فتاوی رحیمیہ سے اقتباس
فتاوی رحیمیہ جلد دہم ۸۳ تا ۱۰۲:
کتاب الحظر والاباحۃ ،باب الحجاب (پردہ سے متعلق
۔۔۔۔یہ بے پردگی ان ہی قوموں کا دستور العمل ہے جو نبوت کی روشنی سے محروم ہیں۔۔۔۔مجالس الابرار میں ہے فالمراۃکلما کانت مخفیۃ من الرجال کان دینھا اسلم یعنی عورت جس قدر مردوں سے پوشیدہ رہے گی اس کا دین زیادہ سالم اور محفوظ رہے گا ۔ (م۹۸ ص ۵۶۳) ۔۔۔۔
قرآن حکیم سورہ احزاب: اور فرمایا:
یایھا النبی قل لا زواجک وبناتک ونساء المومنین یدنین علیھن من جلا بیبھن۔
یعنی اے نبی (ﷺ) آپ اپنی بیویوں سے ٗ اپنی صاحبزادیوں سے اور دوسرے مسلمانوں کی بیویوں سے بھی کہہ دیجئے کہ (سر سے) نیچے کر لیا کریں (اپنے چہرے کے اُوپر) تھوڑی سی اپنی چادریں (یعنی چادر کا کچھ حصہ بطور گھونگھٹ چہرے پر لٹکا لیا کریں تاکہ سر کے ساتھ چہرہ بھی چھپ جائے) اس سے جلدی پہچان لی جایا کریں گی۔تو آزارنہ دی جایا کریں گی (بیان القرآن)
مطلب یہ ہے کہ باندیاں کھلے چہرے پھرتی ہیں اور شریعت نے بھی ان پر چہرہ چھپانا لازم نہیں کیا اور شریر لوگ باندیوں کو چھیڑا کرتے ہیں تو آزاد اور شریف خواتین پر لازم ہے کہ وہ سر اور چہرہ چھپا لیا کریں اس طرح بسہولت ان کی پہچان ہو جایا کرے گی اور شریر لوگ جو شریف اور باعزت خواتین کو چھیڑنے کی ہمت نہیں کرتے وہ ان کو نہیں چھیڑیں گے ا ور ان کے آزار سے شریف خواتین محفوظ رہیں گی۔ قابل توجہ یہ ہے کہ قرآن شریف نے پردہ اور نقاب کو شریعت اور عزت کی علامت قرار دِیا ہے اور بے پردگی و بے حجابی اُن کی علامت قرار دی ہے جو عزت وشرافت سے محروم آبروباختہ ہوں (معاذ اللہ)۔۔۔۔
احادیث سے ثبوت حجاب
(۱)
آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے:
عن ابن عمر عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لیس للنساء نصیب فی الخروج الا مضطرۃ ۔رواہ الطبرانی فی الکبیر
یعنی عورتوں کو اپنے گھروں سے باہر نکلنے کا حق نہیں ہے ٗ لیکن اس وقت کہ وہ مجبور مضطرہو جائیں (طبرانی
۲۔
المرأۃ عورۃ فاذا خرجت استش رفھا الشیطان (ترمذی شریف ج ا ص ۱۴۰)
عورت چھپانے کی چیز (یعنی عورت کے لئے پردہ ضروری ہے) کیونکہ جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کو تاک جھا نک کرتا ہے۔ (ترمذی شریف)
بدباطن لوگ جوبُری نظر سے عورت کو تاکتے ہیں وہ سب شیطان ہیں کیونکہ گلی کوچوں اور بازاروں میں ان شیاطین کی کمی نہیں ہوتی۔ اس واسطے عورت کوچاہئے کہ بلا ضرورت شدید گھر سے باہر نہ نکلے ! حتیٰ کہ نماز کے لئے مسجدوں میں بھی نہ جائے۔
بیشک آنحضر ت ﷺ کے عہد مبارک میں عورتوں کو نماز کے لئے مسجد میں جانے کی اجازت تھی لیکن ساتھ ہی یہ بھی ہدایت تھی کہ
بیوتھن خیرلھن
ان کے گھر ان کے حق میں ( مسجد کی حاضری سے) بہتر ہیں۔ (مشکوۃشریف ص ۹۶ باب الجماعۃ)
احادیث پاک سے معلو م ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ اپنی آخری عمر میں عورتوں کے لئے مسجد میں نہ جانے کو پسندفرماتے تھے (اور بعض جلیل القدر صحابہ نے اپنی بیویوں کو مسجد کی حاضری سے روکنا شروع کر دِیا تھا)
عن ام حمید امراۃ ابی حمید الساعدی رضی اللّٰہ عنھا انھا جاء ت الی النبی ﷺ فقالت یا رسو ل اللّٰہ انی احب الصلوٰ ۃ معک ٗ قال قد علمت انک تحبین الصلوۃ معی و صلوتک فی بیتک خیر من صلوتک فی حجر تک ٗ وصلوتک فی حجر تک خیر من صلوتک فی دارک و صلوتک فی دارک خیر من صلوتک فی مسجد قومک و صلوتک فی مسجد قومک خیر من صلوتک فی مسجدی قال فامرت فبنی لھا مسجد فی اقصی شئی من بیتھا واظلمہ کانت تصلی فیہ حتی لقیت اللّٰہ عزوجل رواہ احمد وابن خزیمۃ و ابن حبان فی صحیحھما (ترغیب ترھیب ج ۱ ص ۱۸۷) ۔۔۔۔۔۔۔۔
جب حضرت عمر فاروق ؓ کا زمانہ آیا اور عورتوں کی حالت میں تبدیلی ہوئی (اچھے
لباس ٗ زینت ٗ خوشبو وغیرہ کے استعمال کا رواج ہوا) تو حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ان عورتوں کو جو مسجد میں آجاتی تھیں منع فرما دِیا ۔تمام صحابہ نے اس کو پسند فرمایا کسی نے بھی اختلاف نہیں کِیا ۔ البتہ بعض عورتوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس کی شکایت کی حضرت عائشہ ؓ نے حضرت عمر ؓ کے فیصلہ سے اتفاق کرتے ہوئے فرمایا
لو ادرک رسول اللّٰہ ﷺ ما احدث النساء لمنعھن المسجد کما منعت نساء بنی اسرائیل۔
یعنی اگر حضور ﷺ ان باتوں کو دیکھتے جو اس وقت عورتون نے ایجاد کر لی ہیں تو آنحضرت ﷺ ان کو مسجد میں جانے سے روک دیتے جیسا کہ بنو اسرائیل کی عورتوں کو منع کر دیا گیا تھا
(صحیح بخاری شریف ۱؍۱۲۰ باب خروج النسآء الی المساجد الخ۔ (صحیح مسلم شریف ج ۱ ص ۱۸۳ ایضاً
بخاری شریف کی شرح (عینی) میں ہے کہ حضرت عمر ؓ جمعہ کے روز کھڑے ہو کر کنکریاں مارتے اور عورتوں کو مسجد سے نکالتے تھے۔عینی شرح بخاری۔
اس لئے فقہاء رحمہم اللہ نے بھی ممنوع اور مکروہ ہونے کا فتویٰ دیا ’’
ویکرہ حضور ھن الجما عۃ و لو بجمعۃ و عید ووعظ مطلقا و لو عجوزاً لیلا علی المذھب المفتی بہ لفساد زمان۔
یعنی عورتوں کاجماعت میں حاضر ہونا مکروہ ہے اگرچہ جمعہ میں اور عید میں اور وعظ کی مجلس میں ہو چاہے بوڑھی ہو یا جوان رات ہو یا دن بوجہ فساد زمانہ مفتی بہ مذہب یہی ہے۔ (درمختار مع الشامی ج ۱ ص ۲۹ ۵۲۹ باب الامامتہ) ۔۔۔۔
