حضرت تھانوی رحمہ اللہ تعالی کے مواعظ
بسلسلہ خطبات حکیم الامت جلد ۲۰ بنام حقوق الزوجین سے اقتباس
حوالہ
مندرجہ ذیل نکات حضرت تھانوی رحمہ اللہ تعالی کے مواعظ بسلسلہ خطبات حکیم الامت جلد ۲۰ بنام حقوق الزوجین جدید کمپیوٹر ایڈیشن مطبوعہ ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان سے لئے گئے ہیں ۔اس کتاب میں دس مواعظ ہیں۔
ص ۲۶۔۲۷:
عورت کا کمال تو یہی ہے کہ اس کو اپنے گھر کے سوا اور کسی جگہ کا رستہ معلوم نہ ہو نہ کسی شہر کی اسے خبر ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بس عورتوں کو دین تو پڑھائیں مگر جغرافیہ فلسفہ ہر گز نہ پڑھائیں باقی اخبار و ناول پڑھانا تو عورتوں کے زہر قاتل ہے۔ یہ نہایت سخت مضر ہے اس سے بعض دفعہ عورتوں کی آبرو برباد ہو جاتی ہے۔ اسی طرح مستورات کو باہر پھرنے والی عورتوں سے بھی بہت بچانا چاہئے۔ خصوصا شہروں میں جو یہ رواج ہے کہ لڑکیوں کو میمیں گھر پر آکر پڑھاتی ہیں اس کو سختی سے بند کر دینا چاہئے ۔میں کان پور میں سنا کرتا تھا کہ آج فلاں عورت بھاگ گئی اور کل فلاں کی بیٹی بھاگ گئی اور یہ صرف اسی کا نتیجہ تھا کہ عورتوں کو پڑھانے کے لئے میم گھر پر آتی تھی تو یہ ہر گز نہ چاہئے ۔اسی طرح شرفاء نے کبھی اس کو بھی پسند نہیں کیا کہ لڑکیوں کیلئے زنانہ مدرسہ ہو ،قصبات میں لڑکیاں عموماً لکھی پڑھی ہوتی ہیں مگر سب اپنے اپنے گھروں پر تعلیم پاتی ہیں ۔مدرسہ میں کسی نے بھی تعلیم نہیں پائی ۔گھروں پر تعلیم پانے سے لڑکیو ں کا کسی طرح کا نقصان نہیں ہوتا کیونکہ پڑھانے والی بھی نیک اور پردہ نشین ہوتی ہے اور لڑکیاں بھی پردہ ہی میں رہ کر تعلیم پاتی ہیں ۔باقی یہ جو آج کل زنانے اسکول ہوئے ہیں تجربے سے معلوم ہوئے کہ یہ بہت ہی مضر ہیں ۔
ص۲۸:
ضرور ت حیاء :
صاحبو!عورتوں کو اس طرح رکھنا چاہئے کہ محلہ والوں کو بھی خبر نہ ہو کہ اس گھر میں کتنی عورتیں ہیں اور ہیں بھی یا نہیں ؟ اسی میں آبرو کی خیر ہے۔۔۔ عورت کیلئے یہی مناسب ہے کہ اس کی خبر اپنے گھر والوں کے سوا کسی کو بھی نہ ہو۔ہمارے یہاں ایک رسم یہ بھی ہے اور مجھے پسند ہے کہ لڑکیوں کا مردوں سے تو پردہ ہوتا ہی ہے غیر عورتوں سے بھی ان کا پردہ کرایا جاتا ہے چنانچہ نائن یا دھوبن یا کنجڑن وغیرہ جہاں گھر میں آئیں اور سیانی لڑکیاں فوراًپردہ میں ہو گئیں اس طریقہ سے ان میں حیاء و شرم پوری طرح پیداہو جاتی ہے ۔بیباکی اور دیدہ چشمی نہیں ہونے پاتی ۔پہلے لوگوں نے اس قسم کی بعض حکمت کی باتیں ایجاد کی تھیں سو واقعی ان میں بڑی مصلحت ہے
ص۲۹:
تو صاحبو!جس کا نام سلیقہ رکھا گیا ہے وہ تو بدوں ان باتو ں کے آتا نہیں مگر اس سلیقہ کے ساتھ عورتوں کی حیاء اور عفت و اطاعت سے ہاتھ دھولینا چاہئے اور اگر حیا اور عفت و اطاعت چاہتے ہو تو یہ جواہر تو ان ہی عورتوں میں پائے جاتے ہیں جن کو تم بد سلیقہ اور بے تمیز کہتے ہو اور قاعدہ ہے
من ابتلی ببلیتین فلیخترا ھو نھما
جو شخص دو بلائوں میں پھنس جائے اسے آسان صورت اختیار کرنا چاہئے۔ اب تم خود دیکھ لو کہ سلیقہ سکھا کر عورتوں کی آزادی اور بے حیائی اور دیدہ چشمی پر صبر آسان ہے یا بے سلیقہ رکھ کر تھوڑی سی بدتمیزی پر صبر آسان ہے سو عقلا اور شرفاء کے نزدیک تو بے تمیزی ہی صبر کر لینا آسان ہے۔ شریف آدمی عورت کیآزاد ی اور دیدہ چشمی پر ہر گز صبر نہیں کر سکتا۔
