ضروریات سے شریعت کی مراد ایسی واقعی حاجات و ضروریات ہیں جن میں درحقیقت نکلنا اور باہر کام کرنا عورتوں کے لئے ناگز یر ہو۔ اب یہ ظاہرہے کہ تمام عورتوں کے لئے تمام زمانوں میں نکلنے اور نہ نکلنے کی ایک ایک صورت بیان کرنا اور ہر ہر موقع کے لئے رخصت کی علیحدہ علیحدہ حدود مقرر کر دینا ممکن نہیں ہے۔ البتہ شارع نے زندگی کے عام حالات میں عورتوں کے لئے نکلنے کے جو قاعدے مقرر کیے تھے اور حجاب کی حدود میں جس طرح کمی و بیشی کی تھی اس سے قانون اسلامی کی سپرٹ اور اس کے رجحان کا اندازہ کیا جا سکتا ہے اور اس کی سمجھ کو انفرادی حالات اور جزئی معاملات میں حجاب کے حدود اور موقع و محل کے لحاظ سے ان کی کمی وبیشی کے اصول ہر شخص خود معلوم کر سکتا ہے۔

صفحہ نمبر۱۲۳۔۱۲۴؛

عورتوں کا علاج کرانا:

صرف عام حالات ہی میں نہیں بلکہ شر عاہر عورت کے لئے ہر حالت میں پردہ کا اہتمام لازم ہے حتیٰ کہ اگر علاج معالجہ کی ضرورت پڑے تو اس میں بھی بقدراستطاعت پر دہ فرض ہے۔

عن    جابر رضی اللّٰہ عنہ ان ام سلمہ رضی اللّٰہ عنھا استاذنت      رسول اللّٰہ ﷺ فی الحجامۃ فامر ا باالطیبۃ ان یجمھا قال حسبت انہ کان اخاھا من الرضاعۃ او غلاما لم یحتلم۔

ام المومنین حضرت اسم سلمہ رضی اللہ عنہا نے حضور اقدس  ﷺ سے سینگی لگوانے کی اجازت طلب کی آنحضرت  ﷺ  نے ابوطیبہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ ان کو سینگی لگا دیں۔

یہ واقعہ بیان کرکے حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابوطیبہ سے جو سینگی لگوائی تو میرے خیال میں اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے دودھ شریک بھائی تھے یا نابالغ لڑکے تھے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کے لئے علاج معاملے کے سلسلہ میں بھی پردہ کا خیال رکھنا ضروری ہے اگر معالج کے سامنے بے پردہ آجانے میں کوئی حرج نہ ہوتا تو حصرت جابر رضی اللہ عنہ کو یہ بتانے کی ضرورت نہ پڑتی کہ ابوطیبہ ام المومنین کے دودھ شریک بھائی یا نابالغ لڑکے تھے۔

شریعت نے ایک اہم اصول ’’الضرورۃ      تتقدر بقدر الضرورۃ‘‘بتلایا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مجبوراً جتنے بدن کا دیکھنا ضروری ہے معالج بس اسی قدر دیکھ سکتا ہے مثلاً علاج کے لئے نبض دیکھنے اور حال کہنے سے کام چل سکتا ہے تو اس سے زیادہ دیکھنے یا ہاتھ لگانے کی اجازت نہ ہوگی۔ اس طرح اگر بازو یا پنڈلی میں زخم ہے تو جتنی جگہ بدرجہ مجبوری دیکھنے کی ضرورت ہو بس اسی قدر معالج دیکھ سکتا ہے اگر علاج کی مجبوری کے لئے آنکھ ناک یا دانت دیکھنا ہے تو اس صورت میں پورا چہرہ کھولنا جائز نہیں جس قدر دیکھنے سے کام چل سکتا ہو بس اسی قدر دکھا سکتے ہیں۔

بلکہ ایسے معالج کے لئے بھی اپنی محرم عورت کا پورا بدن دیکھنا جائز نہیں ہے کیونکہ عورت کو اپنے محرم کے سامنے پیٹ پیٹھ اورران کھولنا منع ہے۔ پس اگر پیٹ یا پیٹھ میں زخم ہو تو حکیم یا ڈاکٹر خواہ محرم ہو یا نامحرم صرف زخم کی جگہ دیکھ سکتا ہے اس سے زیادہ دکھانا گناہ ہے جس کی صورت یہ ہے کہ پرانا کپڑا پہن کر زخم کے اُوپر کا حصہ کاٹ دیا جائے تاکہ پیٹ یا پیٹھ کے بقیہ حصے پر اس کی نظر نہ پڑے اور چونکہ عورت کو ناف سے لے کر گھنٹوں تک کسی عورت کے سامنے بھی کھولنا ناجائز ہے اس لئے اگر لیڈی ڈاکٹر کو مثلاً ران یاسرین کا پھوڑا دکھانا مقصود ہو تو اس صورت میں بھی کپڑا کاٹ کر صرف پھوڑے کی جگہ دکھائی جائے۔