(3)
آنحضرت ﷺ نے ازواج مطہرات کو نابینا صحابی سے پردہ کرنے کا حکم فرمایا۔۔۔۔۔۔۔ نیز ارشاد ہوا عورت شیطان کی صورت میں سامنے آتی ہے اور شیطان کی صورت ہی میں پشت پھیر کر جاتی ہے یعنی عورت کا سامنا بھی وسوسہ انگریز ہوتا ہے اور شیطان کی طرح بُرے خیالات دل میں ڈالتا ہے اور جب پیٹھ پھیر کر جاتی ہے تو یہ حصہ بھی شہوت انگیز ہوتا ہے اور شیطان کو موقع دیتا ہے کہ وہ نفس کو برگشتہ کرے (واللّٰہ اعلم)
(مشکوٰۃ شریف۲۶۸باب النظر الی المخطوبہ) ۔۔۔۔مسلم شریف ج۲ ص ۳۳۶ باب قدر علی ابن آدم حظہ من الزنا وغیرہ) (ابودائود شریف ۱؍۲۹۹)
احیا العلوم میں ہے:
والنساء یر جن متنقبات
یعنی عورتیں نقاب ڈال کر نکلا کرتی تھیں (ج۲ ص ۱۴۸ احیاء العلوم الباب الثالث فی المباشرۃ)
طبعی (قضاء حاجت وغیرہ) اور شرعی (حج وغیرہ) ضرورت سے عورت کو کسی وقت باہر نکلنا پڑے تو قرآنی تعلیم اور ہدایت نبوی ﷺ کوپیش نظر رکھنا ضروری ہوگا کہ۔
(۱)
نگاہیں نیچی رکھیں ۔
قرآن مجید میں ہے
و قل للمومنات یغضضن من ابصار ھن و یحفظن فروجھن و لا یبدین زینتھن۔
یعنی اور آپ مسلمان عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی (عصمت کی) حفاظت کریں اور اپنی زیبائش کو ظاہر نہ کریں ۔ (سورہ نور
(۲)
نقاب کے ساتھ نکلے:
قرآن کریم میں ہے۔
یدنین علیھن من جلابیبھن۔
یعنی چادروں کا نقاب (گھونگٹ ) لٹکا لیں (سورئہ احزاب)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی یں کہ حجتہ الوداع کے موقع پر جب لوگ ہمارے سامنے آجاتے (آمنا
سامنا ہو جاتا) تو ہم منہ پر چادر لٹکالیتیں اور جب سامنے سے چلے جاتے تو ہم منہ کھول دِیا کرتی تھیں۔
فا ذا حاذوا بنا سدلت احداننا جلبا بھا من راسھا علی وجھھا فاذا جاوزنا کشفنا ہ (ابودائود شریف ج۱ ص ۲۶۱ کتاب المناسک باب المحرمات تغطی وجھھا۔
(۳)
بن سنور کر نہ نکلے:
قرآن کریم میں ہے:
و لا تبرجن تبرج الجاھلیۃ الاولیٰ۔
یعنی اور زمانہ جاہلیت کے دستور کے موافق بن سنور کر نہ نکلیں۔احزاب
حافظ ابن ہمام فرماتے ہیں جس جگہ عورت کو جانے کی اجازت ہے تو اس شرط سے اجازت ہے کہ بے پردہ بن سنور کر نہ جائے اور ایسی ہئیت کے ساتھ جائے کہ مردوں کو اس طرف دیکھنے کی رغبت نہ ہو اس لئے کہ خدا پاک نے فرمایا ہے۔ (ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃ الاولیٰ مجالس الابرار ص ۵۶۳
(۴)
میلے کپڑے اور سادے برقعے میں نکلے:
حدیث پاک میں ہے:
ولکن یخر و ھن تفلات
یعنی لیکن عورتوں کو میلے کچیلے کپڑوں میں نکلنا چاہئے۔ (ابودائود ج ۱ ص ۹۱ باب ماجآء فی خروج النسآء الی المسجد
حضرت عمرؓ نے فرمایا:
اعروالنساء یلز من الحجال و انما قال ذلک لا نھن لا یرغبن فی الخروج فی الھیئۃ الرثۃ
یعنی عورتوں کو عمدہ پوشاک نہ دو گھروں میں بیٹھی رہیں گی۔ اور یہ اس لئے فرمایا کہ عورتیں خراب خستہ حال میں باہر نکلنے کی رغبت نہیں کرتیں۔
(احیاء العلوم ۲؍۴۸ الباب الثالث فی المباشرۃ)
(۵)
کوئی خوشبو پائوڈر وغیرہ نہ لگائے:
حدیث شریف میں ہے: کل عین ز انیۃ
یعنی ہر نگاہ (جوبری نیت سے ہو) زنا ہے اور بےشک جس وقت عورت خوشبو لگا کر مردوں کے پاس سے گزرتی ہے زانیہ اور بدکار ہے۔ (مشکوٰۃ ۹۶ باب الجماعۃ وفضلھا
مجالس الابرار یں ہے ٗاگرشوہرکی اجازت سے ضرورۃً نکلے تو پردہ کرکے خراب ہئیت میں نکلے شاندار برقعہ نہ ہو) غیر آباد راستہ تلاش کرے ٗ جہاں آمدورفت کم ہو ٗ سڑکوں اور بازاروں میں سے نہ گزرے اور خوشبو لگا کر بن سنور کر نہ نکلے اور راستہ میں کسی سے بات نہ کرے۔ (ص ۵۶۸
و کا ن الحسن یقول اتدعون نساء کم لیزاحمن العلوج فی الا سواق قبح اللّٰہ من لا یغار۔
یعنی حسن بصریؒ فرماتے تھے
کہ کیا تم اپنی عورتوں ( اور ماں ٗ بہنوں ٗ بیٹیوں ) کو چھوڑ دیتے ہو کہ بازاروں میں گھومتی پھریں اور کافروں سے رگڑ کر چلیں ٗ خداناس کرےاس کا جو غیرت نہ رکھتا ہو۔ (احیاء العلوم ج۲ص۱۴۸،الباب الثالث فی آداب المباشرۃ الخ)
(۶)
سفر میں محرم یا شوہر کا ساتھ ہونا: ۔
آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے۔ جو عورت اللہ اورقیامت کےدن پر ایمان رکھتی ہے اس کےلئے جائز نہیں کہ تین روز کی (تین منزل یعنی ۴۸ میل) یا زیادہ کا سفر کرے مگر اس صورت میں کہ اس کے ساتھ اس کا باپ یا بیٹا یا شوہر یابھائی ہو یا کوئی ذی رحم محرم ہو (صحیح مسلم ۱؍۴۳۴ باب سفر المراۃ مع محرم الی حج ۔۔۔ بعض روایات میں دو دن ٗ بعض میں فقط ایک دن ٗ بعض میں فقط ایک رات ٗ بعض میں فقط تین میل کا ہی حکم آیا ہے ٗ یہ تفاوت فتنہ کے اعتبار سےہے ٗ جس قدر فتنہ وفساد کا اندیشہ زیادہ ہوگا اسی قدر احتیاط کی ضرورت ہوگی۔۔۔۔۔۔
