امداد الفتاوی سے اقتباس
امداد الفتاویٰ جلد چہارم ،
عورتوں کے پردے اورنظرولمس وغیرہ کے احکام
ص۱۸۰:
اس سے معلوم ہوا کہ یہ حکم فتنہ کے سبب سے ہوا ٗ تو جو حکم کسی علّت سے ہوتا ہے جب وہ علّت پائی جائے گی حکم بھی ضرور پایا جائے گا ٗ پس جب پردہ کا حکم بہ علّت خوف فتنہ ہو ا تو جہاں خوف و اندیشہ فتنہ ہو گا جیسے جوان عورت میں اس پر یہ حکم بھی ضرورواجب ہوگا ٗ اگر نہ کرے گی تارک واجب اور گنہگار ہوگی ٗ البتہ جہاں احتمال فتنہ کا نہ ہو جیسے ساٹھ ستّر برس کی بُڑھیا تو اس پر یہ حکم بھی واجب نہیں ٗ اور اگر وہ پردہ نہ کرے تو گنہگار نہ ہوگی ٗ ہاں تارک سنت ہے اور واجب مصلحۃً کے یہ معنی نہیں کہ لوگوں نے مصلحت دیکھ کر واجب کر دیا ٗ بلکہ یہ معنی ہیں کہ شریعت نے اس کا وجوب ایک مصلحت پر مبنی رکھا ہے جب وہ مصلحت ہو گی وجوب بھی رہے گا ٗ جب وہ مصلحت نہ ہوگی وجوب بھی نہ رہے گا ٗ جیسا پردے میں مصلحت رفع شروفتنہ ہے وجودہ بوجود ھا و عدمہ بعدعھا بخلاف دیگر واجبات مطلقہ کے کہ اُن میں حکم قائم مقام علّت کے ہو جایا کرتا ہے۔ کما لا یخفے علی من لہ ادنی مسکۃ فی الفقۃ ھذا ما عندی ٗواللہ اعلم۔
ص۱۸۱:
پس جو عورتوں کو گھروں میں بیٹھے رہنے پر مجبور کرے اور چار دیواری سے نکلنے نہ دے اور بغیر برقعہ کہیں آنے جانے سے روکے وہ بالکل قرآن وحدیث وفقہ پر عامل ہے اور اس شخص کو مفاسد سے روکنے کا اجر عظیم ملے گا ٗ اور مغلا ق الشرومفتاح الخیر کا مصداق ہو گا۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم ۔
ص ۱۳۷:
تفصیل در حرمت زیور باجہ دار
سوال: (۱۵۰) باجہ کا زیور عورتوں کو پہنانادرست ہے یا نہیں۔ مثلاً پازیب وچوڑیاں وغیرہ کے ٗ اور نابالغ لڑکیوں کو باجہ کا زیور پہنانا درست ہے یا نہیں؟
الجواب:
عن بنانۃ مولاۃ عبدالرحمٰن بن حبان الانصاری کانت عند عائشۃ از دخلت علیھا بجاریۃ وعلیھا جلاجل یصوتن فقالت لا تدخلنھا علی الا ان تقطعن جلاجلھا سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول لا تدخل الملئکۃ بیتافیہ جرس رواہ ابودائود کذافی المشکوٰۃ ج ۲ ص ۳۷۱
وقال تعالیٰ و لا یضربن بارجُلھن لیعلم ما یخفین من زینتھن۔
حدیث صراحتہً اس پر دال ہے کہ جن زیوروں میں خود باجہ ہے اُس کا پہننا بڑی عورت اور ان کو سب کو ناجائز ہے ٗ اور آیت بعد تامل اس پر دال ہے کہ جن زیوروں میں خود باجہ نہ ہو مگر دوسرے زیور سے لگ کر بجتے ہوں اُن کا پہننا درُست ہے مگر اُن کو پہن کر ایسی طرح چلنا کہ لگ کر آوازدیں یہ درست نہیں۔
اسی طرح کا ایک فتوی فتاوی حقانیہ ج۲ ص۴۱۱ پر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
© Copyright 2025, All Rights Reserved