ص ۳۷:
بس ان کی وہ شان ہے جو حق تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے ۔
وَالمُحصَنَاتِ الغَافِلاَتِ المُؤمِنَاتِ ۔
یعنی پاک دامن ہیں اور بھولی ہیں چالاک نہیں ہیں ۔ اس میں غافلات کا لفظ ایسا پیارا معلوم ہوتا ہے کہ واقعی نقشہ کھینچ دیا۔ اور یہ عفت عورتوں کے اندر پردہ کی وجہ سے ہوتی ہے کہ ان کو اپنی چار دیواری کے سوا دنیا کی کچھ خبر نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔تو صاحبو !میں کہتا ہوں کہ حق تعالیٰ نے عورتوں کو مو قع مدح میں بے خبر فرمایا ہے تو ہزار خبرداریاں اس بے خبر ی پر قربان ہیں۔ جب حق تعالی عورتوں کے بھولے پن اور بے خبری کی تعریف فرماتے ہیں تو سمجھ لو اسی میں خیر ہے اور اس خبرداری میں خیر نہیں جس کو تم تجویز کرتے ہو۔
ص۴۹:
بعضے آدمی اپنی لڑکیوں کو آزاد بیباک عورتوں سے تعلیم دلاتے ہیں ۔یہ تجربہ ہے کہ ہم صحبت کے اخلاق و جذبات کا آدمی میں ضرور اثر آتا ہے ۔خاص کر جب وہ شخص ہم صحبت ایسا ہو کہ متبوع اور معظم بھی ہو اور ظاہر ہے کہ استاد سے زیادہ ان خصوصیا ت کا کون جامع ہو گا۔ تو اس صورت میں وہ آزادی و بیباکی ا ن لڑکیوں میں بھی آوے گی ۔ اور میری رائے میں سب سے بڑھ کر جو عورت کو حیا اور انقباض طبعی ہے اور یہی مفتاح ہے ،تمام چیزوں کی۔ جب یہ نہ رہا تو اس سے پھر نہ کوئی خیر متوقع ہے نہ کوئی شرمستبعد ہے ہر چند کہ اذافاتک الحیاء فافعل ماشِئت حکم عام ہے ،لیکن میرے نزدیک ماشئت کا عموم نساء کیلئے بہ نسبت رجال کے زیادہ ہے اس لئے کہ مردوں میں پھر بھی عقل کسی قدر مانع ہے اور عورتوں میں اس کی بھی کمی ہوتی ہے اس لئے کوئی مانع ہی نہ رہے گا۔اسی طرح اگر استانی ایسی نہ ہو لیکن ہم سبق اور ہم مکتب لڑکیاں ایسی ہوں تب بھی اسی کے قریب مضرتیں واقع ہوںگی۔
ص۵۰:
ایک لڑکیوں کا عام زنانہ اسکول بنانا اور مدارس عامہ کی طرح اس میں مختلف طبقات اور مختلف خیالات لڑکیوں کا روزانہ جمع ہونا گو معلمہ مسلمان ہی اور یہ آنا ڈولیوں ہی میں ہو اور گو یہاں آکر بھی پردہ ہی کے مکان میں رہنا ہو لیکن تاہم واقعات نے دکھلا دیاہے اور تجربہ کرا دیا ہے کہ یہاں ایسے اسباب جمع ہوجاتے ہیں جن کا ان کے اخلاق پر برُا اثر پڑتا ہے ۔اور صحبت اکثر عفت سوز ثابت ہوئی ہے اور اگر استانی بھی کوئی آزاد یا مکار مل گئی تو کریلہ اور نیم چڑھا کی مثال صادق آجاتی ہے اور دوسر ی جزئی یہ کہ اگر کہیں مشن کی میم سے روزانہ یا ہفتہ وار نگرانی تعلیم یا صنعت سکھلانے کے بہانہ اختلاط ہونے لگا تو آبرو کی خیر ہے اور نہ ایمان کی۔مگر افسوس صد افسوس کہ بعض لوگ ان آفات کومایہ افتخار سمجھ کر خود اپنے گھر وں میں بلاتے ہیں میرے نزدیک تو ان آفات مجسمہ سے بچی تو بچی اور تابع ہو کر تو کیا ذکر کسی بڑی بڈھی مسلمان عورت کا متبوع ہو کر عمر بھر میں ایک بار ہمکلام ہونا خطرناک ہے۔
ص۶۸ :
اور ایک بات خاص ایسی ہے جس کی طرف اکثر عورتیں تو کیا خاص خاص مرد بھی توجہ نہیں کرتے وہ یہ کہ جن مواضع جسم کا چھپانا محرم مر د سے فرض ہے کافر عورتوں سے بھی ان کا چھپانا فرض ہے مثلاً سر کا کھولنایا گلا کھولنا محرموں کے سامنے جائز نہیں ان مواضع کا کھولنا کافر عورت کے سامنے بھی بلا ضرورت معالجہ کے حرام ہے البتہ اگر ان مواضع کو علاج کی غرض سے کھولنا پڑے تو جائز ہے لیکن بلا ضرورت ہر گزنہ کھولنا چاہئے ۔