عورت کے جنازہ پر گہوارا (چھتری) اور فن کے وقت قبر پر چاروں طرف سے پردہ حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ایجادہے۔ حضرت فاطمہ ؓ نے وفات کے وقت وصیت فرمائی تھی کہ میرے جنازے کو ڈھانک لیا جائے تاکہ اجنبی مردوں کو میرے قدوقامت وجسامت بدن کا پتہ نہ چلے آپ ؓ کی طبعی شرم وحیانے اس کو برداشت نہ فرمایا حالانکہ جسم کفن میں چھپا ہوا ہوتا ہے اور وفات کے بعد جسم محل شہوت بھی نہیں رہتا اور شرکاء جنازہ بھی اس وقت مردہ دل ہوتے ہیں۔ اور خوف خدا ان پر غالب ومسلط رہتا ہے۔ رسول اللہ ﷺکی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی طبعی شرم وحیا کا یہ حال اوراس زمانہ کی عورتیں ٗ نیم آستین فراک پہنے ہوئے بلکہ نیم عریاں باریک کپڑے اور بعض ساڑھی باندھے ہوئے بن سنور کر خوشبو اور پائوڈر سے آراستہ! کھلے سر کھلے منہ! بازاروں میں میلوں میں سینما اور تفریح گاہوں میں مردوں کے سامنے اپنے حسن وجمال کا مظاہر کرتی پھرتی ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے کیا خوب فرمایا تھا کہ
کاسیات اریات ممیلات مائلات ٗ
بہت سی عورتیں ایسی ہیں جو بظاہر کپڑے پہنے ہوئے ہوتی ہیں لیکن در حقیقت وہ ننگی ہوتی ہیں اور دوسروں کواپنی طرف مائل کرنے اور دوسروں کی طرف مائل ہونے میں بڑی مشاق ہوتی ہیں ۔ ایسی عورتیں جنت کی خوشبو سے محروم ہیں۔ کیا خوب فرمایا اکبرمرحوم نے:
بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پر مردوں کی پڑ گیا
۔۔۔اگر کوئی عورت دائی ہے یا مرد ے کو غسل دینے والی یا اس کا کسی پر حق آتا ہے یا کسی کا اس پر حق آتا ہے تو اجازت سے یا بے اجازت ہر طرح سے جا سکتی ہے اور ان کے سوا غیروں کی ملاقات یا ان کی عیادت یاولیمہ کے لئے جانے کی اجازت نہ دی جائے اور اگر اس نے اجازت دی اور وہ گئی تو دونوں گنہگارہوں گے۔ اجازت کبھی چپ رہنے سے بھی ہوتی ہے یہ خاموشی زبانی اجازت کے مثل ہے کیونکہ بری بات سے منع کرنا فرض ہے خاموش رہنے سے یہ فرض ترک ہوتا ہے اور ترک فرض گناہ ہے۔ م ۹۸ ص ۵۲۲
حضرت علامہ شیخ ابن ہمامؒ فرماتے ہیں جس جگہ عورتوں کو جانے کی اجازت ہے تو اس طرح سے اجازت ہے کہ بن سنور کر نہ جائین ایسی صورت بدل کر جائیں کہ مردوں کو ادھر دیکھنے کی رغبت اور چاہ نہ ہو اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
و لا تبرجن تبرج الجاھلیۃ الاولیٰ
ا ور نہ نکلیں زمانہ جاہلیت کی طرح (۸۹ ص ۵۶۲ ٗ ص ۵۶۸)
فالمرأۃ کلما کانت مخفیۃ عن الرجال کان دینھا اسلم لماروی انہ علیہ السلام قال لابنتہ فاطمۃ ای شئی خیر للمرأۃ قالت ان لا تری رجلا و لا یراھا رجل فاستحسن قولھا و ضمھا الیہ و قال ذریۃ بعضھا من بعض (۹۸ ص ۵۶۳)
اور نبی ﷺ کے اصحاب (رضوان اللہ علیہم اجمعین) دیواروں کے سوراخ اور جھرو کے بند کر دیا کرتے تھے کہ عورتیں مردوں کو نہ جھانکیں (مجالس الابرارم ۵۸ ص ۵۶۳
۔۔ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت سالم رضی اللہ عنہ (پہلے یہ غلام تھے اور تقویٰ وطہارت میں اپنی مثال آپ تھے) کے درمیان پردہ نہ تھا (ان کے نزدیک غلام سے پردہ کرنا ضروری نہ تھا) ایک دن آکر حضرت سالم ؓ نے کہا کہ خدا پاک نے مجھے آزاد کر دیا ہے اس پر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے مبارک باد دی اور ان سے پردہ کر لیا۔ حضرت سالم فرماتے ہیں کہ اس دن کے بعد سے میں نے کبھی حضرت عائشہ کو نہیں دیکھا۔نسائی شریف میں یہ روایت منقول ہے۔
قال سالم کنت اتیھا مکاتباً ما تختفی منی فتجلس بین یدی و تتحدث معی حتی جئتھا ذات یوم فقلت ادعی لی بالبر کۃ یا ام المؤمنین قالت و ما ذ الک فقلت اعتقنی اللّٰہ قالت بارک اللہ لک وارخت الحجاب دونی فلم ارھا بعد ذلک الیوم (نسائی ۱؍۱۴ باب مسح المرأۃ رأسھا
حضور اکرم ﷺ کے خادم خاص حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں جب بلوغت کی حد کو پہنچا (یعنی بلوغت کے آثارنمایاں ہو گئے) تو میں نے صبح حاضر خدمت ہو کر اس کی اطلاع دی آپ ﷺ نے فرمایا کہ اب تم گھر میں عورتوں کے پاس نہ جانا۔
انس رضی اللّٰہ عنہ) لما کان صبیجۃ احتلمت دخلت علیٰ رسول اللّٰہ ﷺ فاخبرتہ ٗ فقال لا تدخل علی النساء فما اتی علی یوم اشد منہ۔ (جمع الفوائد ج ۱ ص ۲۶۹ الغیرۃ والخلوۃ بالنساء والنظرالیھن)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے زیادہ نیک اور پاک باز لڑکا کون ہو سکتا ہے؟ اور ازواج مطہرات دنیا کی مقدس ترین اور افضل ترین عورتیں ہیں اس کے باوجود آپ ﷺ نے اپنے خادم خاص پر پابندی عائد کر دی اور پردہ کا حکم فرمایا۔ آج اس فتنہ کے دَور میں عوام یہ کہتے ہوئے نہیں شرماتے کہ دل صاف ہونا چاہئے رسمی پردہ کی ضرورت نہیں ٗ دل کا پردہ کافی ہے۔ یہ کھلم کھلا شریعت پر اعتراض ہے۔ کیا اس زمانہ کے لوگوں کے قلوب آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کی پاک بازازواج اور پاکیزہ بیٹیوں اور آپ کی معتمد فرمانبردار متقی خادم حضرت انس رضی اللہ عنہ و عنہم اجمعین) سے زیادہ پاک ہو سکتے ہیں؟ (معاذ اللہ)
مشہور بزرگ حضرت شیخ نصیر آبادی رحمہ اللہ سے پوچھا کہ لوگ اجنبیہ عورتوں کے پاس بیٹھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کو دیکھنے میں ہماری نیت پاک ہے۔ انہوں نے فرمایا:
مادامت الاشباح باقیۃً فان الامر والنھی باق و التحلیل و التحریم مخاطب بہ۔
یعنی جب تک جسم انسانی باقی ہیں ٗ امرونہی (شرعی احکام بھی باقی ہیں اور تحلیل و تحریم کے مخاطب ہیں (ابوادرالنوادر ص ۷۰۲
