حضرت تھانوی رحمہ اللہ تعالی کے رسالہ ’’پردہ کے شرعی احکام‘‘ سے اقتباس
حوالہ
مندرجہ ذیل حصہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ تعالی کے رسالہ ’’پردہ کے شرعی احکام‘‘ سے لیا گیا ہے (ط ادارہ اسلامیات) ۔ اس میں حضرت تھانوی کے تین رسا ئل شامل ہیں۔
(1)
ثُبَاتُ الُّتُوْر لِذَوَاتِ اخُدُوْر (ص ۵ تا ۵۳
( ۲)
القول الصواب فی تحقیق مسئلۃ الحجاب (ص۵۵ تا ۸۰
(۳)
القا السکینۃ فی تحقیق ابدا الزینۃ (ص ۸۱ تا ۹۷
اول کی تسہیل بنام القول المیسو ر فی تسہیل ثبات الستور کے نام سے حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی نے حضرت تھانوی کے حکم سے فرمائی، جو حاشیہ میں درج ہے۔نیز حضرت تھانوی نے ضمیمہ میں ایک مضمون مولانا حبیب احمد صاحب کا بھی ملحق کردیا۔ثالث کی تسہیل بنام الحسون الحصینۃ فی تسہیل القا السکینۃ کے نام سے حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی نے فرمائی، جو حاشیہ میں درج ہے۔ نیز آخر میں ایک مضمون مولانا حبیب احمد صاحب کا بھی ملحق کردیا(ص ۹۸ تا ۱۱۱)۔
نوٹ:
زیادہ تر تحریر حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ کی تسہیل سے لی گئی ہے۔
ص ۹
مسلمان عورت جو آزاد ہوزرخرید باندی نہ ہو، بالغ ہو چکی ہو یا بالغ ہونے کے قریب ہو ،جوان ہو یا بوڑھی۔ اس کے لئے اجنبی مردوں سے پردہ کرنے کے تین درجے ہیں
ایک (۱) یہ کہ بجز چہرہ اور ہتھیلیوں کے اور بعض کے نزدیک بجز پیروں کے بھی باقی تمام بدن کو کپڑے سے چھپایا جائے اور یہ ادنیٰ درجے کا پردہ ہے۔
دوسرے(۲) یہ کہ چہرہ اور ہتھیلیوں اور پیروں کو بھی برقع وغیرہ سے چھپایا جائے یہ درمیانی درجہ کا پردہ ہے۔
تیسرے (۳)یہ کہ عورت دیوار یا پردہ کے پیچھے آڑ میں رہے کہ اس کے کپڑوں پر بھی اجنبی مردوں کی نظر نہ پڑے۔ یہ اعلیٰ درجہ کا پردہ ہے اور یہ تینوں درجے قرآن و حدیث میں مذکور ہیں اور شریعت میں ان کا حکم موجود ہے۔
ص۱۳ تا ۱۵:
شریعت نے ان سب درجوں کا حکم کیا ہے۔ البتہ ان میں اتنا تفاوت ضرور ہے کہ پہلا درجہ اپنی ذات سے واجب ہے اور دوسرا تیسرا درجہ کسی عارض کی وجہ سے واجب ہے مگر اس تفاوت سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان تینوں میں سے کوئی درجہ واجب نہ رہے بلکہ اس تفاوت کے ساتھ بھی تینوں درجے واجب ہیں کیونکہ درجات کے تفاوت سے نفس وجوب پر کوئی اثر نہیں پڑتا جیسا فرض اعتقادی اور فرض عملی میں درجہ کا تفاوت ہوتا ہے۔ مگر فرض دونوں ہیں اور نفس فرضیت دونوں میں موجود ہے اور چونکہ پہلا درجہ اپنی ذات سے واجب ہے۔ اس لئے اس کا حکم بھی جوان اور بوڑھی عورتوں سب کو عام ہے یعنی بجز چہرہ اور ہاتھوں کے باقی بدن یا سرکے کسی حصہ کا اجنبی کے سامنے کھولنا بوڑھی عورتوں کو بھی جائز نہیں اور دوسرے تیسرے درجہ کا پردہ چونکہ عارض کی وجہ سے واجب ہے ، اس لئے ان کے واجب ہونے کا مدار اس عارض ہی پر ہے جہاں وہ عارض موجود ہوگا وہاں یہ درجے واجب ہوں گے اور جہاں عارض موجود نہ ہوگا وہاں یہ درجے بھی واجب نہ ہوں گے اور وہ عارض فتنہ کا اندیشہ ہے۔۔۔۔ رہا یہ کہ فتنہ کا اندیشہ کہاں ہے اور کہاں نہیں اس کی تعیین ہمارے رائے پر نہیں رکھی گئی بلکہ قرآن میں اس کا فیصلہ بھی خود ہی فرما دِیا گیا چنانچہ ارشاد ہے
والقوا عد من النساء التی لا یرجون نکا حًا فلیس علیھن جناح ان یضعن ثبابھن غیر متبرجات بزینۃ و ان یستعففن خیر لھن ط
۔۔۔۔۔۔ حاصل اس کا یہ ہے کہ جو بوڑھی عورتیں نکاح کے قابل نہیں رہیں ان کو زینت ظاہر کرنے کی تو اجازت نہیں جس سے مراد تمام بدن ہے ہاں چہرہ اور ہتھیلیاں کھولنے کی اجازت ہے جیسا دوسری آیت میں ہے
ولایبدین زینتھن الاماظھر منھا
۔۔۔۔ لیکن اگر یہ بڑی بوڑھی اس سے بھی احتیاط رکھیں اور دوسرے اور تیسرے درجہ کا پردہ اختیار کریں تو مستحب ان کے لئے بھی یہی ہے وان یستعففن خیرلھن کا مطلب یہی ہے۔ اس آیت نے بتلا دِیا کہ فتنہ کا اندیشہ صرف ان بوڑھی عورتوں میں موجود نہیں ہے جو نکاح کے قابل نہیں رہیں اور ان کے سوا ٗ جوان اور ادھیڑ عورتوں سے اندیشہ فتنہ کی نفی نہیں کی گئی بلکہ اُن میں یہ اندیشہ موجود ہے اور یہی وہ عارض ہے جس پر دوسرے اور تیسرے درجہ کے واجب ہونے کا مدار تھا۔ اور جب شارع نے جوان اور ادھیڑ عورتوں کے بارہ میں یہ حکم کر دِیا کہ ان میں فتنہ کا اندیشہ موجود ہے اب کسی کو اپنے رائے سے یہ کہنے کا اختیار نہیں کہ ان میں فتنہ کا اندیشہ موجود نہیں لقولہ تعالیٰ
و ما کان لمؤمن ولا مؤ منۃ اذا قضی اللہ و رسولہ امرا ان یکون لھم الخیرۃ من امرھم۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ کسی ایماندار مرد اور کسی ایماندار عورت کو گنجائش نہیں جبکہ اللہ اور اس کا رسول کسی کام کا حکم دیدیں تو ان کو اس کام میں کوئی اختیار (باقی) رہے(یعنی اختیار باقی نہ رہے گا بلکہ اس پر عمل کرنا ہی واجب ہوتا ہے)
یہ تفاوت تو ان درجوں میں احتمال فتنہ کے شرط ہونے اور شرط نہ ہونے کے اعتبار سے تھا کہ پہلے درجہ کے واجب ہونے میں احتمال فتنہ شرط نہیں بلکہ وہ ہر حال میں واجب ہے۔ اور دوسرے اور تیسرے درجہ کے واجب ہونے کے لئے احتمال فتنہ شرط ہے۔