ص ۶۹:
کافر عورتوں کے سامنے گلا اور سر اور کلا ئیاں اور پنڈلیاں کھولنا جائز نہیں ،اس میں بکثرت مستورات مبتلا ہیں وہ یہ سمجھتی ہیں کہ عورتوں سے کیا پردہ ؟ حالانکہ شریعت میں کافر عورتوںکا حکم مثل اجنبی مرد ہے میموںسے تو ان کو کبھی کبھار ہی واسطہ پڑتا ہے مگر اکثر بھنگنوں، چماریوں یا کنجڑیوں یا پٹونوں سے واسطہ پڑتا ہے یہ عورتیں رات دن گھر میں گھسی رہتی ہیں ان سے بہت کم احتیاط کی جاتی ہے سو خوب سمجھ لو کہ یہ عورتیں مثل اجنبی مرد کے ہیں ان کے سامنے بدن کا کھولنا ایساہی ہے جیسا کہ غیر مرد وں کے سامنے بدن کھولناپس ان سے تمام بدن کو احتیاط کے ساتھ چھپائو صرف منہ اور قدم اور گٹے تک ہاتھ کھولنا ان کے سامنے جائز ہے باقی تمام بدن کا چھپانافرض ہے خصوصاً سر کھول کر گھر میں پھرنے کا عورتوں کو زیادہ مرض ہے تو ان عورتوں کے آنے کے وقت تمام سر کو چھپالیناچاہئے کہ بال تک بھی ان کو نظر نہ آویں
ص۷۱:
یوں تو عورتوں میں زیور کپڑے کی حرص طبعی طور پر ہوتی ہی ہے لیکن آپس میں ملنے ملانے سے یہ حرص اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ان کا آپس میں ملنا جلنابڑا غضب ہے ایک دوسری کو دیکھ کر رنگ پلٹتی ہے اگر کسی کو خداتعالیٰ نے زیور اور کپڑا حیثیت کے موافق دے رکھا ہو تو وہ اسی وقت تک خوش ہے جب تک برادری کی بہنوں میں نہ جائے اور جہاں برادری میں نکلناہوا پھر ان کی نظر میں اپنا زیور اور کپڑا حقیر معلوم ہونے لگتا ہے دوسروں کو زیور دیکھ کر ان کے دل للچاتا ہے کہ ہمارے پاس بھی ایسا ہی ہونا چاہئے اور اس میں اپنی حیثیت پر بھی ان کو نظر نہیں ہوتی کہ جس پاس ہم سے زیادہ زیور ہے اس کی حیثیت کیا ہے جس کے مرد کی آمدنی پچاس روپے ماہوار ہے وہ بھی برابری کرتی ہے اس کی جس کے مرد آمدنی ہزار روپیہ ماہوار ہے۔
ص ۷۲:
قرآن شریف میں عورتوں کو حکم ہے ۔
وَقَرنَ فیِ بُیُوتِکُنَّ
کہ تم اپنے گھروںمیں جم کر بیٹھی رہو
اس میں تقسیم الآحَاد عَلَی الآ حَاد ہے جس سے مطلب حاصل ہواکہ ہر عورت اپنے گھر میں جم کر بیٹھی رہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کیلئے اصلی حکم یہی ہے کہ وہ اپنے اپنے گھروں سے باہر نہ نکلیں نہ عورتوں سے ملنے کے لئے نہ مردوں سے ملنے کے لئے ۔پھر آخر کچھ تو بات ہے جو حق تعالیٰ نے عورتوں کو گھرمیں رہنے کا حکم دیا ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گھر سے باہر نکلناان کے لئے مضر ہے (لیکن مواقع ضرورت اس سے متشنیٰ ہیں ) پس جس کو ملنے جلنے سے یہ ضرر ہوتا ہو اس کے لئے یہی حکم ہو گا کہ وہ کسی سے نہ ملے اپنے گھرہی بیٹھی رہے ۔ ہاں جس کو ضرر نہ ہوتا ہو وہ اپنے خاوند کی اجازت سے دوسروں کے گھر جا سکتی ہے۔
ص ۹۲ ۔ ۹۳:
باریک کپڑے پہن کر محارم کے سامنے آنا بھی جائز نہیں کیونکہ محارم سے علاوہ ماتحت الازار کے پیٹ اور کمر اور پہلو اور پسلیوں کو چھپانا بھی فرض ہے پس ایساباریک کرتہ پہن کر محارم کے سامنے آنا بھی جائز نہیں جس سے پیٹ یا کمر یا پہلو یا پسلیاں ظاہر ہوں یا ان کا کوئی حصہ نظر آتا ہو شریعت نے تو محارم کے سامنے آنے میں بھی اتنی قیدیں لگائی ہیں اور آج کل کی عورتوں نا محرموں کے سامنے بھی بیباکانہ آتی ہیں گویا شریعت کا پورا مقابلہ ہے۔