نامحرم مرد و عورت کا ایک دوسرے کو دیکھنا زنا اور فحش کاری کا پہلا زینہ ہے۔ اسی سے تمام خرابیوں ٗ بے حیائی اور بے شرمی کا دروازہ کھلتا ہے اس لئے خدائے پاک نے مسلمان مردوں اور عورتوں کو ہدایت فرمائی ہے کہ بد نظری سے بچتے رہو اورخواہش نفسانی کو کچلتے رہو ٗ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قل للمؤمنین یغصوا من ابصارھم و یحفظوا فروجھم ذلک ازکیٰ لھم ان اللّٰہ خبیر بما یصنعون۔۔۔
۔۔۔اسی طرح عورتوں سے متعلق ارشاد خداوندی ہے:
و قل للمئو منات یغضضن من ابصارھن و یحفظن فروجھن (سورہ نور پارہ نمبر۱۸) ۔۔
۔۔۔اس آیت کریمہ کی تفسیر میں علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں کہ اس آیت میں مومن عورتوں کے دِلوں کی صفائی اور پاکیزگی کے لئے اور مومن مردوں کی غیرت کے لئے، اور مومن عورتوں کو کافرومشرک عورتوں سے ممتاز کرنے کے لئے خدا پاک نے احکام نازل فرمائے ہیں پہلا حکم یہ ہے کہ اپنی نگاہوں کو نیچی ر کھیں یعنی نامحرم مردوں کے دیکھنے سے بچیں ٗ احیاء العلوم میں ہے۔
وزنا العین من کبار الصغائر و ھو یؤ دی علی القرب الی الکبیرۃ الفاحشۃ و ھی زنا الفرج و من لم یقدر علی غض بصرہ لم یقدر علی حفظ دینہ ٗ
یعنی: آنکھ کا زنا صغیرہ گناہوں میں سب سے بڑا گناہ ہے اور یہ گناہ کبیرہ (زنا ٗ لمس وغیرہ) کا سبب بھی بن سکتا ہے ٗ اس لئے جو کوئی اپنی نگاہ پر کنٹرول نہیں کر سکتا وہ اپنے دین کی بھی حفاظت نہیں کر سکتا۔ (احیاء العلوم ج۳ ص ۹۸ بیان ما علی المرید فی ترک التزوج وفعلہ
حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ السلام کا فرمان ہے ٗ
ایا کم و النظرۃ فانھا تزرع فی القب شھوۃ ً و کفی بھا فتنۃً
یعنی جھانکنے سے بچو اس سے دل میں شہوت کا بیج پیدا ہوتا ہے اور فتنہ پیدا ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے ۔ (ایضا)
حضرت دائود علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام سے فرمایا۔ شیر اور سانپ کے پیچھے چلے جانا۔نا محرم عورت کے پیچھے کبھی نہ جانا (کہ یہ فتنہ میں ملوث کرنے میں شیر اور سانپ سے بھی زیادہ خطر ناک ہے)
و قال سید بن جبیر انھا جاء ت الفتنۃ من قبل النظرۃ و لذلک قال لابنہ یا بنی امش خلف الا سدوالا سود و لا تمش خلف المرأۃ ( ایضاً)
حضرت یحییٰ علیہ السلام سے کسی نے پوچھا کہ زنا کا آغاز کہاں سے ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا نامحرم کو دیکھنے اور حرص کرنے سے ٗ اور حضرت فضیل ؒ کا قول ہے کہ ابلیس کہتا ہے کہ نظر (نامحرم کو دیکھنا) میراوہ پرانا تیر ہے کہ میں کبھی اس سے خطا نہیں کرتا ٗ
و قیل یحییٰ علیہ السلام ما بدء الزنی قال النظر و التمنی ۔ و قال الفضیل یقول ابلیس ھو قوسی القدیمۃ و سمھی الذی لا أخطئی بہ یعنی النظر ( ایضاً
حدیث میں ہے: ۔
قال رسول اللّٰہ ﷺ النظر سھم مسھوم من سبھام ابلیس فمن ترکھا خوفاً من اللّٰہ اعطاہ اللّٰہ تعالیٰ ایماناً یجد حلاوتہ فی قلبہ۔
یعنی نامحرم کو دیکھنا ابلیس کے تیروں میں سے ایک زہرآلود تیر ہے ٗ جو اس کو اللہ کے خوف سے چھوڑ دے اللہ تعالیٰ اس کو ایسا ایمان عطا فرماتا ہے جس کی حلاوت وہ اپنے قلب میں پاتا ہے۔ (مشکوٰۃ شریف ص ۲۶۸ باب النظرالی المخطوبہ
نیز حدیث میں ہے۔
عن جریر بن عبداللّٰہ قال سالت رسول اللّٰہ ﷺ عن نظر الفجاء ۃ فامرنی ان اصرف نظری ٗ
حضرت جریربن عبداللہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے آپ ﷺ سے نامحرم عورت پر ناگہانی نظر پڑنے کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں (فوراً) اپنی نگاہ ہٹالوں۔ (مشکوٰۃ شریف ص ۲۶۸ باب النظرالی المخطوبہ)
نیز حدیث میں ہے: ۔
قال رسول اللّٰہ ﷺ لعلی لا تتبع النظرۃ النظرۃ فان لک الاولیٰ ولیست لک الاٰخرۃ۔
حضرت بریرۃ ؓ سے روایت ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کوہدایت
فرمائی کہ اے علی! نگاہ کے بعد نگاہ نہ ڈالو کہ نگاہ اول (بلاارادہ کے اچانک) قابل عفو ہے ٗ دوسری نظر ( جو قصداً ہو) معاف نہیں ۔ (ابودائود ٗ بحوالۂ مشکوٰۃ ص ۲۶۹ ایضاً
احکام القرآن میں اس حدیث پر کلام کرتے ہوئے۔ فرماتے ہیں۔
قال ابوبکر انما اراد النبی ﷺ بقولہ لک النظر الاولیٰ اذا لم تکن عن فصد فاما اذ ا کانت عن قصد فھی و الثانیۃ سواء
یعنی نگاہ اول سے مراد وہ نظر ہے جو اچانک بلاقصد کے ہو لیکن جبکہ بلااجازت شرعی بالقصد ہو تو جس طرح دوسری نظر قابل مؤاخذہ ہے اسی طرح پہلی نظر ہی قابل مؤاخذہ ہے (احکام القرآن ج ۴ ص ۳۸۵ سورۃ النور باب مایجب من غض البصر عن المحرمات
تفسیر مواہب الرحمن میں ایک حدیث نقل کی ہے:
ایاکم والجلوس علی الطرقات
حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے۔ خبر دار ! شارع عام پر نہ بیٹھو ٗ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ اس کے بغیر چارہ کار نہیں (اس لئے کہ لین دین اور تجارتی معاملہ رہتا ہے) تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر مجبوری ہو تو اس شرط پر اجازت ہے کہ راستہ کا حق ادا کرو ٗ صحابہ کرامؓ نے پوچھا راستہ کا حق کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا کہ نظر کو نیچی رکھنا اور اذی (تکلیف پہنچانے) سے بچنا اور سلام کا جواب دینا اور معروف کا حکم کرنا اور منکر سے روکنا وغیرہ وغیرہ (تفسیر مواھب الرحمن ص ۱۵۷ ج ۴ سورہ نور تحت الآیۃ ٗ قل للمومنین یغضوا من ابصارھم و مسلم شریف ص ۲۱۳ ج ۲ باب من حق الجلوس علی الطرق ورد السلام)