ص ۱۷ تا ۲۰:
۔۔۔ مگر ان تینوں درجوں میں اس اعتبار سے تفاوت ہے کہ کون سی ضرورت کس درجہ میں موثر ہے اور کس درجہ میں موثر نہیں ہے۔ چنانچہ پہلا درجہ جو کہ جوان اور ادھیڑ اور بوڑھی سب عورتوں پر واجب ہے اس سے بہت سخت مجبوری کی حالت مستثنیٰ ہے جیسے علاج معالجہ کی ضرورت یعنی بدوں ایسی سخت ضرورت کے اجنبی کے سامنے بدن کا کھولنا نہ جوان اور ادھیڑ کو جائز ہے نہ بوڑھی عورتوں کو۔
اور دوسرے درجہ سے جو کہ صرف جوان اور ادھیڑ عورتوں پر واجب ہے بوڑھوں پر واجب نہیں، سخت مجبوری کی صورت میں مستثنیٰ ہے گو بہت سخت مجبوری نہ ہو یعنی اجنبی مرد کے سامنے چہرہ اور ہاتھ کا کھولنا بوڑھی عورتوں کو تو جائز ہوگا گو چھپانا ان کو بھی مستحب ہے جیسا پہلے مذکور ہو ا اور جوان اور ادھیڑ عورتوں کو بدوں سخت مجبوری کے اجنبی کے سامنے چہرہ اور ہاتھ کا کھولنا حرام ہوگا۔ چنانچہ فقہاء کا یہ حکم اسی قاعدہ پر مبنی ہے
و تمنع الشابۃ وجوبًا عن کشف الوجہ بین الرجال لالانہ عورۃ بل لخوف الفتنۃ کذا فی درالمختار وغیرہ واللفظ للدر
(ترجمہ ) اور جوان عورت کو مردوں کے سامنے چہرہ کھولنے سے وجوب کے درجہ میں منع کِیا جائے گا ،نہ اس وجہ سے کہ چہرہ ستر بالذات میں داخل ہے بلکہ اس وجہ سے کہ جوان عورت کے چہرہ کھولنے میں فتنہ کا اندیشہ ہے (توسترللعارض ہوا) یہ درمختار کے الفاظ ہیں اور یہ مسئلہ فقہ کی دوسری کتابوں میں بھی مذکور ہے۔ اور سخت مجبوری کی حالت میں چہرہ اور ہاتھ کا کھولنا جائز ہوگا بشرطیکہ کوئی دوسرا مانع نہ پایا جائے جیسے اجنبی مرد کا اس کو چھونا یا اس کا اس کو چھونا یا اجنبی مرد کو گھورنا یا اجنبی مرد کے ساتھ تنہائی میں بیٹھنا ملنا کہ ان سب کی حرمت شریعت سے ثابت ہے اور اس سخت مجبوری کی صورت میں اگر کوئی مرد اس کو گھورنے لگے تو اس سے عورت کو گناہ نہ ہوگا اور حدیث میں جو آیا ہے
لعن اللہ الناظر والمنظور الیہ (مشکوٰۃ ص۲۲۸نظامی)
کہ اللہ تعالیٰ نے دیکھنے والے پر بھی لعنت کی ہے اور اس پر بھی جس کو دیکھا جائے۔ تو یہ لعنت عورت پر اسی صورت میں ہے جبکہ اس نے بدوں سخت مجبوری کے اپنا چہرہ وغیرہ کھولاہوورنہ اگر سخت مجبوری سے اُس نے کھولا اور پھر کسی مرد نے اس کو گھورا تو اس گھورنے سے عورت کو گناہ نہ ہوگا۔
اور تیسرے درجہ میں مجبوری کی حالت مستثنیٰ ہے گو سخت مجبوری یا بہت سخت مجبوری کی صورت نہ ہو مگر مجبوری کا درجہ موجود ہو اور اس مجبوری کے معنے یہ ہیں کہ اگر گھر سے یا پردہ سے نہ نکلیں تو کوئی غیر معمولی نقصان یا حرج لاحق ہو جائے ایسی ضرورت میں تمام بدن چھپا کر برقعہ کے ساتھ گھر سے نکلنا جوان اور ادھیڑ عورتوں کے لئے جائز ہوگا اور بدوں ایسی مجبوری کے برقع کے ساتھ تمام بدن چھپا کر بھی ان کو نکلنا جائز نہ ہوگا اور اس دوسرے اور تیسرے درجہ کے پردہ میں مجبوری اور سخت مجبوری کے وقت جو آسان کی گئی ہے اس میں چونکہ فتنہ کا بھی احتمال ہے گو ضرورت پر نظر کرکے آسانی کر دی گئی اور تنگی نہیں کی گئی مگر اس احتمال کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا بلکہ خاص خاص احکام سے اس کا انسداد بھی کر دِیا گیا۔ مثلاً عورتوں کو عطروخوشبو لگا کر باہر نکلنے سے منع کِیا گیا ہے۔ ۔۔۔۔۔ اور ارشاد فرمایا
لکن لیخرجن و ھن تفلات
لیکن عورتوں کو میلے کچیلے کپڑوں میں (ضرورت کے وقت) باہر نکلنا چاہیے(اس کو ابودائود نے رویت کیا ہے اور اس پر سکوت کِیا صفحہ۹۱ جلد۱، پس حدیث حسن ہے)۔
خلاصہ ان سب احکام کا یہ ہوا کہ بوڑھی عورتوں پر پہلا درجہ تو واجب ہے اور دوسرا تیسرا درجہ مستحب ہے اور بہت سخت مجبوری کی حالت میں پہلے درجہ میں بھی جو کہ واجب ہے کچھ سہولت ووسعت کر دی گئی اور جوان اور ادھیڑ عورتوں کے لئے پہلا درجہ بھی واجب ہے اور بہت سخت مجبوری میں اس میں کچھ سہولت ووسعت بھی ہے اور دوسرا اور تیسرا درجہ بھی ان پر واجب ہے اور بہت سخت مجبوری سے کم درجہ کی مجبوری اور ضرورت کے مواقع میں کچھ سہولت ووسعت بھی ثابت ہے یعنی اگر سخت مجبوری کا درجہ ہو، گو بہت سخت مجبوری نہ ہو تو چہرہ اور ہتھیلیاں کھولنا اجنبی کے سامنے ان کو جائز ہے بشرطیکہ فتنہ وفساد کے احتمال کا انسداد بھی کر لِیا جائے یعنی سر اور کلائی اور پنڈلی وغیرہ کا کھولنا حرام ہوگا۔ اسی طرح زیب وزینت کے ساتھ اجنبی کے سامنے آنا حرام ہوگا اور سخت مجبوری کے درجہ سے کم ضرورت ہو مگر مجبوری متحقق ہو محض خیالی مصلحت نہ ہو تو اس صورت میں برقع کے ساتھ گھر سے باہر نکلنا جوان عورت اور ادھیڑ عورت کو جائز ہے مگر چہرہ اور ہاتھوں کا کھولنا حرام ہوگا اسی طرح زیب و زینت کے کپڑے پہن کر نکلنا حرام ہوگا۔
والسر فی کون الضرورۃ فی الدرجۃ الاولیٰ اشدو فی الثانیۃ شدیدا وفی الثالثۃ مطلقۃ کون الوجوب فی الاولیٰ اکد وفی الثانیۃ اکیدا وفی الثالثۃ مطلقًا فلا بدمن ان یکون المغیر مبنیا للفاعل و ھو العذر مماثلا فی القوۃ للمغیر مبنیاً للمقعول وھو الوجو ب وھذا ظاھر فافھم۔
ص ۲۳۔ ۲۴:
۔۔۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں عورتوں کے لئے مساجد اور عیدگاہ میں جانے کی اجازت کا اور صحابہ کے زمانہ میں اس سے ممانعت ہو جانے کا مداراسی قاعدہ پر ہے جس کو حضرت عائشہؓ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے
لوادرک رسول اللہ ﷺ ما احدثت النساء بعدہ لمنعھن کما منعت نساء بنی اسرائیل (رواہ مسلم)
(ترجمہ) اگر رسول اللہ ﷺ اس حالت کا مشاہدہ فرما لیتے جو عورتوں نے آپ ﷺ کے بعد اختیار کی ہے تو یقیناً آپ ﷺ ان کو (مساجد وعیدگاہ میں جانے سے) روک دیتے۔ جیسا بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دِیا گیا تھا۔ اس کو مسلم نے روایت کیا ہے
اور خود رسول اللہ ﷺ نے بھی (اپنے اخیر وقت میں) عورتوں کے لئے اسی کو پسند فرمایا اور اسی کی ترغیب دی ہے (کہ وہ نماز کے لئے مسجدوں میں نہ جایا کریں) ۔۔۔۔۔ مگر رسول اللہ ﷺ نے صرف ترغیب پر اکتفا فرمایا۔ سختی کے ساتھ عورتوں کو مسجد میں آنے سے نہیں روکا کیونکہ) اس وقت عورتوں کو باہر نکلنے کی ضرورتیں زیادہ تھیں اور عام طبائع میں نیکی کا غلبہ اور سزا کا خوف ایسا تھا جس کی وجہ سے فتنہ وفساد کا احتمال کمزور تھا اور بعد میں عام طور پر حالت بدل گئی جس میں عورتوں کی حالت بدلنے کو بھی خاص دخل تھا اور اسی قاعدہ پر فقہاء متاخرین کا یہ فتویٰ مبنی ہے جس میں اُنہوں نے بعض محرموں کو نامحرموں کی مثل ٹھہرایا ہے۔
ویکرہ الخلوۃ بالصھرۃ الشابۃ لفساد الزمان
کہ جوان ساس کے پاس تنہائی میں بیٹھنا مکروہ ہے کیونکہ زمانہ فساد کا ہے اور اس احتیاط کی اجازت خود رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد سے سمجھ میں آتی ہے:
احتجبی منہ یا سودۃ
جیسا کہ اُوپر گزر چکا جس میں بطور احتیاط کے شرعی محرم سے پردہ کا حکم ہے۔(ص ۷۲ پر کچھ یون بیان ہے: ۔۔۔۔اس قاعدہ کے موافق وہ لڑکا حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بھائی ہُوا۔ اور محرم ہونے کی وجہ سے پردہ کی ضرورت نہ تھی۔ لیکن حضور ﷺ نے احتیاطاً بوجہ مشابہت شکل حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو حکم پردہ کافرمایا جس پر بہت پابندی کے ساتھ عمل کِیا گیا۔ اس قصہ سے معلوم ہوا کہ پردہ کا اس درجہ شدت سے اہتمام تھا کہ خفیف شبہ پر بھی احتیاط کی جاتی تھی)۔
اصل سوالات (ص ۷ ۔ ۸
سوال:
حضرت مولانا دام ظلکم العالی۔ السلام علیکم ورحمتہ اللہ! مزاجِ اقدس۔ چند سوالات بھیجتا ہوں اُمید ہے کہ جناب ان کے جوابات سے مشرف فرمائیں گے۔
(۱)
پنجاب میں شریف عورتیں بلا استثناء برقعہ اوڑھ کر پیدل یا تانگہ میں سوار ہو کر رشتہ داروں سے ملنے یا دوسری دینی ودنیاوی ضرورتوں سے بے تکلف باہر جاتی ہیں۔ اسے وہاں کوئی معیوب نہیں سمجھتا کیونکہ وہاں پردہ کا مفہوم یہی ہے کہ عورت اپنا چہرہ جسم اور زینت غیر محرموں سے مخفی رکھے اور وہاں شرفاء وازاذل میں مابہ الامتیاز چیز یہی ہے کہ ادنیٰ طبقہ کی عورتیں کھلے چہرہ پھرتی ہیں۔ شریف خواتین برقعہ اوڑھ کر جاتی ہیں۔ غرض پردہ مروجہ شرفائے پنجاب شرعی پردہ کہلا سکتا ہے یا نہیں؟ اور اگر نہیں تو ان کے پردے میں شرعی مخدوروقباحت کیا ہے؟
(۲)
یہاں دیوبند میں دیکھا گیا ہے کہ شریف عورتیں نقاب وتستر کے ساتھ باہر نکلنا بھی معیوب خیال کرتی ہیں اور اس سے اجتناب کیا جاتا ہے کیا مسلمات ایسے ہی پردے کی مامور ہیں یا چہرہ اور جسم چھپا کر باہر نکلنے کی اجازت ہے؟
(۳)
اگر ہر جوان عورت کے لئے غیر محرموں سے چہرہ چھپانا واجب اور ضروری ہے تو گھر کی خادمائیں اور باندیاں جوزر خرید نہیں ہوتیں اس حکم سے مستثنیٰ ہیں یا نہیں؟ بصورتِ اول استثناء کی شرعی دلیل کیا ہے؟ بصورتِ ثانی گھر کے مرد جو ان کے چہروں کی طرف بلا تکلف دیکھتے اور ان سے ہم کلام ہوتے ہیں اس کا شرعی حکم کیا ہے؟
(۴)
بعض گھروں میں جو ان یا بڈھے مرد کا م کاج کے لئے نوکر رکھے جاتے ہیں۔ اگر فتنہ کا خوف نہ ہو تو گھر کی مستورات کا اُن کے سامنے چہرہ کھولنا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے؟
(۵)
سیاہ فام بدصورت جوان عورت جس کے چہرہ کھولنے میں کسی فتنہ کا خوف نہیں اگر وہ چہرہ نہ چھپائے تو اس میں کیا مضائقہ ہے؟
(۶)
کسی سلیم الفطرت۔ مامون عن الشہوت جوان آدمی کا کسی غیر محرم خوبصورت جوان عورت سے بلا ضرورت شد یدہم کلام ہونا اور گفتگو کرتے ہوئے بلاشہوت اس کی چہرہ کی طرف دیکھنا جائز ہے یا نہیں؟ بصورتِ ثانی عدمِ جواز کی دلیل کیا ہے۔ یہ بات پیش نہادِ خاطر اطہر رہے کہ بعض صحابیات کھلے چہرے کے ساتھ حضور سید العرب والعجم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سامنے حاضر ہوتی تھیں اور خاکسار کو اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ حضور ﷺ نے کبھی انہیں پردہ کا حکم دِیا ہو۔
جواب سوال اوّل(۱)
یہ صورت جائز نہیں کیونکہ اس میں پردہ کا ایک درجہ جو واجب تھا فوت ہو گیا اور وہ تیسرا درجہ ہے اور اس کو بلاضرورت چھوڑا گیا۔ کیونکہ تانگہ پر پردہ ڈال کر بھی تونکل سکتی ہیں (پھر محض برقع پر کیوں کفایت کی گئی) اور اگر برقع بھڑک دار ہے تو دوسرا درجہ بھی فوت ہوا کیونکہ جن صورتوں میں برقع کے ساتھ نکلنے کی اجازت ہے اُن پر یہ شرط ہے کہ زیب وزینت کے لباس میں نہ نکلیں۔