بیبیو! پردہ کا اہتمام کرو اور نامحرم عزیزوں کے سامنے قطعاًنہ آئو اور محارم کے سامنے احتیاط سے آئو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بوجہ خوف فتنہ کے غیر محارم کے سامنے کشف وجہ سے وجوباً منع کیا جا تا ہے۔۔۔ ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الغرض عورتوں کو نا محرم عزیزوں سے گہراپردہ کرنا چاہئے ،ہاں جس گھر میں بہت سے آدمی رہتے ہوںجن میں بعض نامحرم ہوں اور بعضے محر م اور گھر تنگ ہو ، اور پردہ کرنے کی حالت میں گزر مشکل ہو۔ ایسی حالت میں نامحرم عزیزوں سے گہر ا پردہ کرنے کی ضرورت نہیں اور نہ ایک گھر میں اس طرح نبا ہ ہو سکتا ہے اس صورت میں نامحرموں کے سامنے بقدر ضرورت چہرہ کا کھولنا جائز ہے مگر باقی تمام بدن سر سے پیر تک لپٹاہوا ہونا چاہئے ۔کفوں کے چاک سے ہاتھ نہ جھلکیں۔گربیان کھلا ہوا نہ رہے بٹن اچھی طرح لگے ہوئے ہوں تاکہ گلا اور سینہ نہ جھلکے ،دوپٹہ سے تمام ستر لپٹا ہواہو کہ ایک بال بھی باہر نہ رہے ۔اس طرح بدن کو چھپا کر ان کے سامنے منہ کھول کر گھر کا کام کاج کر سکتی ہیں۔(اور بہتر یہ ہے کہ ایسی حالت میں بھی گھونگھٹ کی عاد ت رکھیں کھلم کھلا ان کے سامنے چہرہ ظاہر نہ کریں ۱۲ جامع ) اور یہی حکم کافرعورتوں کا ہے کہ ان کے سامنے صرف چہرہ اور ہاتھ اور پیر کھولنا جائز ہے باقی تمام بدن کاان سے چھپانا واجب ہے کہ سر کا بال بھی ان کے سامنے نہ کھلے ،عورتیںبھنگنوں اور چماریوں سے بالکل احتیاط نہیں کرتیں حالانکہ ان سے بھی بجزوجہ اورکفین اور قدمین کے باقی بدن کا شرعاً ویسا ہی پردہ جیسے نامحر م مردوں سے۔
ص ۱۳۸۔ ۱۳۹:
اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ صاحب پردہ میں بھی فتنہ ہو جاتا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ وہ بھی پردہ میں کوتاہی کی وجہ سے ہوتا ہے یعنی پردہ میں کچھ بے پردگی ہوتی ہے۔ تب فتنہ ہوتاہے اور اگر پردہ میں ذرا بے پردگی نہ ہوتو کوئی وجہ فتنہ کی نہیں ہے اورہر چند کہ پردہ فطری شئے ہے غیر ت مند حیادار طبیعت کا خود یہ تقاضاہے عورتوں کو پردہ میں رکھا جائے کوئی غیو ر آدمی اس کو گوارہ نہیں کر سکتا کہ اس کی بیوی کو تمام مخلوق کھلے منہ دیکھے اور شریعت نے فطریات کا خاص اہتمام نہیں کیا چنانچہ پیشاپ و نجاست سے تو بحث کی ہے یہ کہیں حدیث و قرآن میں نہیں آیا کہ پیشاپ پینا حرام یا پاخانہ کھانا حرام ہے کیونکہ اس سے تو طبائع کو خود ہی نفرت ہے اس قاعدہ کا مقتضیٰ یہ تھا کہ شریعت پردہ کے احکام سے بھی بحث نہ کرتی مگر شارع کو معلوم تھا کہ ایک وقت میں طبائع پر بہیمیت غالب ہوگی جس سے حیا کم ہو جائے گی یا جاتی رہے گی اس لئے اس کے متعلق احکام فرمادیئے ہیں پھر ان کا بھی کس قدر اہتمام کیا ہے جو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں:
وَلاَ یُبدِینَ زِینَتَھُنَ
کہ اپنی زینت کو بھی ظاہر نہ کریں
اور اوپر معلوم ہو چکاہے کہ قرآن میں زینت سے مراد لباس ہے چنانچہ :
خُذُوازِینَتَکُم
اپنا لباس پہن لیا
اس میں تو سب مفسرین کا اتفاق ہے کہ اس سے مراد لباس ہی ہے اس لئے حضرت ابن مسعود رضی اﷲعنہما نے اس آیت کی تفسیر یہی کی ہے کہ عورتیں خوب بن ٹھن کر بھڑکدار برقعہ اوڑھ کر باہر نکلتی ہیں اور زینت کو تو برقعہ چھپا لیتا ہے مگر برقعہ میں ایسی چین بیل لگی ہوتی ہے کہ اس کو دیکھ کر لوگ یوں سمجھتے ہیں کہ اس کے اندر کوئی حور کی بچی ہوگی گومنہ کھولنے کے بعد چڑیل ہی کی ماں نکلے تو شریعت نے ایسے زینت کے لباس کا ظاہر کرنا حرام کہا ہے پھر بھلا چہرہ اور گلا کھولنا مطلقاً کیونکر جائز ہو سکتا ہے جو مجمع المحاسن ہے۔