حدیث میں ہے۔
لعنہ اللّٰہ النا ظر و المنظور الیہ۔
یعنی اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے نامحرم عورت کو دیکھنے والے پر اور اس پر بھی جس کو دیکھا جائے (مشکوٰۃ شریف ص ۲۷ باب النظر الی المخطوبۃ)
نیز حدیث میں ہے۔
عن جابر ؓ قال رسول اللّٰہ ﷺ ان المرأۃ تقبل فی صورۃ شیطان و تدبر فی صورۃ شیطان۔
یعنی عورت (نامحرم) سامنے آتی ہے تو شیطان کی صورت میں آتی ہے اور پیچھے سے جاتی ہے۔ تب بھی شیطان کی صورت میں ہوتی ہے۔ (مشکوٰۃ شریف ص ۲۶۸ ایضاً
شہوت ابھارنے کے ان جراثیم اور شیطانی شرارتوں سے محفوظ رکھنے کے لئے اور ایمان کی روحانی امراض سے بچانے کے لئے خدا پاک نے ارشاد فرمایا ہے
و قرن فی بیوتکن ٗ
تم اپنے گھروں میں جم کر بیٹھی رہو (سورئہ احزاب پارہ نمبر۲۲)
اور حضور اکرم ﷺ کا مبارک ارشاد ہے ۔
لیس للنسا ء نصیب فی الخروج ا لامضطرۃً ٗ
یعنی عورتوں کو اپنے گھروں سے نہ نکلنا چاہئے مگر جب کہ وہ مجبور اور عاجز ہوں (یعنی طبعی اور شرعی عذر ہو) (طبرانی
حضرت شاہ والی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:۔
ان لاتخرج المرأۃ من بیتھا الالحاجۃ منھا لا تجدمنھا بداً قال ﷺ المرأۃ عورۃ فاذا خرجت استشرفھا الشیطان۔
یعنی! بلا ضرورت شدیدہ عورت کو اپنے گھر سے باہر نہ نکلنا چاہئے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا عورت ستر کی چیز ہے (یعنی چھپانے کی چیز ہے) پس جب گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اس کو تاکتا ہے (یعنی اس کے پیچھے لگ جاتا ہے اور لوگوں کے دلوں میں برے خیالات پیدا کرتا ہے جس کی وجہ سے اس کی عصمت اور آبرو میں خطرہ کا اندیشہ پیدا ہو جاتا ہے (حجۃ اللّٰہ البالغۃ مع ترجمہ نعم اللّٰہ السابغہ۲؍۳۶۵من ابواب تدبیر المنزل ذکرالعورات
مجالس الابرار میں ہے:۔
فالمرأۃ کلما کانت مخفیۃً من الرجال کان دینھا اسلم لماروی انہ علیہ السلام قال لا بنتہ فاطمۃ ای شئی خیر للمرأۃ قالت ان لا تریٰ رجلاً و لا یراھا رجل واستحسن قولھا و ضمھا الیہ و قال ذریۃ بعضھا من بعض و کان اصحاب النبی ﷺ یسد ون الثقب والکوی فی الحیطان لئلا تطلع النساء علی الرجال ٗ
یعنی! عورت جب تک مردوںسے پوشیدہ ہے (چھپی ہوئی ہے) اس کا دین بچا ہوا ہے اس لئے کہ آپ ﷺ نے اپنی بیٹی حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ عورت کے لئے سب سے بڑی خوبی کی بات کیا ہے؟ عرض کیا وہ کسی مرد کو نہ دیکھے اور نہ کوئی اجنبی مرد اس کو دیکھے آپ ﷺ کو یہ جواب بہت پسند آیا اور ان کو اپنے سینے سے لگایا اور فرمایا کہ اولاد ایک ایک سے ہے۔(یعنی باپ کا اثر اولاد میں بھی آتا ہے) اور صحابہ رضون اللہ علیہم اجمعین دیواروں کے سوراخ اور شگاف بند کر دیا کرتے تھے تاکہ عورتیں مردوں کو نہ جھانکیں۔ (مجالس الابرارص۵۶۳ مجلس نمبر ۹۸
دوسری جگہ تحریر فرماتے ہے:
و ما الغیرۃ فی محلھا فلا بد منھا و ھی محمودۃ لما روی انہ علیہ الصلوٰۃ والسلام قال ان اللّٰہ یغار و ان المؤمن یغار ٗ وغیرہ اللّٰہ ان یاتی المومن ما حرم اللّٰہ علیہ و فی حدیث انہ علیہ السلام قال انی لغیور و ما امرء لا یغار الا منکوس القلب والطریق المغنی عن الغیرۃ ان لا یدخل علیھن رجل و لا یخرجن الی الطرقات لا ن خرو جھن یعد من عدم الغیر ۃ فلیزم للرجل ان یمنع زوجتہ عن الخروج من البیت و لا یاذن لھا بالخروج الا فی مواضع مخصوصۃ وھی ما قال صاحب الخلاصۃ نقلاً عن مجموع النوازل یجوز للزوج ان یاذن لھا بالخروج الیٰ سبعۃ مواضع زیارۃ الابوین و عیادتھما و تعز یتھما اواحدھما وزیارۃ المحارم۔ الیٰ قولہ و ان خرجت من بیت زوجھا بغیر اذنہ یلعنھا کل ملک فی السماء و کل شیی ٔ تمرالا الانس و الجن فخروجھا من بیتہ بغیر اذنہ حرام علیھا قال ابن الھمام وحیث ابیح لھا الخروج فانما یباح بشرط عدم الزینۃ و تغییرالھیئاۃ الیٰ ما لا یکون داعیاً الیٰ نظر الرجال واستمالتھم۔
اور وہ غیرت جو اپنے موقع پر ہو وہ تو ضرور ہونی چاہئے کیونکہ روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا بے شک اللہ غیرت کرتا ہے اور بلاشبہ مومن بھی غیرت کرتا ہے اور اللہ کی غیرت یہ ہے کہ مومن ایسا کام کرے جو اللہ نے اس پر حرام کیا ہے اور ایک حدیث میں ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا میں بڑا غیرت مند ہوں ٗ اور کوئی مرد ایسا نہیں ہے جو غیرت نہ کرتا ہو مگر اُلٹے دل والا ٗ (یعنی ایسا شخص جس کا دل بگڑ گیا ہو) اور وہ طریقہ جو بے عزتی سے بچائے وہ یہ ہے کہ عورتوں کے پاس کوئی مرد نہ آئے اور وہ راستوں میں نہ نکلیں کیونکہ ان کا نکلنا بے غیرتی میں شمار ہوتا ہے۔ اس لئے مرد کو لازم ہے کہ اپنی بیوی کو گھر سے باہر نکلنے سے منع کرے۔ اور چند خاص جگہوں کے سوا کسی اور جگہ ان کو جانے کی اجازت نہ دے اور وہ یہ ہیں۔ جن کو صاحب خلاصہ الفتاویٰ نے مجموع النوازل سے نقل کیا ہے‘‘ کہ مرد کو جائز ہے کہ اپنی بیوی کو سات جگہ جانے کی اجازت دے۔ (۱۔۲) ماں باپ کی ملاقات کے لئے (۳۔۴) اور ان کے بیمار پرسی کے لئے (۵۔۶) اور ان دونوں کی یا ایک کی تعزیت کے لئے (۷) اور دیگر محارم کی ملاقات کے لئے۔ اسی طرح میت کو غسل دینے کے لئے بھی جانے کی اجازت ہے ٗ اور دائی (بچہ جنوانے والی) کو بھی اجازت ہے۔ الیٰ قولہ۔ اور عورت خاوند کے گھر سے بغیر اجازت کے چلی گئی تو آسمان و زمین کا ہر ہر فرشتہ اور جس جس چیز پر وہ گذرے سب اس پر لعنت کرتے ہیں سوائے انسان اور جنات کے۔ اور علامہ ابن ہمامؒ نے فرمایا ہے کہ جس جگہ اس کو جانے کی اجازت ہے تو اس شرط سے اجازت ہے کہ زیب وزینت کے ساتھ نہ ہو اور ہئیت ایسی بد ل کر جائے کہ مردوں کو اس کو دیکھنے کی رغبت اور خواہش نہ ہو۔ (مجالس الابرار ص ۵۶۲ مجلس نمبر ۵۸