جواب سوال دوم(۲)
ہاں مُسلمان عورتوں کو ایسا ہی پردہ کرنا چاہئے کیونکہ ایسے پردے کا حکم شریعت میں ثابت ہو چکا ہے جیسا اُوپر گزرا۔ جس میں صرف ضرورت کے وقت کچھ آسانی اور وسعت ہو جاتی ہے۔
جواب سوال سوم(۳)
تمام بدن کو چھپا کر صرف چہرہ کھول کرنا محرموں کے سامنے (خادمہ کا) آنا یہ ادنیٰ درجہ کا پردہ ہے جو ضرورت اور مجبوری کے وقت کافی ہے۔
باقی (گھر کے مَردوں کو اس حالت میں خادمہ کے چہرہ کی طرف) دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں اس لئے اس کی اجازت نہ ہوگی (حدیث میں) لعن اللہ الناظر وارد ہے۔ (کہ خدا تعالیٰ نے دیکھنے والے پر لعنت فرمائی ہے یعنی جو بلاضرورت نامحرم کو دیکھے) اور بات چیت اگر ضرورت سے ہے تو ضرورت کی حد تک جائز ہے اور بلاضرورت لذت نفسانی کے لئے بات چیت کرنا حرام ہے حدیث میں ہے
اللسان یزنی
کہ زبان بھی زنا کرتی ہے (اس کو ایک طویل حدیث میں بخاری ومسلم نے روایت کیا ہے۔
جواب سوال چہارم(۴)
نا محرم کے سامنے چہرہ کھولنا عورت کو حرام ہے اور یہاں کوئی ضرورت نہیں ۔ خصوصاً جبکہ اس صورت میں غالباً بلکہ یقینی یہ ہے کہ عورتیں (سروغیرہ کے چھپانے کا بھی اہتمام نہیں کرتیں اور ان نوکروں کے سامنے) کھلے سر پھرتی ہیں اور بعض دفعہ خلوت اور تنہائی کی بھی نوبت آجاتی ہے جو کہ حرام ہے(اس لئے یہ صورت بھی جائز نہیں)۔
جواب سوال پنجم(۵)
سیاہ وسفید کے احکام میں شریعت نے کوئی فرق نہیں کِیا بلکہ جوان عورت کو ہر حال میں محل فتنہ قرار دیا ہے ۔ اس لئے سیاہ فام بدصورت عورت کو بھی بلاضرورت چہرہ کھولنا حرام ہے۔ نیز مشاہدہ یہ ہے کہ بعض لوگ سیاہ فام عورتوں کو گوری عورتوں سے زیادہ پسند کرتے ہیں جیسا کہ شاعر نے کہا ہے۔
اے پیک پے خجستہ چہ نامی فدیت لک
ہرگز سیاہ چردہ ندیدم بدیں نمک
اور یہ بات مسلم ہے
لکل ساقطہ لاقطۃ
کہ ہر گری پڑی چیزکے لئے کوئی اُٹھانے والا ضرور ہوتا ہے۔
جواب سوال ششم(۶)
(سلیم الفطرت ٗ نیک دِل ٗ پاک باز مرد کو بھی اجنبی جوان عورت سے بدوں سخت مجبوری کے بات چیت کرنا اور بدوں شہوت وبدنیتی کے اس کے چہرہ کی طرف دیکھنا) جائز نہیں دلیلیں اُوپر گزر چکی ہیں۔ اور یہ کہیں ثابت نہیں کہ صحابہ کی عورتوں کا (رسول اللہ ﷺ کے سامنے) چہرہ کھولنا بلاضرورت تھا (بلکہ ظاہر یہ ہے کہ ضرورت کی وجہ سے تھا) پھر ضرورت کی حالت میں حضور ﷺ ان کو کیسے منع فرماتے خصوصاً جبکہ آپ ﷺ حکم شرعی کو عام طور پر اپنے ارشادات میں ظاہر بھی فرما چکے تھے تو اس کے بعد بعض عورتوں کا چہرہ کھول کر آپ کے سامنے آنا (یقینا) ضرورت کی وجہ سے تھا اور یہ بھی ثابت نہیں کہ حضور ﷺ ان کی طرف قصداً نظر فرماتے تھے اور نہ یہ ثابت ہے کہ اس وقت بے پردگی کی عام طور سے عادت تھی۔ چنانچہ یہ احادیث ملا حظہ ہوں
(۱)
حضرت ام عطیہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتی ہیں کہ ہم کو اس بات کا حکم دیا گیا تھا کہ عید کے دن حیض والی عورتوں اور پردہ میںبیٹھنے والیوں کو بھی (عیدگاہ میں) لے جائیں الحدیث۔ اس کو بخاری ومسلم نے روایت کیا ہے۔ اس میں ذوات الخدور کا لفظ (جس کے معنے پردہ میں بیٹھنے والیاں ہیں) اس دعویٰ کو ثابت کر رہا ہے کہ حضور ﷺ کے زمانہ میں بے پردگی کی عام عادت نہ تھی۔
(۲)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک عورت نے پردہ کے پیچھے سے ایک خط دینے کو رسول اللہ ﷺ کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ الحدیث۔ اس کو ابودائودونسائی نے روایت کیا ہے (مشکوٰۃ) اس میں عورتوں کا خود رسول اللہ ﷺ سے تیسرے درجہ کا (گہرا) پردہ کرنا مذکور ہے۔
(۳)
ابوالسائب ابوسعید خدریؓ سے ایک نوجوان (صحابی) کے قصہ میں جس کی شادی کو کچھ ہی دن گزرے تھے روایت کرتے ہیں کہ (وہ نوجوان حضور ﷺ سے اجازت لے کر اپنے گھر گیا) تو اس کی بی بی دروازہ پر کواڑوں کے بیچ میں کھڑی ہوئی تھی نوجوان نے اپنا نیزہ اس کی طرف سیدھا کِیا تاکہ اس پر حملہ کرے اور جوشِ غیرت سے بیتاب ہو گیاالحدیث اس کو مسلم نے روایت کیا ہے (مشکوٰۃ) اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پردہ کی رسم اُس زمانے کے لوگوں کی طبیعتوں میں ایسی جمی ہوئی تھی کہ نوجوان صحابی دروازہ پر اپنی بی بی کو کھڑا دیکھ کر طیش سے بے تاب ہو گئے
(ص ۷۸ پر یہ واقعہ یوں نقل کیا ہے:حضرت ابی السائب نے ابی سعید الخدریؓ سے روایت کیا ہے کہ ایک نوشہ صحابی کے قصہ میں ہے کہ وہ جو اپنے گھر گئے تو بی بی کو دروازہ میں کھڑے دیکھ کر غیرت آئی اور نیزہ سے مارنا چاہا (آخر سانپ کی وجہ سے باہر نکلنے کی مجبوری معلوم ہوئی)۔ معلوم ہوتا ہے کہ پردہ کی رسم اس درجہ طبائع میں مرکوز تھی کہ دروازے ہی میں کھڑے ہونے پر بے تاب ہو گئے۔
ص ۳۱
اور قصہ افک میں (جس میں منافقوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر جھوٹا بہتان لگایا تھا) صحابہ کا خالی ہو دج کا اونٹ پر باندھ دینا اور یہ خیال کرنا کہ اس میں حضرت عائشہ ؓ بیٹھی ہیں نہایت مضبوط تائید ہے۔ اس وقت کی ڈولی کی رسم کی اور کہاروں سے بی بی کے نہ بولنے کی (ورنہ) ہودج باندھنے والوں کو حضرت عائشہ ؓ کی خاموسی سے شبہ ہوتا کہ شاید ہودج خالی ہے) ان سب احادیث میں صاف تصریح ہے کہ اُس زمانہ میں ویسا ہی پردہ تھا جیسا آج کل ہمارے اطراف کے شرفاء کی عورتوں میں رواج ہے۔