ص ۱۹۶ ۔ ۱۹۷:
مردوں کے ساتھ نرم لہجے سے بات مت کرو ۔ جب بات کرنا ہو تو خشک لہجہ سے کرو جس سے مخاطب یہ سمجھے کہ بڑی کھری اور ٹری اور تلخ مزاج ہیں تاکہ لاحول ہی پڑھ کر چلا جائے۔ نہ یہ کہ نرمی سے گفتگو کروکہ میں آپ کی محبت کا شکریہ ادا کرتی ہوں مجھے جناب کے الطاف کریمانہ کا خاص احساس ہے۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ اہل نظر شروع ہی میں کھٹک جاتے ہیں کہ یہ چیز کسی وقت میں رنگ لائے گی اور اس کی دلیل بھی خود اس آیت ہی میں موجود ہے کہ
فلا تَخضَعنَ بِالقَولِ کے بعد ہی بطور نتیجہ کے فرماتے ہیں : فیطمع الذی فی قلبہ مرض (پس جس کے دل میں خرابی ہے ) کہ اگر خضوع فی القول یعنی نرم لہجہ سے بات کی گئی تو جس کے دل میں روگ ہے اس کے دل میں لالچ پیدا ہوگا اور وہ لہجہ کی نرمی سے سمجھ لے گا کہ یہاں قابو چل سکتا ہے پھر وہ اس کی تدبیریں اختیار کریگا دیکھئے خود حق تعالیٰ لہجہ کی نرمی کا یہ اثر بتا رہے ہیں پھر کسی کی کیا مجال ہے کہ اس اثر کا انکار کرے میں اپنی طرف سے تو نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ الفاظ قرآنی صاف بتاتے ہیں عورتوں کا مردوں سے نر م گفتگو کرنا یہ اثر رکھتا ہے کہ ان کے دلوں میں طمع پیدا ہوتی ہے۔ پھر اس پربھی بس نہیں کیا بلکہ اس کے بعد یہ حکم بھی ہے وَقُلنَ قَولاً مَعرُ وفاً جس کا ترجمہ یہ ہے کہ جب بات کرو بھی تو ایسی بات کرو جس کو شریعت میں اچھا مانا گیا ہو ۔ ایک تو یہ کہ بے ضرورت الفاظ مت بڑھائے کیونکہ شریعت ا س کو کسی کے لئے پسند نہیں کرتی۔ شریعت نے کم بولنے ہی کو پسند کیا ہے ۔دوسرے یہ کہ ہر بات کو سوچ کر کہو کوئی بات گناہ کی منہ سے نہ نکل جاوے مختصر ترجمہ معروف کا معقول ہے تو یہ معنی ہوئے کہ معقول بات کہو،معقول بات وہی ہوتی ہے جس سے کوئی برُا نتیجہ پیدا نہ ہو جب ثابت ہو چکا کہ لہجہ کی نرمی سے بھی عورتوں کے لئے برُا نتیجہ پیدا ہوتا ہے تو محبت پیار کی باتوں سے کیوں برُا نتیجہ پیدا نہ ہو گا جس کو آج کل تہذیب میں داخل سمجھا گیا ہے تو ا س قسم کی باتیں عورتوں کیلئے معقول نہیں بلکہ نامعقول ہیں اور یہ کچھ تعجب کی بات نہیں ہے کہ ایک بات ایک کیلئے معقول ہو اور دوسرے کے لئے نامعقو ل۔ ایک کے لئے سختی سے بات کرنا اور بے رخی سے جواب دینا
معقو ل ہو سکتا ہے اور دوسرے کیلئے نامعقول ۔تمہارے لئے یعنی مردوں کے واسطے باہمی کلام کا معقول طریقہ یہ ہے کہ نرمی سے بات کرو کسی کو سخت جواب نہ دو ،روکھا پن نہ برتو ۔اور عورتو ں کیلئے معقول طریقہ یہ ہے کہ اجنبی کے ساتھ نرمی سے بات نہ کریں اور سختی سے جواب دیں اور روکھا برتائوکریں ۔
ص ۱۹۸:
مطلب یہ ہے کہ ایک ہی بات مردوں کے لئے بری اور عورتوں کے لئے اچھی ہو سکتی ہے عورتوں کے لئے مناسب ہے کہ جب غیروں سے بات کریں تو خوب روکھے اور سخت لہجہ میں اور ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ کریں۔ اول تو عورتوں کو غیروں سے بولنا ہی نہیں چاہئے ، مگر بضرورت بولنا جائز ہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ سختی سے گفتگو ہو،تا کہ دوسرے کے دل میں کشش اورمیلان پیدا نہ ہو اور یہ طریقہ عورتوں کے لئے علاوہ شرعی حکم ہونے کے طبعی بھی ہے۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ طبعی بات عورت کے لئے یہی ہے کہ غیر مردوں سے میل جول نہ کرے اور کوئی ایسی بات قول میں یا فعل میں اختیار نہ کرے جس سے میل جول یا کشش پیدا ہو یہی شریعت کی تعلیم ہے تو شریعت فطرت کے بالکل موافق ہے مگر افسوس ہے کہ آج کل طبعی اخلاق سے بعد ہو گیا ہے اور جو باتیں بُری سمجھی جاتی تھیں وہ اچھی سمجھی جانے لگیں حتیٰ کہ اس قسم کے مضامین اور ایسے خیالات اور ایسے جذبات جن سے خوامخواہ میلان ہو آج کل ہنر سمجھے جانے لگے۔ اس سے بہت ہی پرہیز کرنا چاہئے۔اللہ محفوظ رکھے۔
ص ۲۳۸:
اب یہاں سے ایک مسئلہ فقہیہ اور نکلتا ہے وہ یہ کہ جن باتوں میں حق تعالیٰ نے مر د اور عورت میں فرق رکھا ہے ان میں عورت کو مردوں کی برابری ظاہر کرنا اور ان کے مشابہ بننا جائز نہیں اسی کو تشبہ بالر جال کہتے ہیں یعنی مردوں کی صورت شکل چال ڈھال اختیار کرنا حرام ہے۔
ص۲۳۹۔۲۴۰:
حدیث میں ہے کہ لعنت کی جناب رسول اللہ ﷺ نے اس مرد پر جو عورتوں جیسی وضع بنائے اوراس عورت پر جو مردوں جیسی وضع بنائے۔ علماء نے اسی حدیث سے عورتوں کے لئے کھڑے جوتے کو حرا م کہا ہے اور فرمایا ہے کہ عورتوں کو پھڈا جوتا نہیں پہننا چاہئے۔ ہمارے قصبات میں تو اس عورت کو بازاری عورت سمجھا جاتا ہے جس کے پیر میں کھڑا جوتا ہو، مگر شہروں میں ایسی آزادی پھیلی ہے ، بعض شہروں میں عورتیں اچکن بھی پہنتی ہیں اور یہ رواج تو عام ہو چلا ہے کہ عورتیں گر گابی جوتا پہنتی ہیں اور اس میں قصور عورتوں کا تو ہے ہی، کچھ ڈھیلا پن مردوں کا بھی ہے کہ وہ ان باتوں کو معمولی سمجھ کو عورتوں پر روک ٹوک نہیں کرتے حالانکہ یہ باتیں خفیف نہیں ہیں لعنت سے زیادہ اور کیا سختی ہو گی جب ان باتوں پر لعنت آئی ہے تو خفیف کیسی مگر یوں کہیئے کہ لوگوں کو دین کا اہتمام ہی نہیں سالن میں ذرانمک تیز ہو جاوے تو مرد ایسے خفا ہو جاتے ہیں کہ کھانا نہ کھاویں اور رکا بی بی بی کہ منہ پر دے ماریں اسے مارنے پیٹنے کو کھڑے ہو جاویں مگر لعنت کے کام پر ذرا حرکت نہیں ہوتی بلکہ بعضے مرد تو ایسے آوارہ مزاج ہیں کہ باہر والی عورتوں کو دیکھ کر ان کے دل میں خود ہی شوق اٹھتا ہے کہ گھر والیوں کو ان کے جیسا ہی بنائیں افسوس……؟ کہا ں گئی ان کی غیرت اور شرافت ؟ کیا شریف بیبیوں کو بازاری بنانا چاہتے ہیں؟ گھر میں رہنے والی عورتیں تو بس اول جلول وضع ہی اچھی لگتی ہیں یہ کیا کہ کسی کسائی پھرتی ہیں یہ کوئی سپاہی ہیں جو ہر وقت کمر کسی ہوئی ہے ہاں یہ ضروری ہے کہ میلی کچیلی نہ رہیں کیونکہ صفائی اور زینت یہ زوج کا حق ہے مگر یہ مناسب نہیں کہ آستینیں بھی گسی ہوئی ہیں پاجامے بھی ایسے چست ہیں کہ چٹکی لو تو کھال چٹکی میں آجاوے جوتا بھی جڑھا ہوا ہے یہ کیا لغو حرکتیں ہیں خدا تعالیٰ نے تو تم کو عورت بنایا ہے تم مرد کیسے بن سکتی ہو۔
ص ۲۸۱:
پردہ دار وہ ہے جس جس سے شرع میں پردہ ہے ان سے پردہ کرے پردہ کے ساتھ قرآن کی تعلیم ہے عورتوں کو کہ مرد کے ساتھ نرم لہجہ سے گفتگو بھی مت کرو ۔ واقعی قرآن میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جذبات کی پوری رعایت ہے نرم لہجہ سے اجنبی مرد شخص کو ضرور میلان ہوتا ہے کیسی عجیب سچی بات ہے اور سخت لہجہ سے اجنبی مرد کو نفرت ہوتی ہے اس طرح سے آواز کا بھی پردہ ہے عورتوں کو ایک اس امر کا بھی لحاظ چاہئے کہ کپڑا شریعت کے موافق ہو بڑا چھوٹا نہ ہو اس میں بدن نہ جھلکتا ہو