حضرت حسن بصری علیہ الرحمتہ فرمایا کرتے
’’کیا تم اپنی عورتوں کو چھوڑ دیتے ہو کہ بازاروں میں کافروں سے رگڑ کر (مل کر) چلیں ٗ خدا برا کرے اس شخص کا جو غیرت نہ رکھتا ہو۔ (مذاق العارفین تر جمہ احیاء العلوم ص ۴۶ ج ۲)
وکان الحسن یقول أتدعون نساء کم لیزا حمن العلوج فی الاسواق قبح اللّٰہ من لا یغار (احیاء العلوم ص ۴۸ ج ۲ الباب الثالث فی آداب المباشرۃ الخ
ایسا بے غیرت آدمی دیوث ہے ٗ حدیث میں ہے کہ تین قسم کے لوگ جنت میں داخل نہ ہوں گے ٗ منجملہ ان میں سے ایک دیوث ہے ٗ سوال کیا گیا کہ دیوث کون ہے؟ ارشاد فرمایا کہ جس کو اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ اس کی ماں بہن کے پاس کون آتا جاتا ہے۔ (طبرانی
فتنوں کے ان چور دروازوں ہی کو بند کرنے کے لئے شریعت نے نگاہ پر پابندی عائد کی ہے اور حجاب کا حکم دیا ہے۔ نیز نامحرم کو جھانکتے تاکنے سے دل میں ناجائز میلان اور غبت پیدا ہوتی ہے۔ اور یہی زناکاری کا پہلا زینہ اور سبب ہے اور اسباب زنا بحکم زناہیں اسی لئے قرآن پاک میں تاکیدی حکم ہے۔
لا تقربوا الزنی
زنا کی قریب بھی نہ جائو۔ (سورہ بنی اسرائیل پار ہ نمبر۱۵
رغبت اور محبت سے نامحرم کو دیکھنا ٗ جھانکنا ٗ باتیں کرنا ٗ قریب بیٹھنا ٗ ان کی باتیں سننا ٗ مس کرنا یہ سب زنا کے درجہ میں ہیں اور اس کے اولین سبب ہیں۔ اسی لئے خدا پاک نے اس سے بچنے کا حکم فرمایا۔ حدیث میں ہے۔ آنکھ زنا کرتی ہے اور اس کا زنا غیر کو دیکھنا ہے کان زنا کرتا ہے اور اس کا زنا باتیں سننا ہے اسی لئے جوان عورت کے لئے جائز نہیں کہ وہ اجنبی کو سلام کرے زبان زنا کرتی ہے اور اس کا زنا باتیں کرنا ہے۔ ہاتھ زنا کرتا ہے اور اس کا زنا غیر کو پکڑنااور مس کرنا ہے۔ پائوں زنا کرتا ہے اور اس کا زنا چلنا ہے۔ اور دل خواہش و تمنا کرتا ہے اور پھر شرم گاہ اس کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب۔
العینان زنا ھما النظر ٗ و الا ذنان زنا ھما الأستماع ٗ و اللسان زناہ الکلام ٗ و الیدان زنا ھما البطش ٗ و الرجل زنا ھما الخطیٰ ٗ و القلب یھوی و یتنمیٰ و یصدق ذلک الفرج اویکذبہ (مسلم شریف ص ۳۳۶ ج ۲ باب قدر علی ابن آدم حظہ من الزنا وغیرہ
یہ حکم مردوزن دونوں کے لئے ہے کہ جس طرح مردوں کی نگاہیں اجنبیہ عورتوں پر پڑ کر خیانت کرتی ہیں۔ اسی طرح اجنبیہ کی نگاہیں بھی اجنبی مردوں پڑ کر خیانت کی مرتکب ہوتی ہیں اور جس طرح مردوں کے لئے عورتوں میں کشش اور جاذبیت ہے۔ اسی طرح عورتوں میں بھی مردوں کی طرف رغبت و میلان جذب وکشش چھپی ہوئی ہے اور اس رغبت ومیلان کو اُبھارنے والی چیز نظر بازی وغیرہ ہے اس بنا پر مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کے بارے میں بھی ارشاد خداوندی ہے۔
قل للمومنین یغضوا من ابصارھم الخ۔ و قل للمؤمنات یغضضن من ابصار ھن الخ۔
آپ (ﷺ) مومن مردوں اور مومن عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں (سورہ نورپ ۱۸)
حدیث میں ہے
جو عورت عطر وغیرہ خوشبو لگا کر نکلتی ہے وہ زانیہ ہے (احکام القرآن ٗ نصاب الاحتساب قلمی ص ۵۴ باب ۲۳)
اور حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:
ما ترکت بعدی فتنۃً اضر علی الرجال من النساء
یعنی میرے بعد مردوں کے لئے کوئی فتنہ عورتوں کے فتنہ سے زیادہ مضر اور نقصان دہ نہیں ہے (مشکوٰۃ ص ۲۶۷ کتاب النکاح)
دوسری روایت میں ارشاد ہے
واتقوا النساء فان اول فتنۃ بنی اسرائیل کانت فی النساء۔
عورتوں سے ڈرو کہ کہ بنی اسرائیل میں سب سے پہلا فتنہ عورتوں کی وجہ سے ہوا تھا (مشکوٰۃ شریف ص ۲۶۷ کتاب النکاح
یہ فتنہ کا زمانہ ہے آپ ﷺ نے پیشین گوئی فرمائی ہے۔ یہودو نصاریٰ کی طرح اخیر میں یہ امت بگڑ جائے گی یہاں تک کہ یہودو نصاریٰ میں سے کسی خبیث نے اپنی ماں کے ساتھ زنا کیا ہوگا تو میری امت کے بدترین لوگوں میں ایسے بے غیرت نکلیں گے جو ایسی فحش کاری اور بدفعلی میں مبتلا ہوں گے یہ زمانہ بھی ایسے فتنوں اور بے غیرتی کا ہے
حدیث میں ہے کہ عورت کسی مرد کے ساتھ خلوت میں نہ رہے اگرچہ اس کا باپ ہو کہ شیطانی فتنہ سے امن نہیں ٗ روایت میں ہے کہ حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہا امہات المومنین (غیر حقیقی نائیاں) کی طرف نگاہ نہیں کرتے تھے۔ (تفسیر مواھب الرحمن اردو ص ۱۴۶ سورہ نور
’’معیار السلوک میں ہے