ص ۳۴ تا ۴۲ ( تتمہ تذئیل سے مختلف اقتباسات)
۔۔۔ اس کے علاوہ کچھ اور واجبات بھی پردہ کے متعلق متروک ہوں گے جواحادیث میں منصوص نہیں مثلاً:
(۱)
اس کا کیا انتظام ہو سکے گا کہ عورتیں بدوی سخت مجبوری کے نہ نکلیں گی کیونکہ اس صورت میں بے پردگی یا کم مائیگی میں ان کو گھر میں بیٹھنے کی عادت تو متروک ہو جائے گی۔
(۲)
اس کا کیا انتظام ہو سکے گا کہ نکلنے کے بعد وہ سڑک کے کناروں پر دبی دبی چلیں گی وسط پر نہ چلیں۔
(۳)
اس کا کیا انتظام ہو سکے گا کہ جب پردہ نہ رہا اور باہر بھی مردوں سے اختلاط ہونے لگا تو پھر وہ بغیر اذن شوہر کے کسی کو گھر میں نہ آنے دیں گی۔
(۴)
اس کا کیا انتظام ہو سکے گا کہ اس حالت میں اعتیاد بے پردگی میں وہ باہر نکلنے کے لئے ہمیشہ شوہر سے اذن ضرور ہی لیا کریں گی۔
(۵)
اس کا کیا انتظام ہو سکے گا کہ جب دل کھل گیا تو وہ قصداً کسی اجنبی کو نہ دیکھیں گی۔
(۶)
اس کا کیا انتظام ہو سکے گا کہ ان کو کوئی اجنبی نہ دیکھے گا۔
(۷)
اس کا کیا انتظام ہو سکے گا کہ اس حالت میں ان کو دیکھ کر اجنبی مردوں کے دل میں شیطانی وسو سے نہ آویں۔
(۸)
اس کا کیا انتظام ہو سکے گا کہ ناگہانی نظر پڑنے کے بعد فوراً نظر کو ہٹا دِیا جاوے گا اور کامل پردہ میں تو دوبارہ نظر کا قصد ہی نہیں ہوتا۔
(۹)
اس کا کیا انتظام ہو گا کہ غیر محرم سے بلا ضرورت اور بے تکلف باتیں نہ کیا کریں گی اور بضرورت بات کرنے کے لئے شوہر سے اجازت لیا کریں گی۔ کیونکہ اب تو پردہ کے سبب تکثیر کلام کی نوبت نہیں آتی۔ اس لئے قلیل کا انتظام آسان ہے اور خود طبیعت میں بھی خجلت غالب ہے۔
(۱۰)
اس کا کیا انتظام ہو سکے گا کہ بالخصوص شوہر کے اقارب کو بے تکلف آمدورفت اور خلا ملا سے روکا جا سکے گا۔
(۱۱)
اس کا کیا انتظام ہو سکے گا کہ اس بے تکلف اختلاط اور ارتباط میں کبھی خلوت کا موقع پیش نہ آوے گا۔
(۱۲)
اس کا کیا انتظام ہو سکے گا کہ اجنبی کے ہاتھ سے ان کا ہاتھ نہ لگ سکے گا۔
(۱۳)
اس کا کیا انتظام ہو سکے گا کہ اس حالت میں عورتیں زیب وزینت سے نہ نکلیں گی اور میلے کچیلی نکلنے کو ذلت سمجھیں گی۔
(۱۴)
اس کا کیا انتظام ہو سکے گا کہ عورتیں باہر نکلنے کے وقت عطروغیرہ نہ لگاویں گی۔
(۱۵)
اور اس کا کیا انتظام ہو سکے گا کہ چہرہ اور کفین کھولنے کی حالت میں سر اور ساعد اور حلقوم وغیرہ بالکل مستور رہے گا۔
(۱۶)
اوراس کا کیا انتظام ہو سکے گا کہ شوہر جب عورت کو ان حدود سے ذرا نکلتا دیکھے گا تو وہ بالالتزام و بالدوام اس کو زجر کیا کرے گا ورنہ دیوث کی وعید میں داخل ہوگا۔
(۱۷)
اور اس کا کیا انتظام ہو سکے گا کہ جب مردوں اور عورتوں میں خلا ملا ہو جاوے گا تو کبھی ایسا موقع نہ ہوگا کہ مرد عورتوں کے درمیان چلنے لگے۔
(۱۸)
اور اس کا کیا انتظام ہو سکے گا کہ ان کے چلنے میں زیور کی آواز مطلقاً پیدا نہ ہوگی۔
(۱۹)
اور اس کا کیا انتظام ہو سکے گا کہ باہر نکلنے کے وقت عورتیں مردانہ جوتے نہ پہنیں گی۔
(۲۰)
اور اس کا کیا انتظام ہو سکے گا کہ عورت کبھی بدوں محرم کے سفر نہ کرے گی۔
ص ۴۳ رفع اشتباہ:
اور حضور اقدس ﷺ کے عہدِ مبارک پر اس زمانہ کا قیاس صحیح نہیں نہ مر د ویسے رہے نہ عورتیں ویسی رہیں نہ باعتبار حالات کے نہ باعتبار خیالات کے نہ ضرورتیں اُس درجہ کی رہیں اور نہ حدوددتغریرات باقی رہے جو مفاسد محتملہ کے مانع وقامع تھے۔۔۔۔
ص ۴۴:
جو آیات و احادیث اُوپرگزری ہیں اور اُن سے جو اصول مستنبط ہوئے جن کا حاصل سدِّباب فتنہ ہے ان کی بناء پر فقہائے اِسلام نے جو کہ حکمائِ اُمت ہیں جو فتاوے ارشاد فرمائے ہیں ان میں سے بعض کو نمونہ کے طور پر نقل کِیا جاتا ہے:
(۱)
عورت کا جہری نماز میں پکار کر قرأت کرنا جائز نہیں۔
(۲)
عورت کا حج میں لبیک پکار کر کہنا جائز نہیں۔
(۳)
اگر عورت مقتدی ہو (مثلاً اپنے زوج یا محرم کے پیچھے گھر میں نماز پڑھ رہی ہے) اور امام کو کجھ سہو گیا تو عورت کو زبان سے بتلانا جائز نہیں بلکہ ہاتھ پر ہاتھ مار دے تاکہ امام اس کو سُن کر سمجھ جاوے کہ میں کچھ بھولا ہوں اور پھر سوچ کر یاد کر لے۔
(۴)
جوان عورت کا نامحرم مرد کو سلام کرنا جائز نہیں۔
(۵)
جب قرأت بالجہروتلبیہ بالجہر اور سہو امام کے وقت سُبْحَانَ اللہ کہہ دینا جیسا مرد مقتدی کہہ دیتا ہے اور سلام جائز نہیں تو بلا ضرورت کلام کرنا یا اشعار سُنانا یا خط وکتابت کرنا جو کہ کلام سے زیادہ جذبات کو ہیجان میں لانے والا ہے یا اخباروں میں مضمون دینا جیسا کہ اس وقت متعارف ہے کہ اپنا پتہ اور نشان بھی لکھ دِیا جاتا ہے کیسے جائز ہوگا۔
(۶)
اجنبیہ سے بدن دبوانا جائز نہیں۔
(۷)
تو اس کا ہاتھ ٗ ہاتھ میں لینا جیسا جاہل یا بے احتیاط پیر بیعت وقت خدمت کرتے ہیں کیسے جائز ہوگا۔
(۸)
اجنبیہ کے بدن سے متصل کپڑے پر میلانِ نفس کے ساتھ نظر کرنا جائز نہیں۔
(۹)