ص ۲۸۲:
عورتوں میں ایک اور بھی مرض ہے مجھ کو یہاں کی خبر نہیں مگر اپنے قصبہ کی حالت عرض کرتا ہوں بعضی عورتیں کھڑے جوتے پہنتی ہیں ۔ حدیث میں اس امر پر لعنت آئی ہے کہ عورتیں مردوں کی وضع اختیار کریں ۔
ص ۲۸۴:
سمجھ لیجئے کہ جو رسوم تفاخر کیلئے کی جاتی ہیں وہ بھی گناہ ہیں چنانچہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم اس شخص کے کھانے سے منع فرماتے ہیں جو تفاخر کے لئے کھلائے بس جو رسم تفاخر کے لئے کی جائے گی وہ منع کیوں نہ ہوگی۔
ص ۲۸۶ ۔ ۲۸۷:
ایک تو یہ کہ یہاں تین صفتیں بیان ہوئیں ہیں ۔ المُحصَنٰت (پاک دامن) الغٰفِلٰتِ (ایسی باتوں سے بے خبر)،المُؤ مِنَاتِ (ایمان والیاں)دو صفت میں تو صیغہ اسم فاعل کا لائے یعنی الغافلا ت المومنات مگر المحصنات صیغہ اسم مفعول کا ارشاد فرمایا گیا ۔ بات یہ ہے کہ اس طرح لانے سے ہمیں ایک سبق بھی دیا گیا ہے جسکی ضرورت چودھویں صدی میں آکر واقع ہوئی وہ یہ کہ اس میں مردوں کو پردہ کی تاکید کی گئی ہے کیونکہ المحصنات کے معنی ہیں پارسا رکھی ہوئی عورتیں مرد ان کو پارسا رکھیں ان کے ذمہ ہے پارسا رکھنا۔ معلوم ہوا کہ عورت اکیلی کافی نہیں جب تک مرد اس کو محفوظ نہ رکھے اسم فاعل کے صیغے سے یہ بات حاصل نہ ہوتی ۔اس لئے مفعول کا صیغہ لائے دوسری یہ بات کے بیچ میں غافلات کا لفظ کیوں اس کی کیا ضرورت تھی؟ بات یہ ہے کہ ا س کے بیچ میں ہونے سے دونوں صفتوں کا اتصال ہو گیا۔اشارہ اس طرف ہے کہ قوت علمیہ اور عملیہ کا کمال اس پر موقوف ہے کہ وہ غافلات بھی ہوں یعنی ان کے خیالات محدود ہوں عرفی تبادلہ خیالات نہ ہوں تب ان کا علم وعمل مقصود باقی رہ سکتا ہے۔ مردوں کے لئے تو وسیع خیالات کا ہونا کمال ہے اور عورتوں کے لئے یہ کمال ہے غیر وسیع الخیال ہوں ان کا مکان بھی محدود آنا جانا بھی علم بھی محدود یعنی صرف دین ہی کا علم ہو اس زمانہ دونوں نکتوں کے مقتضائے کے خلاف کیا جا رہا ہے۔
ضرورت پردہ نسواں:
چنانچہ بعض لوگ گھروں میں رکھنے کو قید کہتے ہیں یہ لوگ ان کو آزار رکھنا چاہتے ہیں۔ میں یہ کہتا ہوں کہ یہ قید نہیں ہے بلکہ باہر نکلنا حقیقت میں قید ہے کیونکہ قید کی حقیقت ہے خلاف مرضی محبوس کرنا پس قید تو جب ہو کہ وہ باہر نکلنا چاہیں تو تم ہاتھ پکڑ کر اندر لے جائو۔ یہی قید ان کے لئے تو اگر طبع سلیم ہو بے پردہ ہو کر باہر نکلنا یہ موت ہے پس بے پردگی قید ہوئی۔ پردہ میں رہنا قید نہ ہوا بعضی عورتوں نے جانیں دیدی ہیں اور باہر نہیں نکلیں۔ ضلع اعظم گڑھ میں ایک شخص کا زمانہ طاعون میں عارضی مکان کا چھپر تھا اس میں اتفاقاً آگ لگی اس کی بیوی جل کر مر گئی باہر نکل کر دوسروں کو صورت نہیں دکھائی۔ میں یہ فتویٰ بیان نہیں کرتا کہ اچھا کیا، مطلب ان کے جذبات فطریہ کا بیان کرنا ہے پھر لغت سے تائید لیجئے خود عورت کے معنی ہیں چھپانے کے چیز۔۔۔۔۔۔ اور میں اخیر بات کہتا کہ اگر خدا اور رسول کا حکم بھی پردہ کا وجوب کے درجہ میں نہ ہوتا۔ اور واقعات بھی نہ ہوتے تب آخر تو غیرت بھی کوئی چیز ہے ۔مرد کو تو طبعا غیرت آنی چاہئے کہ اس کی عورت کو دوسرا دیکھے پھر واقعات مذید برآں خصوص میں اس زمانہ میں اسی واسطے علماء نے لکھا ہے کہ جوان داماد یا دودھ شریک بھائی سے بھی احتیاط چاہئے ،بے محابانہ سامنے نہ آنا چاہئے۔ اس کے متعلق واقعات ہوئے ہیں اور بعضے لوگ ان کو جدید علوم و فنون سکھلا کر ان کو وسیع الخیال بنانا چاہتے ہیں مگر غافلات کا لفظ یہ بتلا رہا ہے کہ عورتوں کو غیرضروری علوم سے غافل ہی ہونا چاہئے۔