نامحرم عورت سے پردہ نہ ہونا بہت سی خرابیاں پیدا کرتا ہے نفس و شیطان سے نہ کسی کو اطمینان ہوا ہے اور نہ ہو سکتا ہے چنانچہ حضرت عائشہ ؓ و امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما ایک مکان میں یہی دونوں باپ اور بیٹی بیٹھے ہوئے تھے اور یہ دونوں ذات مبارکہ وہ ہیں جن کی پاکیزگی اور بزرگی میں قرآن میں کئی جگہ آیت نازل ہوئی ہیں تو حضرت نبی کریم ﷺ نے ان دونوں (باپ بیٹی) کو تنہا بیٹھا ہوا دیکھ کر یہ فرمایا اے ابوبکر شیطان دُور نہیں ہے۔ تنہا بیٹی کے پاس بھی نہ بیٹھا کرو بلکہ تیسرے آدمی کو ساتھ لیا کرو۔ (معیار السلوک ص ۱۶۴
حق جل محدہ ٗ کا فرمان ہے:
یآیھا النبی قل لا ز واجک وبنا تک و نسآء المومنین یدنین علیھن من جلا بیبھن ذلک ادنی ان یعرفن فلا یوذین۔
اے پیغمبر (ﷺ) اپنے بیبیوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور دوسرے مسلمانوں کی بیبیوں سے کہہ دیجئے کہ (سر سے) نیچے کر لیا کریں تھوڑی سی اپنی چادریں ٗ اس سے جلدی پہچان ہو جایا کرے گی (کہ یہ آزاد عورت ہے) تو آزارنہ دی جایا کریں گی (ترجمہ حضرت اقدس تھانوی رحمہ اللہ۔ سورئہ احزاب پ ۲۲)
جلابیب، جلباب کی جمع ہے۔حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں ۔جلباب ایسی چادر کو کہتے ہیں جس سے پورا جسم چھپ جائے۔
فالجلا بیب جمع جلباب و ھو علی ماروی عن ابن عباس ؓ الذی یستر من فوق الیٰ اسفل (تفسیر روح المعانی ص ۸۸ ج ۲۲)
خمار ( دوپٹہ ٗ اوڑھنی) جو عام حالات اور دائمی استعمال کے لئے ہوتی ہے۔ اور جب بغرض ضرورت گھر سے با ہر جانا ہو تو جلباب (چادر یا جالیدار معروف برقع) کی ضرورت ہوتی ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا مذکورہ آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں۔
تغطی وجھھا من فوق راسھا بالجلباب وتبدی عیناً واحداً۔
یعنی خدا پاک نے مسلمان عورتوں کو حکم دیا کہ اپنے سروں اور چہروں کو ڈھانک کر نکلیں اور صرف ایک آنکھ کھلی رکھیں۔ (تفسیر روح المعانی ص ۸۹ ج۲۲)
اور حضرت ابوعبیدہ سلمانی رحمتہ اللہ علیہ سے اس آیت کی تفسیر پوچھی گئی تو (عملی طور پر) آپ نے اپنا سر اور چہرہ چادر سے چھپا کر بائیں آنکھ کھلی رکھ کر فرمایا یہ ہے اس آیت کی تفسیر اور مراد۔
عن محمد بن سیربن قال سالت عبیدۃ السلمانی عن ھذا لآیۃ فرفع ملحفۃ کانت علہ فتقنع بھاوغطی راسہ کلہ ٗ حتی بلغ الحاجبین و غطی وجھہ ٗ و خرج عینہ الیسریٰ من شق وجھہ الایسر (روح المعانی ص ۸۹ ج ۲۲) تفسیر مظھری ص ۲۵۲ ج ۱۰ اردو ) (تفسیر مواھب الرحمن ص ۱۱۳ ج ۵ سورہ احزاب
حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی قدس سرہ فرماتے ہیں:
روایات میں ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے پر مسلمان عورتیں بدن اور چہرہ چھپا کر اس طرح نکلتی تھیں کہ صرف ایک آنکھ دیکھنے کے لئے کھلی رہتی تھی اس سے ثابت ہوا کہ فتنہ کے وقت آزاد عورت کو چہرہ بھی چھپا لینا چاہئے (فوائد عثمانی ص ۵۶۸ سورئہ احزاب
احیاء العلوم میں ہے:
و النسا ء یخرجن متنقبات ٗ
یعنی عورتیں حضور اکرم ﷺ اور صحابہ کے زمانہ میں چہروں پر نقاب ڈال کر باہر نکلتی تھیں یعنی پردہ نشین تھیں۔ (احیاء العلوم ص ۴۸ ج ۲
احکام القرآن میں ہے
قال ابوبکر فی ھذہ الاٰیۃ دلالۃ علی ان المرأۃ الشابۃ ما مور بسترو جھھا عن الا جنبیین
یعنی یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ جوان عورت کے لئے ضروری ہے کہ غیر محرم مرد سے اپنے چہرہ کو چھپائے (احکام القرآن۳؍۴۵۸ سورۃ احزاب آخرذکرحج النسآء)۔۔۔الخ
ابودائود شریف میں ہے ایک اور حدیث ہے:۔
قال جاء ت امرأۃ الی النبیﷺ یقال لھا ام خلاد و ھی متنقبۃ تسئال عن ابنھا و ھو مقتول فقا ل لھا بعض اصحاب النبیﷺ جئت تسئالین عن ابنک و انت متنقبۃ فقالت ان ارزأ فلن ارزا حیائی۔
یعنی ایک غزوہ میں ایک نوجوان کی شہادت کی خبر پھیلی تو اس کی ماں جن کا نام ام خلاد ہے اس واقعہ کی تحقیق کے لئے (پریشان و پراگندہ حالت میں ) نقاب ڈال کر (یعنی پردہ میں) آئیں کسی نے کہا کہ ایسی پریشانی کی حالت میں بھی نقاب (پردہ) نہ چھوڑا ٗ انہوں نے جواب دیا میں نے لڑکا گم کیا ہے غیرت گم نہیں کی ہے۔ (ابودائودشریف ص ۳۴۴ ج ۱ کتاب الجھاد باب فصل قتال الروم الخ)
اندازہ لگائیے ان کے دل میں پردہ کی کتنی اہمیت تھی۔
اسی کے بارے میں شرعی پردہ کیوں؟ کیسے؟ صفحہ نمبر ۶۰۔۶۱ پر لکھا ہے:
مصیبت کے وقت بھی پردہ :
اس حدیث سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ حضرت اُمِّ خلاد نے موقع پر موجود تمام لوگوں سے جن میں حضور اقدس ﷺ بھی شامل تھے ٗ نقاب ڈال کر پردہ کیا وہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرات صحابیات میں حیاء کا کس قدر بلند معیار پیدا ہو چکا تھا کہ اس خاتون نے کسی بھی عورت کے لئے دنیاوی اعتبار سے سب سے بڑے صدمے کے موقع پر بھی شرعی احکام کی پوری پوری پاسداری کی ٗ اور جب ایک شخص نے یہ ماجرا دیکھ کر حیرت کا اظہار کیا تو انہوں نے فرمایا کہ اگر مجھ پر بیٹے کے جاتے رہنے کا صدمہ پڑا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میری حیا بھی جاتی رہی گویا حیا جانے کی مصیبت بیٹے کے مرنے کی مصیبت سے کم نہیں۔
نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ پردہ کا حکم ہر حال میں لازم ہے ٗ خواہ رنج ہو یا خوشی کسی صورت میں بھی نامحرم مرد کے سامنے آنا جائز نہیں اب جو بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ رنج وغم اور مصیبت یا شادی بیاہ اور خوشی کے وقت انسان احکامِ شریعت سے مستثنیٰ ہے اور شریعت کی پابندی اس پر لازم نہیں رہتی بڑی جہالت ہے۔اب بعض عورتوں کا جنازہ کے گھر سے نکلنے کے وقت دروازوں پر آجانا بلکہ قبرستان تک جانا یا بیاہ شادی کے وقت پردہ کا اہتمام نہ کرنا یا سفر میں پورے طور پر دہ نہ کرنا سب کام ناجائز ہیں۔نیز اس حدیث میں یہ بھی واضح ہو گیا کہ شریعت میں چہرے کا پردہ بھی لازم ہے ۔ کیونکہ اس عورت نے چہرے پر نقاب ڈال رکھی تھی
فتاوی رحیمیہ میں مذید لکھا ہے کہ:
ام المؤمنین حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے بھائی جو ان کے باپ کی باندی سے پیدا ہوئے تھے جن کے متعلق دوسرے کے دعویٰ تھا کہ یہ میرے نطفہ سے ہے آپ ﷺ نے اس کا دعویٰ رد کر دیا اور حضرت سودہ کا بھائی قرار دیا۔ تاہم حضور اکرم ﷺ نے حضرت سودہ ؓ کو احتیاطاً حکم دیا۔ احتجبی منہ ٗ اس سے پردہ کرو۔ چنانچہ روایات میں آتا ہے فمارأھا حتی لقی اللّٰہ ٗ یعنی حضرت سودہؒ نے اور اس لڑکے نے اس احتیاطی امر پر اس شدت سے عمل کیا کہ اس لڑکے نے مرتے دم تک اپنی بہن حضرت سودہ ؓ کو نہیں دیکھا۔ (مشکوٰۃ شریف ص ۲۸۷ ٗ باب اللعان
حدیث میں ہے
قال رسول اللّٰہ ﷺ ایاکم والدخول فقال رجل یا رسول اللّٰہ ارأیت الحمو قال الحموالموت۔
یعنی آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ اجنبیہ عورتوں کے پاس جانے سے بچو۔ ایک صحابی نے عرض کیا (دیور ٗ جیٹھ) کا بھی یہی حکم ہے ؟ فرمایا کہ دیور تو موت ہے۔ یعنی جس طرح موت سے ڈرتے اور بھاگتے ہیں۔ اسی طرح دیور جیٹھ وغیرہ شوہر کے خویش و اقارب سے بھی ڈرنا یعنی پردہ کرنا چاہئے (مشکوٰ ۃ شریف ص ۶۸ ۲ باب لنظرالی لمخطوبتہ)
پیغمبر خدا ﷺ جسے موت سے تعبیر فرماتے ہیں آج امت کی اکثریت اسے حیات سمجھتی ہے ۔ دیور ٗ جیٹھ ٗ بہنوئی ٗ نندوئی ٗ خالہ زاد ٗ چچا زاد ٗ ماموں زاد ٗ بھائی بہن وغیرہ سے پردہ کرنے کو ضروری نہیں سمجھا جاتا بلکہ معیوب شمار کیا جاتا ہے ٗ ان سے بے حجاب ملنے اور ہنسی مذاق کرنے اور خلوت میں اُٹھنے بیٹھنے ٗ باتیں کرنے ٗ اور ایک ساتھ سفر کرنے کو خوبی اور خوش اخلاقی سمجھا جاتا ہے۔ گناہ کریں اور اسے کمال سمجھیں اس سے زیادہ دلیری اور کیا ہوسکتی ہے؟ اس طرح آنحضرت ﷺ کے فرامین کی علی الاعلان مخالفت کی جارہی ہے۔ اہل علم اور دیندار طبقہ بھی اس میں شامل ہے افسوس
چوں کفر از کعبہ بر خیزد کجا ماند مسلمانی
بجائے اس کے کہ اپنے جرم کا اعتراف کرتے اور اپنے معاشرہ غلطی کی اصلاح کی فکر کرتے ’چہ دلاوراست دزدے کہ بکف چراغ دارد‘ کا مصداق بنتے ہوئے غلط دلائل پیش کئے جاتے ہیں اور غلط دعویٰ کیا جاتا ہے کہ دل کا پردہ کافی ہے معروف پردہ کی ضرورت نہیں گویا اپنی ذات کو حضور اکرم ﷺ بنات طاہرات ٗ ازواج مطہرات اور صحابہ کرام ؓ رضی اللہ عنہم اجمعین سے زیادہ پاکباز تصور کرتے ہیں۔ اور یوں سمجھتے ہیں کہ ہم ان حضرات کی بہ نسبت اپنے قلوب پر زیادہ قابو رکھتے ہیں۔ نعوذ باللّٰہ من ھذہ الھفوات۔
حدیث پاک میں ہے کہ
ایک مرتبہ رسول مقبول ﷺ کی نگاہ کسی اجنبیہ پر پڑی اور دل متاثر ہوا اس کو دُور کرنے کے لئے فوراً گھر تشریف لائے اور زوجہ مطہرہ حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا سے خلوت فرمائی اور مصاحبت کی اور فرمایا کہ جس کو بھی ایسا واقعہ پیش آئے تووہ اپنی گھر والی (زوجہ) کے پاس چلا جائے اس لئے کہ اس کے پاس بھی وہی چیز ہے جو اس کے پاس ہے۔
عن ابن مسعود رضی اللّٰہ عنہ قال رأی رسول اللّٰہ ﷺ امرأۃ فاعجبتہ فاتی سودۃ ھی تصنع طیباً عندھا نساء فاخلینہ فقضی حاجتہ ثم قال ایمارجل رأی امرأۃً تعجبہ فلیقم الیٰ اھلہ فان معھا مثل الذی معھا (مشکوٰۃ شریف ص۲۶۹)
یہ واقعہ خاص امت کی تعلیم کے لئے ہے کہ جب کسی کو ایسی بات پیش آجائے تو یہ عمل کرکے طبیعت کو تسکین دے ٗ عورت کو دیکھ کر طبیعت کا متاثر ہونا قدرتی اور فطرت اِنسانی ہے اور اسی لئے وہ نظر جو پہلی مرتبہ بلاقصد کے ہو معاف ہے ٗ قابل مؤاخذہ نہیں ہے یہ فطری اور جنسی میلان جو طبیعت انسان میں ایک دوسرے کے لئے ہے یہ خدا کی پیدا کردہ ہے اس نے اپنی حکمت اور مصلحت کے ماتحت خاص مقصد سے اس کو نفس انسانی میں پیدا فرمایا ہے ٗ اس کا جائز استعمال ثواب کا باعث ہے اور ناجائز استعمال عذاب کا موجب ہے ٗ حاصل یہ کہ جب آنحضرت ﷺ کا قلب مبارک متاثر ہوا تو ہمارے دِلوں کی کیا حیثیت ہے؟ لہٰذا جہاں جس قدر فتنہ کا اندیشہ ہوگا وہاں اسی قدر پردے کا سخت حکم ہوگا۔۔۔الخ
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ فرماتے ہیں:۔
جان لو کہ جس طرح عورتوں کی طرف دیکھنے سے مردوں کو ان کا عشق اور ان کے ساتھ محبت ہو جاتی ہے اسی طرح عورتوں کو بھی مردوں کے دیکھنے سے عشق و محبت پیدا ہوتی ہے۔ (حجۃ ا للّٰہ البالغہ ج ۲ ص ۳۴ ۴ من ابواب تدبیر المنزل ذکر العورات
ادھر جو پردہ نہ ہو سکے گا
ادھر بھی تقوی نہ ہو سکے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
© Copyright 2025, All Rights Reserved