آئینہ یا پانی پر جو اجنبیہ کا عکس پڑتا ہو اس کا دیکھنا جائز نہیں اس بناء پر اس کا فوٹو دیکھنا جائز نہیں۔
(۱۰)
اجنبی مرد کے سامنے کا بچہ ہوا طعام عورت کو کھانا یا بالعکس اگر نفس کو اس میں لذت ہو مکروہ ہے۔
(۱۱)
رضاعی بھائی اور داماد اور اسی طرح شوہر کا بیٹا (گویہ سب محارم ہیں) مگر فتنہ زمانہ پر نظر کرکے اُن سے مثل نامحرم کے پردہ کرنا ضروری ہے۔
(۱۲)
عورت کے بال اور ناخن گوبدن سے جدا ہو گئے ہوں ان کو دیکھنا جائز نہیں۔
(۱۳)
اجنبی عورت کے تذکرے سے نفس کو لذت دینا جائز نہیں۔
(۱۴)
اجنبیہ کے تصور سے لذت لینا حرام ہے۔
(۱۵)
حتیٰ کہ اگر اپنی بی بی سے متمتع ہو اور تصور اجنبیہ کا کرے وہ بھی حرام ہے۔
خلاصہ یہ کہ وہ بروئے ایک حدیث کے شیطان کا جال ہے، جال سے جس قدر احتیاط ضروری ہے اسی قدر اس سے۔
ص ۴۴، ص ۵۱ تا۵۳
۔۔۔ایک مضمون مولوی حبیب احمد صاحب کا جو ایک اخباری مشورہ کا جواب ہے فتویٰ بالا کے مناسب ہونے کے سبب اُس کے ساتھ ملحق کر دِیا گیا۔۔۔۔۔۔ ہم صاف کہتے ہیں کہ پردہ مروّجہ بھی اس پردہ سے گِرا ہُوا ہے جس کو شریعت لازم کرتی ہے ۔ کیونکہ اُس میں بہت سے غیر محرموں سے پردہ نہیں کِیا جاتا جیسے چچا زاد بھائی ٗ ماموں زاد بھائی اور نہ جن سے پردہ کِیا جاتا ہے، ان سے پردہ میں کافی احتیاط برتی جاتی ہے۔ اس لئے شرعاً اسے اور سخت کرنے کی ضرورت ہے اور اس میں کوئی تخفیف نہیں ہو سکتی۔ پردے سے شریعت کا مقصود عفت ہے ۔ پس جو طریق ایسا اختیار کیا جاوے جس میں عفت پر بُرا اثر پڑے وہ شرعًانا جائز ہے خواہ عورتیں کھُلے منہ پھریں یا بُرقعہ اوڑھ کر کیونکہ جب کوئی عورت برقع اوڑھ کر غیر مَردوں کے ساتھ اختلاط کرے گی اور ان سے بے تکلف باتیں کرے گی تو اوّل تو مرد اس کی ذاتی حیثیت کو (کہ خوب صورت ہے یا بدصورت جوان ہے یا بوڑھی وغیرہ) خود نظر سے اور انداز گفتگو سے بھانپ لیں گے اور اگر بالفرض نہ بھانپ سکیں تو وہ ان باتوں کے معلوم کرنے کی کوشش کریں گے جس سے عفت خطرہ میں پڑ جاوے گی۔ دوسرے خود عورتیں بُرقعہ کی جالی سے مردوں کو دیکھیں گی اور چونکہ عورتوں میں بھی جذبات شہوانی ہوتے ہیں اس لئے جو مردا نہیں پسند ہوگا اُس کے پھانسنے کی وہ خود کوشش کریں گی۔ اور جب عورتیں خود طالب ہوں گی تو ایسی حالت میں ظاہر ہے کہ برقعہ کیا کام دے سکتا ہے۔ اس لئے برقعہ کے ساتھ عورتوں کو مَردوں کے ساتھ ربط ضبط اور خلاملا کی اجازت دینا ضرور شرعی مقصد کے خلاف ہے اور وہ بھی بے پردگی میں داخل ہے۔ اسی وجہ سے جس طرح شارع نے مردوں کو غیر محرم عورتوں کے دیکھنے سے منع کِیا ہے یوں ہی اُس نے عورتوں کو بھی غیر مردوں کے سامنے سے روکا ہے۔ چنانچہ جناب رسول اللہ ﷺ نے امہات المومنین کے اس سوال کے جواب میں کہ ابن ام مکتوم نابینا ہیں وہ ہم کو نہیں دیکھ سکتے اس لئے اُن سے پردہ کی کیا ضرورت ہے؟ فرمایا تھا کہ وہ نابینا ہیں تم تو نابینا نہیں ہو۔ پس اگر وہ تم کو نہ دیکھیں گے تو تم تو انہیں دیکھوگی پھر پردہ کیا ہوا؟ اس سے شرعی پردہ کی حقیقت خوب واضح ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں جناب رسول اللہ ﷺ اور صحابہ ؓ اور ان کے بعد کے مُسلمانوں سے کہیں منقول نہیں کہ وہ اپنی بیبیوں اور رشتہ داروں کو برقع اوڑھا کر اپنے ساتھ لئے پھرتے ہوں اور ان کو مردوں کے مجمع میں شریک کرتے اور ان سے لیکچر دلاتے اور تقریریں کراتے اور دوست آشنائوں سے ملاقاتیں کراتے ہوں۔
پس اگر شرعی پردہ وہ ہوتا جس کو آج خیر الامور اوسطھا کہا جاتا ہے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ یہ حضرات عورتوں کو اس طرح مقید کرتے اور آزاد خیالوں کے خیال کے موافق ان پر ظلم کرتے۔ دیکھو جس جہاد سے واپسی میں واقعہ افک پیش آیا ہے اس میں جناب رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حضرت عائشہ ؓ تھیں مگر بُرقع پہنے ہوئے اور آزادانہ نہ تھیں بلکہ آج کل کی عورتوں کی طرح محمل میں تھیں۔ اسی طرح جنگِ جمل میں بھی حضرت عائشہ ؓ برقع پوش نہ تھیں بلکہ محمل میں تھیں۔ اگر اس زمانہ میں بُرقع پہن کر آزادانہ پھرنے کی اجازت ہوتی تو محمل کی کیا ضرورت ہوتی اور اس زمانہ میں برقع پہن کر شہروں میں اور جنگلوں میں اور مجمعوں میں عام طور پر پھرنا کیوں نہ منقول ہوتا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ جو حقیقت شرعی پردہ کی آج بتائی جا رہی ہے وہ ٗ وہ ہے جس سے نہ جناب رسول اللہ ﷺ واقف تھے نہ صحابہ نہ تابعین اور نہ ائمہ مجتہدین اور نہ دوسرے مسلمان ٗ پھر علماء اس کو شرعی پردہ قرار دے کر اس کے جواز کا فتویٰ کیونکر دے سکتے ہیں۔
صاحبو! جرائم ہمیشہ سے ہوتے رہے ہیں چنانچہ لوگ چوری بھی کرتے ہیں ٗ شراب بھی پیتے ہیں ٗ زنا بھی کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ سو اگر تم کو بھی جرائم کا شوق ہے تو شوق سے کرو مگر خدا کے لئے قانون الٰہی کو نہ بدلو اور جرائم کو خدا کے قانون میں داخل نہ کرو۔ بلکہ جرم کو جرم سمجھو۔ اپنے کو گنہگار سمجھو دوسروں کو بددینی کی دعوت نہ دو۔ ایسا کرنے سے تم مُسلمان رہ سکتے ہو اور قانونِ الٰہی کی تحریف کرکے جرائم کو قانونِ خداوندی میں داخل کرکے خدا کو نعوذ باللہ جاہل سمجھ کر دوسروں کو خدا کے دین سے روک کر تم مُسلمان نہیں رہ سکتے۔