ص ۳۰۹:
ایک صاحب پوچھنے لگے کہ شادی میں کون سی رسم ناجائز ہے میں نے کہا یہ پوچھو جائز کونسی ہے کیونکہ ناجائز تو سب ہی ہیں ان کو کوئی کہاں تک بیان کرے مستثنیٰ، مستثنیٰ منہ سے چھوٹا ہوتا ہے تو اگر زیادہ رسوم جائز ہوتیں تو ناجائز کو پوچھا جاتا ۔ اب تو معاملہ برعکس ہے کہ زیادہ ناجائز ہیں اس لئے ناجائز کو پوچھا۔
ص ۳۱۵:
ہاں دنیا سے واقف نہیں ہو سکتیں سو دنیا سے واقف ہونا کیاضرور ہے؟ بلکہ ان کیلئے تو بے خبر ہونا ہی کمال ہے چنانچہ حق تعالیٰ فرماتے ہیں :
اِنَّ الَّذِینَ یَرمُونَ المُحصَنٰتِ الغٰفلٰتِ المُؤمِنَاتِ لُعِنُوافِی الدُّنیَا وَالاٰخِرَۃِ۔
جو لوگ تہمت لگاتے ہیں ایسی عورتوں کو جو پاک دامن ہیں ایسی باتوں سے بے خبر ہیں ،ایمان والیاں ہیں ان پر دنیا و آخرت میں لعنت کی جاتی ہے۔
اس میں غافلات سے مراد غَافِلَات عَنِ الذَّمَا ئِمِ، اور غفلت عن الذمائم مردوں کے لئے بھی مدح ہے مگر اللہ تعالی نے عورتوں کی تعریف میں تو اس کو بیان فرمایا ہے مردوں کی مدح میں کہیں یہ لفظ نہیں آیا اس سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ عورتوں کے لئے بے خبری ہی مناسب ہے کہ ان کو دنیا کی اور دنیا کی برائیوں کی خبر ہی نہ ہو ایک دوست نے بیان کیا کہ ہمارے گھر کی عورتوں کو یہ بھی خبر نہیں کہ گیہوں کا درخت کتنا بڑ ا اور گائے بیل کی شکل کیسی ہوتی ہے ۔ واقعی عورتوں کیلئے بہتر ہے اور اس میں سلامتی ہے اور جس دن عورتوں کو دنیا کی ہوا لگ گئی پھر ان کے دین کی سلامتی اور خیر نہیں ۔
ص ۳۴۰ ۔ ۳۴۱:
اور یہ آیت عورتوں کو اس طرح شامل ہے کہ عبادی (میرے بندو) میں تغلیباً عورتیں بھی داخل ہیں کیونکہ یہ بات اجماعاّ مسلم ہے کہ احکام کے مخاطب جس طرح مرد ہیں اسی طرح عورتیں بھی ہیں باقی عورتوں کا صراحتہّ ذکر نہ کرنا اس میں حکمت یہ ہے کہ عورتیں مردوں کے تابع ہیں پس جو احکام مردوں کے لئے ہیں ان کے توابع بھی ان کے مخاطب ہیں ۔دوسری حکمت یہ ہے کہ اس طرز میں یہ بات بتلا دی گئی کہ عورتوں کیلئے پردہ ضروری ہے اس لئے خداتعالیٰ نے ان کے ذکر اور خطاب کو مستور رکھا چنانچہ قرآن میں عورتوں کا ذکر بالا ستقلال بہت کم ہے پس حیرت ہے کہ آج کل کے لیڈر خدا سے نیڈر یعنی بے خوف ہو کر عورتوں کی پردہ دری چاہتے ہیں مگر مجھے ان کے غوغا سے کچھ اندیشہ نہیں انشاء اﷲ ہماری مستورات پر اس تحریک کا کچھ اثر نہ ہو گا کیونکہ خدا نے عورتوں میں حیاء کا مادہ مردوں سے زیادہ رکھا ہے اور حیا خود پردہ دری سے مانع ہے اگر دلائل شرعیہ سے بھی قطع نظر کر لی جائے تو غیرت و حیا ء خود پردہ کو متقضی ہے چنانچہ اسی حیاء کی بنا پر ہماری مستورات درزی سے کپڑا نہیں سلواتیں وہ غیر مردوں سے اپنے لباس کا بھی پردہ کرتی ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
© Copyright 2025, All Rights Reserved