اس کے ساتھ یہ بھی یادرکھنا ضروری ہے کہ بوقت ضرورت حکیم یا ڈاکٹر کو جو جگہ دکھائی جائے تو حاضرین میں جو عزیز واقارب موجود ہوں ان کو اس جگہ کے دیکھنے کی اجازت نہیں ہاں اگر حاضرین میں سے کوئی شخص ایسا ہو جسے شرعاً اس جگہ کا دیکھنا جائز ہو تو وہ اس پابندی سے خارج ہے مثلا اگر پنڈلی میں زخم ہو اور وہ ڈاکٹر یا جراح کو دکھانا ہے اور عورت کا باپ یا حقیقی بھائی بھی وہاں موجود ہے اس نے اگر دیکھ لیا تو گناہ نہ ہوگا کیونکہ پنڈلی کا کھولنا محرم کے سامنے درست ہے۔ اسی طرح مرد کے علاج کے سلسلے میں بھی اس کا لحاظ ضروری ہے کیونکہ ناف سے لے کر گھٹنے تک مرد کا مرد سے بھی پردہ ہے اگر ران یا یاسرین کا زخم ڈاکٹر کو دکھانا ہے یا کولھے میں کسی مجبوری سے انجکشن لگوانا ہے تو صرف ڈاکٹر بقدر ضرورت دیکھ سکتا ہے دوسرے لوگوں کے لئے دیکھنا حرام ہے۔

صفحہ نمبر۱۲۷۔۱۲۸؛

حجاب کی جزئیات کا خلاصہ اور منشاء شریعت:

حضرت مولانا قاری طیب صاحب فرماتے ہیں کہ

بہرحال شرعی حجاب کی ہمہ گیر حدود وقیود نہ صرف معاشرت بلکہ عبادت اور نہ صرف عبادت بلکہ باطن اور قلب اور نہ صرف واقعات بلکہ احتمالات اور خیالات اور نہ صرف زمانہ حیات بلکہ بعد الممات تک پر بھی چھائی ہوئی ہیں اور عادت و عبادت کی کوئی نوع ایسی باقی نہیں رہتی۔ جس میں عورت کو حجاب کا اور مرد کو نگاہ بچانے کا پابند نہ بنایا ہو۔ اور اس ستر اور نگاہ بچانے کی بھی کوئی ظاہری و باطنی نوع ایسی نہیں چھوڑی گئی جس کی حکیمانہ ہدایت نہ دی گئی ہو۔ چنانچہ سابقہ تفصیلات میں آپ دیکھ چکے ہیں کہ پہلے ستر اشخاص کا حکم دیا ٗ پھر ستر ابدان کی ہدایت کی ٗ پھر ستر زینت کے لئے فرما دیا۔ پھر ستر عوارض یعنی بو اور چال ڈھال وغیرہ کا امر فرمایا ٗ پھر ستر نگاہ بتایا۔پھر ستر صورت کا ارشاد ہوا پھر ستر عمل کی تنبیہہ کی گئی یہاں تک کہ پھر ستر خیال کی بھی آخر میں تلقین فرما دی گئی۔ جس سے ایک منٹ کے لئے بھی نہیں سمجھا جا سکتا تھا کہ شریعت اجنبی مرد و عورت میں کوئی ادنیٰ اختلاط یا کم سے کم ریل میل اور تھوڑی سے بے تکلفی گوارا کرتی ہے اور وہ بھی معاشرت اور سلسلہ تمدن میں جو نفسانی جذبات بھڑکانے کا خاص ذریعہ ہے بلکہ اس کی ہر ہر ہدایت اور ہر ہر قید و بند سے جو اس نے خروج نساء پر عائد کی ہیں ٗ اس کی یہ مرضی صاف نمایاں ہے کہ عورتیں اس کی منشاء پر مطلع ہو کر باہر نکلنے سے رُک جائیں کیوں؟ اس لئے کہ جاہلیت اولیٰ کا تبرج اور آج کی جاہلیت اخری کا شہوانی تموج ان میں راہ نہ پائے اور یہ ناقصات العقل اس کی حرص میں اپنے عفیفانہ اخلاق اور حیادارانہ جذبات و اعمال سے دستبر دار نہ ہو جائیں پس اس جاہلیت اولیٰ نے بے حجابی اور بے حیائی کے جتنے عملی پہلو سامنے کیے شریعت نے اتنے ہی پردے عفت وعصمت کے پہلے سے تیار کیے ہوئے ان پر ڈال دئیے کہ جس سے ہر بے حیائی کا رخنہ مسدود ہو گیا اور اسلامی عورت تمام بداخلاقیوں کی زد سے بچ گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

© Copyright 2025, All Rights Reserved