ص ۶۰:
(۳
جس چیز کو حرام یا جرم قرار دِیا جاتا ہے جتنے افعال یا امور اُس حرام یا جُرم کے وسائل اور ذرائع ہوں بوجہ اعانت جرم کے وہ بھی حرام اور جرم ہو جاتے ہیں۔ گو خصوصیت کے ساتھ ان افعال یا امور کو نام بنام جرم نہ شمار کِیا گیا ہو۔ مثلاً استحصال بالجبرجرم ہے تو جتنی صورتیں اس جرم کی ہوں گی۔ مثلاً ڈرانا دھمکانا ٗ کوٹھڑی میں بند کر دینا وغیرہ وغیرہ سب جرم ہوں گے۔ گو یہ سب امور مفصل جُدا جُدا دفعات جرم کے تصریحاً نہ گِنے گئے ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی امر منجملہ جرائم ایسا ہو کہ جس کو خصوصیت کے ساتھ بھی روکا گیا ہو اور اس طرز سے بھی اس کی ممانعت ثابت ہوئی ہو۔
ص ۶۳:
’’ اور جب تم ان بیبیوں سے کوئی چیز مانگنے لگو تو آڑ کے پیچھے سے مانگو اس میں زیادہ پاکی ہے تمہارے دِلوں کی بھی اور اُن کے دِلوں کی بھی۔‘‘(احزاب) یہ آیت بھی صاف بتلا رہی ہے کہ حجاب جس کی حقیقت پردہ متعارف ہے بہت ضروری اور اہتمام کے قابل ہے کہ باوجود یکہ چیز مانگنا ایک گونہ ضرورت بھی ہے لیکن اس ضرورت کے ساتھ بھی رفع حجاب کی اجازت نہیں ہوئی بلکہ اس حالت میں بھی صیغۂ امر کے ساتھ جو شرعاً وعقًلا وجوب کو مفید ہوتا ہے حفاظتِ حجاب کا خطاب کیا گیا تو بھلا جہاں یہ ضرورت بھی نہ ہو یا اس سے خفیف ضرورت ہو جیسے ہوا خوری یا توسیع معاملات دنیا تو وہاں بے حجابی کی کب اجازت ہوگی۔
ص ۶۴:
۔۔۔۔ یُدْ نِیْن َ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَا بِیْبِھِنَّ ۔۔۔
۔۔۔ اس آیت میں تعلیم ہے گھر سے باہر نکلنے کے ضابطہ کی جو کسی ضرورت سفر وغیرہ سے واقع ہو کہ اس وقت بھی بے حجاب مت ہو بلکہ اپنی چادر کا پلّہ اپنے چہرہ پر لٹکالیں تاکہ چہرہ کسی کو نظر نہ آئے۔ ظاہر ہے کہ اس تصریح کے بعد اس کہنے کی گنجائش کب ہے کہ چہرہ کا چھپانا فرض وواجب نہیں ہے۔ نص قطعی دلالت قطعی۔۔۔۔
ص ۶۶ :
اصلی حکم حجاب کا مل ہے جہاں ضرورت نہ ہوگی اور بوجہ شباب فتنہ کا احتمال ہوگا عام اس سے کہ فتنہ ابصار ہو یا فتنہ فروج ہو وہاں سے اسی حکم اصلی پر عمل ضروری ہوگا۔ اسی طرح مابعد میں محض پائوں کو زور سے رکھنے سے کس تاکید سے روکا ہے اور اس کے ساتھ ہی اس کی علت کہ وجوب اخفائے زینت سے بیان فرما دی گئی ہے۔ ظاہر کہ فتنہ صوت زیور سے بدرجہا فتنہ صورت بڑھا ہوا ہے ۔ جب اس کا انسداد ہوا ہے اس کا کیوں نہ ہوگا؟ پس فی نفسہٖ حجاب کامل کی ضرورت میں کوئی شبہ باقی نہیں رہا
ص ۷۳:
۔۔۔حدیث میں بے ضرورت و بے تکلف عورتوں کے پاس آمدورفت رکھنے کو حرام فرمایا ہے اور فطرت صحیح اور دلالت صریحہ سے ثابت ہے کہ اس آمدورفت کا عمدہ انسداد یہ پردئہ مروجہ ہے ورنہ اور کوئی امر اس درجہ کا مانع قوی نہیں چنانچہ مشاہدہ ہے کہ جب پردئہ مروجہ نہ ہوگا یہ بے محابا آمدورفت بھی ضرور رہے گی ٗ اور ایسی آمدورفت حرام ہے تو بے پردگی جو اس کا ذریعہ ہے نیز حرام ہے (نمبر۳۔ اصول موضوعہ) پس پردہ مروجہ واجب ہے۔۔۔۔
۔۔۔نامحرم مرد عورت کا تنہا جگہ پر بیٹھنا حرام ہے۔ اور اگر پردہ نہ ہو تو عادت اور مشاہدہ شاہد ہے کہ ہرگز اس میں احتیاط نہ کی جائے گی۔ بالخصوص آج کل کے بے باک اور آزاد طبائع سے یہ امر یقینی ہے ۔ پس بے پردگی ذریعہ ہوگی اس تنہائی کی اور یہ تنہائی حرام تو اس کا ذریعہ بھی حرام (نمبر ۳۔ اصول موضوعہ) پس پردہ مروجہ واجب ہے۔
ص ۷۴ :
۔۔۔نظر کرنا اور کرانا حرام ہے۔ اور بے پردگی یقینا اس کا ذریعہ ہوگی تو وہ بھی حرام ہے (نمبر۳۔اصول موضوعہ) پس پردہ واجب ہے۔۔۔۔
۔۔۔۔عورت کو ایسا باریک کپڑا پہننا جس میں بدن جھلکے حرام اور بے پردگی میں بمقتضائے تکلف وزینت طبعی خصوصاً طبیعت زنان ہند ضرور نامحرم کے روبرو باریک کپڑے پہنے جائیں گے اور یہ حرام۔ پس بے پردگی بھی حرام (نمبر۳۔اصول موصوعہ) بتقریر دیگر حدیث میں تصریح ہے کہ سر کھولنا حرام۔ اور حسبِ عادت بے پردگی میں سرکا کھلنا یقینی پس بے پردگی حرام ہوئی (نمبر۳۔اصول موضوعہ) پس پردہ واجب ہُوا۔
ص ۷۷ حاشیہ :
یعنی جلباب کا چہرہ اور ہاتھوں کو ڈھانپنا آیت میں لفظ یدئین سے صاف معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ اس لفظ کی یہی تفسیر کی گئی ہے کہ تمام بدن اُس میں مستور ہو۔ صرف ایک آنکھ راستہ دیکھنے کے لئے کھلی رہے۔ کذاروی عن ابن عباس ؓ۔ ۱۲ محمد شفیع عفا اللہ عنہ
ص ۸۵:
۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں جتنے صیغے استعمال فرمائے ہیں سب میں عورتوں کو فاعل قرار دِیا گیا ہے جیسے ارشاد ہے
یغضضن من ابصار ھن
کہ عورتیں اپنی نگاہوں کو نیچے رکھیں
ویحفظن فروجھن
اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں
لایبدین زینتھن
اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں۔
ولیضربن بخمرھن علیٰ جیوبھن
اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رکھیں
ولایضرین بار جلھن
اور اپنے پیروں کو (زمین پر زور سے ) نہ ماریں۔
ان سب صیغوں میں عورتوں کے کسی نہ کسی فعل کا ذکر ہے مگر الا ماظھر منھا میں ایسا صیغہ اختیار کِیا گیا ہے جس میں عورتوں کے کسی فعل کا بھی ذکر نہیں کیونکہ اس کا ترجمہ یہ ہے مگر وہ زینت جو ظاہر ہو جائے۔
اس سے معلوم ہوا کہ الاماظھر منھا میں زینت کا وہ ظہور مراد ہے جس میں عورتوں کے فعل کو اصلاً دخل نہیں (بلکہ بدوں ان کے ارادہ کے ظاہر ہو جائے) ورنہ دوسرے صیغوں کی طرح یہاں بھی ما اظھرن فرماتے (کہ جس زینت کو عورتیں ظاہر کریں وہ مستثنٰی ہے) مگر قرآن میں ما اظھرن نہیں ہے ماظھر آیا ہے جس میں عورتوں کی طرف ظہور کی نسبت نہیں۔ پس ثابت ہُوا کہ یہاں وہ ظہور مراد ہے جو بدوں عورتوں کے قصد وارادہ کے ہو۔
ص ۹۳ تا ۹۵:
۔۔۔۔جب ان آیات سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ چہرہ اور ہتھیلیوں کے متعلق اصل حکم یہی ہے کہ ان کو چھپانا واجب ہے اور یہ حکم ظاہر میں سب عورتوں کے حق میں عام تھا جوانون کے لئے بھی اور بوڑھی عورتوں کے لئے بھی۔ کیونکہ آیت کے الفاظ میں جوان یا بوڑھی کی کوئی قید مذکور نہیں۔ اس لئے آیت
والقواعد من النسآء اللاتی لایرجون نکاحاً
نے بڑی بوڑھی عورتوں کو اس حکم سے مستثنیٰ کر دیا اور بتلا دِیا کہ ان پر چہرہ اور ہتھیلیوں کا چھپانا واجب نہیں) گو مستحب اُن کے واسطے بھی یہی ہے کہ چہرہ اور ہاتھوں کو چھپائے رکھیں و ا ن یستعففن خیر لھن کا یہی مطلب ہے اور چہرہ اور ہتھیلیوں کے سوا باقی تمام بدن کا چھپانا عام طور پر سب عورتوں کے حق میں واجب ہے۔ چنانچہ سروغیرہ کا اجنبی مردوں کے سامنے) کھولنا بوڑھی عورتوں کوبھی حرام ہے اور یہ جو ہم نے کہا ہے کہ آیت والقواعد من النسآء نے بوڑھی عورتوں کو دوسری آیات کے حکم سے مستثنیٰ و مخصوص کیا ہے۔
اس کا مبنی وہ اصولی قاعدہ ہے کہ جب خصوص کی دلیل کلام میں مستقل موصول ہو تو وہ دلیل عام کے لئے خصص ہو جاتی ہے اور جس کلام کا منفصل اور موخر ہونا معلوم نہ ہو وہ موصول کے حکم میں ہے۔
پس اب حکم کاحاصل یہ ہُوا کہ ان جوان عورتوں پر تو چہرہ اور ہتھیلیوں کا چھپانا ہر حال میں بدستورواجب ہے سوائے اس حالت کے جبکہ اُن کے چھپانے میں تنگی اور تکلیف ہو اور بوڑھی عورتوں کے لئے بھی چہرہ اور ہتھیلیوں کا مردوں کے سامنے کھولنا جائز ہوتا تو آیت والقواعد من النسآء الخ میں بوڑھی عورتوں کی تخصیص بے فائدہ اور پیکار ہوتی۔۔۔۔اب سمجھنا چاہیے کہ پردہ کے یہ سب احکام اجنبی مردوں کے اعتبار سے تھے اور محرموں کا حکم یا جو لوگ محرموں کے مثل ہیں اسی آیت کے دوسرے جملہ و لا یبدین زینتھن الالبعولتھن الخ میں مذکور ہے جس کی تقریر بیان القرآن میں موجود ہے۔۔۔
ص ۹۶ ۔ ۹۷(تنبیہ):
اخیر میں اس بات پر بھی متنبہ کر دینا ضروری ہے کہ جن مجبوریوں کی حالتوں میں عورتوں کو چہرہ اور ہاتھ کھولنے کی شریعت سے اجازت ہے اس کا مطلب صرف یہی ہے کہ عورت کو اگر مُنہ چھپانے میں تنگی یا تکلیف ہو تو بضرورت وہ اپنا چہرہ کھول سکتی ہے یہ مطلب نہیں کہ اُس وقت مَردوں کو بھی عورتوں کے چہرہ کا دیکھنا جائز ہو جائے گا۔ عورتوں کو کسی وقت چہرہ کھولنے کی اجازت دے دینے سے یہ لازم نہیں آتا کہ مردوں کو بھی اُس وقت اُن کے چہرہ پر نظر کرنا جائز ہے اور اس کی دلیل خود اسی آیت میں موجود ہے کہ باوجودیکہ مَرد کو ناف سے گھٹنے تک کے سوا باقی تمام بدن کا کھولنا جائز ہے۔ مگر عورتوں کو پھر بھی یہ حکم ہے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچی رکھیں اور مردوں کے چہرہ وغیرہ کی طرف نظر نہ کریں۔
پس یہاں جس قدر تفصیل عورتوں کے پردہ کے متعلق بیان کی گئی ہے کہ اُن کو اجنبی مردوں سے کس طرح پردہ کرنا چاہیے اور محرموں سے کس قدر اوراجنبی مردوں سے کس وقت اپنی ذات کا چھپانا واجب ہے اور کس وقت بُرقعہ اوڑھ کر باہر نکل سکتی ہیں اور کس حالت میں چہرہ اور ہتھیلیاں کھول سکتی ہیں۔ یہ سب تفصیل عورتوں کے فعل میں ہے۔
باقی مردوں کا جو فعل ہے یعنی عورتوں کا دیکھنا اُس کا حکم جُدا ہے جس کا اجمالی بیان یہ ہے کہ اجنبی عورت سے تو ہر حال میں مرد کو اپنی نگاہ کی حفاظت لازم ہے اور جو عورتیں محرم ہوں اُن سے بوقت احتمال شہوت نگاہ کو پھیرنا واجب ہے۔ یعنی اگر کسی وقت محرم عورت کے دیکھنے میں بھی شہوت نفسانیہ کا احتمال ہو تو مرد پر واجب ہے کہ اس وقت محرم کو بھی نہ دیکھے اور نگاہ کی حفاظت کرے۔خلاصہ یہ کہ مرد کو بجز بیوی اور باندی کے (جو بقاعدہ شرعیہ باندی ہو محض نوکر یا خادمہ یارواجی باندی نہ ہو) اور کسی عورت کا دیکھنا شہوت کے ساتھ جائز نہیں اور اجنبی عورت کو بلا شہوت کے بھی دیکھنا جائز نہیں جب تک دیکھنے کی سخت ضرورت نہ ہو۔ خوب سمجھ لو۔
ص ۱۰۲ (مولا نا حبیب احمد کیرانوی):
۔۔۔پس غیر محارم کی عدم موجودگی میں عورت کا ماسوائے زینت ظاہرہ کو کھولنا خلاف احتیاط ہونے کی وجہ سے خلاف اولیٰ ہوگا۔ اور غیر محارم کی موجودگی میں زینت کا کھولنا بوجہ احتمال فتنہ کے قریب ہونے کے حرام ہوگا۔ اس لئے لا یبدین زینتھن الا ما ظھر منھا میں نہی مطلق طلب کشف کے لئے ہو گی اور لایبدین زینتھن الالبعولتھن میں تحریم کے لئے۔
————————————
© Copyright 2025, All Rights Reserved